فراز ایک ذہین طالب علم تھا، ایک غریب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ ایک سرکاری سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ عقل و دانش، سوجھ بوجھ، حالات و واقعات کا درست تجزیہ کرنا اس کا خاصہ تھا، اس لئے وہ اکثر فارغ اوقات میں خیالات کی دنیا میں مستغرق رہتا، اور اس کی سوچ مطلوبہ سمت محو سفر رہتی اور وہ مختلف گتھیوں کو سلجھاتا، معاشرے میں پھیلے بہت سے مسائل کے بارے غور و فکر کرتا، افراد کی بے حسی اور بے بسی اس کو بہت کھٹکتی تھی۔
چونکہ وہ ایک سرکاری سکول کا طالب علم تھا، جو تعلیمی لحاظ سے اکثر سہولتوں سے ناآشنا تھا۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور خداداد عقل و دانش کی بنیاد پر تعلیمی مراحل تہہ کرتا زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتا رہا۔
جب وہ بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم اپنے ہم عصروں کو دیکھتا ان سے بات چیت کرتا تو وہ ان کو تعلیمی لحاظ سے اپنے ہم مکتبوں سے بہت آگے نظر آتے تھے، مگر ان جدید، زمانے کی سہولتوں سے ہم آہنگ تعلیمی اداروں کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کرنا فراز اور اس کے ہم مکتبوں کے والدین کے بس کی بات نہیں تھی۔ پاکستان کا دوہرا تعلیمی نظام بچپن سے اس کی سوچ کا محور رہا تھا اور وہ گھنٹوں اس ناانصافی کے بارے سوچ سوچ کر سکول، کالج اور یونیورسٹی کی منازل تہہ کرتا آیا تھا۔
اس کے بہت سے ہم جماعت اور ہم مکتب مختلف اوقات میں اس کا ساتھ چھوڑ کر جاتے رہے،لیکن فراز نے اپنی خداد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، اور غیر معیاری تعلیمی درسگاہیں بھی اس کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکیں۔ حالانکہ اس کے کافی ہم جماعت، ہم مکتب چھوٹی موٹی سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں حاصل کرکے اپنے اہل خانہ کی کفالت کررہے تھے۔
اور اکثر اوقات وہ فراز کو بھی ملازمت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے، اور مختلف محکموں کی ملازمت کے اشتہارات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اس کے والدین بھی اسکو چھوٹی موٹی ملازمت اختیار کرکے گھر بسانے کا مشورہ دینے میں پیش پیش رہتے اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے کے حق میں نہیں تھے، لیکن فراز شعور کی منزلیں تہہ کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ چکا تھا، جہاں اپنی ذات سے زیادہ افراد اور معاشرے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ فراز بچپن سے جو کچھ سوچتا اور جو بھی نتیجہ اخذ کرتا وہ اس سے اپنے ہم مکتب اور ہم جماعتوں کو آگاہ کرتا آرہا تھا کچھ تو اس کی باتوں کو سنی ان سنی کرتے اور کچھ اس کی باتوں کو بہت غور سے سنتے اور اس کی دانشمندی کے قائل ہوجاتے۔
وہ ہمیشہ ملک میں دہرے معیار تعلیم کے نقصانات کے بارے اپنے لوگوں کو طرح طرح کی توجیہات بیان کرتا اور ایک سے بڑھ کر ایک دلیل کے ساتھ ان کو قائل کرتا، اب تو بہت سے لوگ اس کے ہم آواز بنتے جارہے تھے۔ روبروز اس کے حلقہ احباب بڑھ رہا تھا، اور اس نے یہ بات ٹھان لی تھی کہ زندگی کی آخری سانس تک اس فرسودہ اور دہرے تعلیمی نظام کے خلاف لوگوں کو آگاہی دیتا رہے گا۔ وہ اس بات کا مصمم ارادہ کرچکا تھا کہ غیر معیاری تعلیمی نظام کیخلاف آواز اٹھائے گا اور وہ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور ہر قیمت چکانے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھا۔
فراز نے جس آگاہی مہم کا آغاز ہائی سکول کے دنوں سے کیا تھا وہ یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے بہت َسے دلوں میں گھر کرچکی تھی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اس کی آگاہی مہم میں شامل ہوچکے تھے اور اس کے ہم اواز بن گے تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد فراز نے ملازمت کرنے کی بجائے خود کو عوام کیلئے وقف کردیا تھا اور وہ مختلف سکولوں کالجوں میں جاکر تعلیمی سرگرمیوں کے فارغ اوقات میں طالب علموں کو دہرے اور فرسودہ نظام تعلیم کے بارے آگاہ کرنے لگا اب وہ فراز سے ڈاکٹر فراز بن چکا تھا لوگ اس کی باتوں پر کان دھرتے تھے، اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مہم روز بروز بڑھ رہی تھی اور اس کا دائرہ کار بھی ملک کے مختلف حصوں تک پھیل رہا تھا
دنیا میں کوئی بھی ملک تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، اور ایک بہترین معاشرہ مرتب کرنا تعلیم کے بیغیر ناممکن ہے۔ان نکات کے پیش نظر ڈاکٹر فراز نے ایک مہم شروع کی جس کے چند بنیادی مطالبات تھے
▪تعلیمی بجٹ میں اصافہ کیا جائے۔
▪ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
▪پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کی بجائے فلاحی مقاصد کے تحت چلانے کا پابند کیا جائے۔
ان مطالبات کے تحت وہ گلی گلی نگر نگر گھومتا اور وہ جہاں بھی جاتا اس کے اردگرد عوام کا جم غفیر جمع ہوجاتا، یہ بات اشرافیہ کو چبھتی تھی، وہ ڈاکٹر فراز کے اپنی مدد آپ کے تحت کئے گئے سیمینارز، کانفرنسز، پبلک میٹنگز، جلسوں اور ہزاروں لاکھوں کے اجتمعات سے خائف رہنا شروع ہوگئے، ان کو ڈاکٹر فراز کی روز بروز بڑھتی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی، انکو ڈاکٹر فراز اپنے راستے کی رکاوٹ لگنے لگا۔
جہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اپنا کاروبار چوپٹ ہوتا نظر آرہا تھا تو وہیں سیاست دان سوچنے پر مجبور تھے اگر عوام نے ڈاکٹر فراز کے پروگرام کیمطابق شعور حاصل کرلیا تو وہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے ستر سال سے عوام کو محکوم رکھ کر ان پر حکومت کرنے والی قوتیں اس ابتلاء کی سرکوبی کیلئے سرگرم ہوگئی تھیں بالآخر ایک منصوبہ کے تحت عوام میں یہ پراپیگنڈا پھیلایا گیا کہ ڈاکٹر فراز غیر ملکی دشمنوں کا ایجنٹ اور غیر ملکی ایجنسیاں اس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے پاکستان کو غیر مستحکم اور توڑنے کی سازش کررہی ہیں اور داکٹر فراز خطیر رقم کے بدلے دشمن ممالک کے ایجنڈے پر کام کرکے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلانے کا کام کرکے ملک کو توڑنے کی سازش کا حصہ ہے اور وطن کا غدار ہے