سوداگر، سیکس پیناژ اور چئیرمین نیب

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب یورپ میں کیمیونزم اور کیپٹلزم کے درمیان سرد جنگ اپنی انتہا پر تھی تو دونوں اطراف کے حساس اداروں نے نِت نئے طریقوں سے حریف کو قابو کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ مغربی جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی کیلئے یہ کام قدرے آسان تھا کیونکہ مشرقی جرمنی میں کام کی اُجرت بہت تھوڑی تھی اور کسی کو بھی پیسے سے خریدنا مُشکل نہ تھا۔ لیکن روس نواز مشرقی جرمنی کی ایجنسیوں کیلئے مُشکل تھی کیونکہ مغربی جرمنی میں اہم جگہوں پہ کام کرنے والے لوگوں کو بہت اچھی تنخواہ کے ساتھ ایک لائف سٹائل بھی دیا جاتا تھا۔ اس مسلے کے حل کیلئے مشرقی جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی نے ایسے افسروں کی ٹیم تیار کی جن کا کام اپنے شکار کو محبت میں گرفتار کرنا تھا۔ اُن کے اس عمل کو Sexpionage کا نام دیا گیا۔

بون، جو کہ اُس وقت کے مغربی جرمنی کا دارالحکومت تھا، کو انٹیلیجنس کی دُنیا میں Sexpionage کا دارالخلافہ بھی پکارا جاتا تھا۔ جوان اور خوبصورت مرد اور چنچل حسیناوں پہ مشتمل انٹیلی جنس افسران کو بھرتی کر لیا گیا اور اُن کو کٹھن تربیت کے مراحل سے گزارا گیا۔ ٹریننگ میں سب سے زیادہ اہمیت مقابل جنس کی نفسیات کے بارے میں آگاہی، جذبات کے ساتھ کھیلنا اور زہنی و جسمانی قوت کو بڑھانے کیلئے اختیاط و پرہیز شامل تھا۔

جیسا کہ بون سرکاری دفاتر اور سفیروں سے بھرا ہوا تھا، اس وقت ہر سیاسی و دفاعی تبدیلی کو یہاں سے گزرنا پڑتا تھا۔ صدر کے سیکریٹری، وزراء، مسلح افواج کے اعلٰی افسران اور مغربی قوتوں کے اہم سفیروں کے سیکریٹری ان جھوٹی محبت لگانے والے انٹیلیجنس اہلکاروں کیلئے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ اِن کو ان کے شکار کے بارے بتا دیا جاتا اور پھر یہ اپنے شکار کیلئے ایک جال بُننا شروع کر دیتے۔

یہ وہ وقت تھا جب NATO کو ترتیب دیا جا رہا تھا اور سوویت حکومت کی اُس پہ نظریں جمی ہوئی تھیں۔ گیبریل کلین اور مارگریٹ ہیکلے نامی دو نوجوان اور خوبصورت خواتین مشرقی جرمنی کیلئے اہم اہداف تھے. گیبریل مغربی جرمنی میں امریکی سفیر کی سیکریٹری تھیں جبکہ مارگریٹ صدر کی سیکریٹری تھیں. مشرقی جرمنوں نے "اکیلی چڑیوں” کی متوقع ضروریات کے مطابق اپنے دو بہترین “محبت باز” بھیجے۔ اور انہوں نے کمال مہارت سے اپنی چڑیوں کا شکار کیا ہاکس اور ایک دہائی سے زائد عرصے تک ان سے خصوصی دستاویزات کے ساتھ ساتھ زبانی معلومات بھی اپنے گھونسلے تک پہنچاتے رہے۔ جب دونوں سیکریٹری خواتین کو گرفتار کیا گیا تو تب بھی اُن کے علم میں نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔ ایسے ہی کئی اعلٰی فوجی افسر بھی محبت باز حسیناؤں کا شکار بنے اور سوویت حکومت کو مغرب کے راز ملتے رہے۔

