عید کا موقع ہے اور حکومت نے پٹرول مہنگا کر دیا. یہ معمولی واقعہ نہیں. یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حکومت عوامی احساسات سے کس خوفناک حد تک بے نیاز ہے. پہلی دفعہ کسی حکومت کو عوامی جذبات اور احساسات کو یوں اس دیدہ دلیری اور بے نیازی سے جوتے کی نوک پر رکھتا دیکھ رہا ہوں.
اس سفاک پالیسی کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ کیا کرتے خزانہ خالی ہے مجبوری ہے. خزانہ خالی تھا تو حکمت اور بصیرت سے کام لینا تھا. دھیرے دھیرے سب کام کرنے تھے. کچھ عرصہ مزید قرض لیا جاتا اور پیداواری منصوبے شروع کیے جاتے. کچھ اخراجات کم کیے جاتے اور کچھ بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا. آپ کی تو تیاری ہی نہیں تھی. اول آئی ایم ایف کو تڑیاں لگاتے رہے پھر اس کے قدموں میں جا کر بیٹھ گئے.
آپ نے تو ایک تماشا لگا دیا. سارا بوجھ عوام پر منتقل کر کے راتوں رات خراب معیشت بہتر کرنے چل پڑے. بصیرت کا یہ عالم تھا کہ پہلے منگای کی تو ساتھ تڑی لگای آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا. اور چند ماہ بعد پھر مہنگائی کر دی کہ آئی ایم ایف کی شرائط مانے بغیر چارہ نہیں.