قوموں کا تشخص ‘ ان کے علم اوران کی صنعت و حرفت سے ہے؛ اگر کسی قوم میں یہ دونوں اوصاف نہ پائے جائیں تو اس کا وجود عدم کے برابر ہے۔ یہ دونوں اوصاف کوئی گھٹی نہیں‘ جن کو پلا کر قوم علم اور صنعت و حرفت میں ماہر ہو جائے‘ بلکہ طویل مدتی منصوبے اور عمل کے نتیجے میں قوموں میں یہ اوصاف پیداہوتے ہیں ‘جو آگے چل کر ان کا تشخص بنتے ہیں‘ جس کی بہترین مثال جاپان اور چین ہیں۔آج کے تناظر میںبھارت کے مسلمانوں کو بھی ایک ایسے طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے‘ جو ان کے وجود کو مستحکم کرے۔ یہ منصوبہ تعلیم سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ تعلیم ہر کامیابی کی کنجی ہے۔
بھارت میں ایک ایسی پارٹی کی حکومت، اکثریت کے ساتھ دوبارہ آئی ہے ‘جس کا مسلمانوں کے خلاف ایک خاص نظریہ ہے۔یہ وہ پارٹی ہے ‘جو تاریخ کو بھی خاص چشمے سے دیکھتی ہے اور اس کا خواب ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹربنایا جائے۔1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد‘ مسلمانوں کا تشخص برقرار رکھنے کا کام سر سید احمد خاں نے شروع کیا ۔ انہوں نے جہاں ایک طرف”اسباب ِبغاوت ہند‘‘ لکھ کر انگریزوں کو ان کی غلطیاں یا ددلائیں تو دوسری جانب انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے رسالہ ”تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا اور1874ء میں ایم اے او کالج قائم کر دیا ‘جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن چکی ‘ جو عصری علوم سے ملک و قوم کو لیس کر رہی ہے؛ حالانکہ اس وقت ان کے پاس کوئی رول ماڈل نہیں تھا‘ لیکن جب انہوں نے غو رو فکر کیا تو تعلیم ہی سب سے بہتر راستہ دکھائی دیا‘ جس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت ہمارے پاس بہت سے ماڈل ہیں‘ جن کو پیش ِنظر رکھ کر ایک طویل مدتی منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ حالات کی سنگینی1857ء سے کسی قدم کم نہیں۔ اس وقت خوف انگریز حاکم کا تھا‘ لیکن آج یہ خوف ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔
ہجومی تشدد ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں بریلی میں جو واقعہ رونما ہوا‘ وہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی بدنامی کا سبب بنا۔ عالمی میڈیا نے اس کورپورٹ کیا اور ساتھ ویڈیو بھی دکھا ڈالی‘ جس میں کھانا کھاتے ہوئے چار مسلم لڑکوں کو حکومت کے نشے میں چور‘ سات آٹھ نوجوان بیلٹ سے مار رہے ہیں اور مغلظات بک رہے ہیں۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بھینس کا گوشت کھا رہے تھے ‘جو شاید گھر یا ہوٹل سے لائے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی ہندوستان میں کیا حالت ہے اور وہ کس طرح سے زندگی گزاررہے ہیں؟اگر کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا گیا اور طویل مدتی منصوبہ نہ بنایا گیا تو اندیشہ ہے کہ ایک صدی کے دوران ہی ہندوستا ن دوسرا سپین نہ بن جائے۔اس وقت مختلف ریاستوں میں متعدد تعلیمی و فلاحی ادارے کا م کررہے ہیں ‘جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں‘ لیکن حالات یہ بتاتے ہیں کہ جو نتائج برآمد ہوئے ہیں‘ وہ کافی نہیں ہیں۔
اسی طرح جو ادارے ہیں‘ آبادی کے تناسب سے کم ہیں اور ان کا دائرہ کار صرف اپنے شہروں تک ہی محدود ہے‘ کیونکہ اکثر و بیشتر کا حال یہ ہے کہ دوسرے سکولوں کی طرح چھوٹے دیہاتوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی راستہ دکھانے والا نہیں۔ ضرورت صرف تعلیم نہیں‘ بلکہ افراد سازی کی ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ادارہ ہو‘ جس نے اب تک کوئی ایک آئی اے ایس افسر دیا ہو‘ جس کی سب سے بڑی وجہ عدم رہنمائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سبھی اور نئے قائم ہونے والے اداروں اور سوسائٹیوں کوسینٹر لائز کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ تاکہ ہر ادارہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس سے پورے بھارت میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم سینٹرلائز ہو جائے گا‘ جس کے خاطر خواہ نتائج آج نہیں‘ لیکن آنے والے برسوں میں دکھائی دینے لگیں گے۔
ایک بات ذہین نشین کر لیں کہ آر ایس ایس‘ جس کی آج حکومت ہے اور خاص نظریہ پر مبنی نظامِ تعلیم ترتیب دے رہا ہے‘ اس نے اپنا آغاز”ششو مندر ‘‘ اور سرسوتی مندر‘‘ جیسے سکولوں سے کیا تھا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان سکولوں سے پڑھے ہوئے آئی اے ایس افسران ناتھو رام گوڈسے کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں۔ اب ایسے افسران سے جمہوری نظام کو چلانے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس لئے ضروری ہے کہ پرائمری‘ ثانوی اور اعلیٰ سطح پر منظم طور پر اپنے سکول قائم کئے جائیں ‘جن میں مدارس اہم کردار ادا سکتے ہیں‘ لیکن اس کے لئے ان کو اپنے نظامِ تعلیم میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے‘ جو دینی مدارس عرصہ دراز سے قائم ہیں‘ وہ اپنے فرائض ِمنصبی بہتر طریقے سے ادا کر رہے ہیں ‘لیکن آج کے دور میں دینی علوم کے ساتھ ‘عصری علوم میں مہارت کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی؛اگر قوم کے قائد پیدا کرنے ہیں‘ توا س کے لئے ضروری ہے کہ ان مدارس سے ڈاکٹر‘ انجینئرز‘ اور سائنس دان بن کر نکلیں‘ لیکن یہاں ایسا نہیں ہو رہا اور جب تک ایسا نہیں ہو گا ‘بھارتی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوگا۔