حُسن کے جال میں پھنسنا اور کسی کی زُلف کا دیوانہ ہو جانا، کوئی نئی بات نہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور سابق اطالوی وزیراعظم سلویو برلوسکونی کی مشہور مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں کوئی بھی مواد آسانی سے وائرل ہو سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال نے Sexpionage کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ مائیکرو کیمرے آسانی سے کسی بھی لباس یا زیور میں نصب کیئے جا سکتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ حسبِ ضرورت مواد کو اُوپر نیچے بھی کیا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں Sexpionage سے بچنا بہت مشکل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ ایک شخص کا اپنے پسند کے شخص کی طرف مائل ہونا ایک فطری عمل ہے۔ آج کے دور میں دو ہی صورتوں میں Sexpionage سے بچا جا سکتا ہے۔ یا تو انسان جس سے محبت لگا بیٹھے، اُس سے بچے، یا پھر محبت سے ہی بچ بچا کے نکل لے۔ کیونکہ آج کے دور کی Sexpionage میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی بھرمار ہے۔ اور آڈیو یا وڈیو ریکارڈنگ کا برآمد ہو جانا عام ہے۔
پاکستان میں محبت میں گرفتاری کی تازہ ترین مثال جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی ہے، جو اس وقت قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ Sexpionage کیلئے ایک سینتیس سالہ حسینہ کو تیار کیا گیا۔ طیبہ فاروق نامی یہ خاتون بلاشُبہ نہایت خوبصورت اور ذہین ہے۔ اور اس کیلئے کسی کو بھی اپنی زُلف کا اثیر بنانا ناممکن نہیں۔ طیبہ نے نہایت مہارت سے نیب کے چیئرمین کو اپنے جال میں پھنسایا اور چُپکے چُپکے اپنا اصل کام، یعنی Sexpionage کو سرانجام دیتی رہی۔ اُس نے آڈیو اور ویڈیو پہ مشتمل خاصہ مواد جمع کر لیا۔ اور اُس نے پہلے محبت کے چکر میں ہی آہستہ آہستہ اپنی ڈیمانڈز چیئرمین نیب کے سامنے رکھنی شروع کر دیں۔ لیکن جب اُس پہ یہ عیاں ہو گیا کہ چیئرمین نیب کسی بھی صورت اس حد تک نہیں جائیں گے کے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو ہی داو پہ لگا دیں تو آخری حل یہی بچا کے وہ وڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرنا شروع کر دے۔

حال ہی میں میری نیب کے ایک اعلٰی افسر سے ملاقات ہوئی جو اس واقعے کی تمام تفصیلات سے منظرعام پہ آنے سے پہلے سے ہی واقف تھے۔ اُن کا یہ کہنا تھا کہ یہ تو کچھ نہیں، ویڈیو اور آڈیو کلپس کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ اور طیبہ نامی یہ لڑکی پچھلے سال ستمبر سے ہی چیئرمین صاحب سے ملنے کی خواہشمند تھی۔ آخرکار اس کی یہ خواہش چھ ماہ پہلے پوری ہوئی اور اُس کے بعد سے ہی Sexpionage کا کھیل شروع ہو گیا۔
مزید یہ کہ، بلیک میلنگ کا سلسلہ مارچ سے ہی شروع تھا۔ خاتون چاہتی تھی کہ چیئرمین نیب کچھ ہائی پروفائل کیسز کو مُلکی سیاست کی اہم شخصیات کے حق میں متاثر کریں جس سے کہ چیئرمین صاحب شدید نفسیاتی تناو کا شکار ہو گئے اور انہوں نے نیب کے ہی قریبی ساتھیوں کو اعتماد میں لے کے سارے قصے سے آگاہ کر دیا۔ نیب کے اُن افسران نے چیئرمین صاحب کو مشورہ دیا کہ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال کو اعتماد میں لیں اور پھر ڈٹ جائیں۔ نیب کے افسر نے مزید کہا کہ طیبہ کو Sexpionage کا کھیل رچانے والوں نے تب سے ہی ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں نامعلوم مقام پر پناہ دی ہوئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی میں پیش آنے والے واقعات پہلے سے ہی کسی بڑے طوفان کی شُنید دے رہے تھے۔ اس میں سولہ مئی کو منظرِ عام پہ آنے والی خبر اہمیت کی حامل تھی جس کے مطابق جب ڈی جی نیب عرفان منگی نے آصف علی زرداری سے اگلی پیشی پہ ملنے کا کہا تو جواباً اُنہوں نے دو دفعہ ٹیبل کھٹکھٹا کے کہا کہ “دیکھتے ہیں کہ میری اگلی پیشی تک آپ یہاں ہوتے بھی ہیں یا نہیں!”۔ اس کے بعد عرفان منگی نے تییس کی نئی تاریخ دی جس پہ بعد میں زرداری صاحب حاضر ہی نہ ہوئے۔
پھر اچانک سے جاوید چوھدری صاحب کا کالم آنا، اور چئیرمین نیب کا اُس کی صحت سے انکار کرنا اور کہنا کہ اُنہوں نے تو کوئی انٹرویو دیا ہی نہیں۔

اور پھر اس کے بعد اچانک سے Sexpionage کے دوران بنائی گئی آڈیوز اور ویڈیوز کا منظرِ عام پہ آنا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے آخری وارنگ چل رہی تھی اور وہ بھی چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس کے بعد ختم ہو گئی۔ اور تعجب کی بات یہ کہ آڈیوز اور ویڈیوز کو سب سے پہلے چند مخصوص صحافیوں کو ہی پہنچایا گیا کہ جن کی وجہِ شُہرت ایک سیاسی جماعت کے میڈیا سیل کے واٹس ایپ گروپ میں موجودگی ہے۔
بس پھر کیا تھا، اچانک سے سوشل میڈیا پہ قابلِ اعتراض ویڈیوز اور آڈیو کو وائرل کیا گیا، پھر زرداری صاحب کی طرف سے چئیرمین نیب کے استعفٰی کی صدائیں اور پھر کرپشن کی وجہ سے لکھپت میں جیل کاٹتے سابق وزیراعظم کی ہمنوائی، ایسے لگا جیسے سب طاق میں بیٹھے تھے۔

مشہور کولمبین ڈرگ لارڈ پابلو ایسکوبار نے کیا خُوب کہا تھا کہ، “ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور وہ قیمت کیا ہے، یہ جاننا سب سے ضروری ہے!”
کسی بھی عہدے دار کے ایمان کا سودا کرنے کیلئے اُس کو پیسے اور زمین سمیت طرح طرح کے لالچ دئیے جاتے ہیں اور جب یہ ظاہر ہو جائے کے وہ عہدے دار اس طرح کی لالچ میں آ کے اپنے فرض سے غداری نہیں کرے گا تو آخری آپشن کے طور پہ Sexpionage کے ذریعے بلیک میل کرنا ہی بچتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر “سوداگروں” کو اس حد تک جانا پڑا ہے تو شاید اسی وجہ سے کہ اُنہوں نے اس سے پہلے چئیرمین نیب پہ ہر حربہ آزمایا ہوگا اور ناکامی کا سامنا ہی کیا ہو گا۔
ایک بات تو صاف ہے، کہ چئیرمین نیب “سوداگروں” کے آخری حربے سے بھی بلیک میل نہ ہوئے اور اپنے پرائمری فرض کا سودا نہ کیا۔ کیونکہ اگر وہ سودا کر لیتے تو یہ ویڈیوز اور آڈیوز کبھی منظرِ عام پہ نہ آتیں۔ سوداگروں کے بھی اپنے اصول ہوتے ہیں!
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ کامیاب Sexpionage کے آپریشن کے بعد، جب سوداگروں کو بلیک میلنگ میں کامیابی نہ ملی تو اُنہوں نے ویڈیوز لیک کر کے اپنی سوشل میڈیا ٹیمز میں بیٹھے صحافیوں اور نام نہاد تجزیہ کاروں کے ذریعے کالم لکھوانے شروع کر دئیے اور یہ تعاثر دیا کہ نیب بخثیت ادارہ فیل ہو گیا ہے۔ اور ناصرف یہ کہ نیب کے چئیرمین استعفٰی دیں بلکہ نیب کو ہی تخلیل کر دیا جائے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کے نیب کے نوجوان اور اعلٰی تعلیم یافتہ افسروں کی بدولت، آج نیب تحقیقات کو اُس وُسعت تک لے گیا ہے کہ وہ گذشتہ حکومتوں میں کی گئی کرپشن کو منظرِعام پہ لانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایسے کئی کیس ہیں کہ جن کے ثبوت گذشتہ حکومتوں میں حکومتی عمارتوں کو فرضی آگ لگوا کے ضائع کئے گئے تھے۔ اور آج وہ ثبوت دوبارہ سے مُکمل تحقیق کے ساتھ نیب کے افسروں کی ٹیبلز پہ موجود ہیں۔

رہی بات چئیرمین نیب کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی تو میں اس بات سے اتفاق کروں گا کہ چئیرمین نیب کو اپنے عہدے کے شایانِ شان حرکت کرنی چاہئیے تھی۔ بھلے Sexpionage کا شکار تھے مگر اس شرمناک کھیل میں اُن کا کردار بھی کافی کمزور ثابت ہوا۔ ہالی وُوڈ کی مشہور فلم اسپائڈر مین کے ہیرو نے ایک موقعے پہ کیا خوب بات کی تھی کہ اُونچا عہدہ آپ سے ذمہ داری کا اعلٰی معیار مانگتا ہے۔ اور ذمہ داری کا وہ معیار چئیرمین نیب کے رویے میں کہیں نظر نہ آیا۔ ہاں البتہ پہلے جو ہُوا سو ہُوا، لیکن بلیک میلنگ کے اس گھٹیا فعل میں آخری وقت تک فرض شناسی سے غداری نہ کرنا قابلِ ستائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راجا فیصل اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں، انڈس نیوز سے وابستہ ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے