وقفہ عمر کا وہ حصہ آن لگا ہے جہاں حیرت آنجہانی، خبر ناگہانی اور دل اوراقِ خزانی ہو جاتے ہیں۔ انور سجاد کے رخصت ہونے کی اطلاع ایسے پہنچی جیسے اجل دیدہ قیدیوں کو خوشیوں کے اس باغ کی جھلک دکھائی دے جس کی کھوج میں نکلنے والے پندرہویں صدی کے ڈچ مصور بوش کے جہنم میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ انور سجاد کے مختصر مگر چھریرے بدن میں بجلیاں بھری تھیں، وہ خیال کا برق انداز، لفظوں کا مصور اور رنگوں کا شاعر تھا۔ انور سجاد آزادی کا عاشق اور آمریت کا دشمن تھا۔ پچاس کی دہائی میں آمریت کے پہلے حادثے کے ساتھ انور سجاد طلوع ہوا اور اسی کی دہائی میں آمریت کی تیسری آزمائش کا آخر آتے آتے غروب ہو گیا۔ اس کے بعد انور سجاد تیس برس جیتا رہا مگر آمریت وہ بلا خیز کشاکش ہے جس میں بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور جوانیاں خجل ہو جاتی ہیں۔ باقی کیا رہتا ہے وہی جو میلارمے نے کہا تھا،the perfume of sadness that remains in the heart.وہی جو میر صاحب نے کہا تھا، افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر…
انور سجاد مختصر اور تیز قدموں کا رقاص تھا مگر اس کی سناؤنی عجیب خالی دنوں میں آئی جب جنازوں کے نشان ہمارے شانوں پر اتر آئے ہیں، اپنے طویل ناول کی پہلے حصے کی آخری سطریں لکھتے ہوئے مارسل پراوست نے شاید ہمارا ہی ذکر کیا تھا، ’کسی خاص شکل کو یاد کرنے کے معنی ہیں کسی خاص لمحے کا افسوس کرنا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ گھر، گلیاں اور کوچے بھی برسوں کے مانند گزرتے چلے جاتے ہیں‘۔ گزر جانے کا ملال تو فیض صاحب نے بیان کر دیا تھا، گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے۔ المیہ تو یہی ہے کہ بازوئے قاتل کو قرار ہے اور نہ اپنے کئے کی فہم۔ پیش قدمی کا راستہ نہ ملے تو اپنے ہی صحن میں مورچے کھود لیتا ہے جو بارش میں گہری کھائیاں بن جاتے ہیں۔ ان گدلے جوہڑوں سے خارا شگاف نعرے بلند ہوتے ہیں، غنیم کے دمدموں کو نعرہ ہائے بلند آہنگ سے کیا خوف، کھپریل کی ٹپکتی چھت تلے بیٹھے اہل وطن البتہ جانتے ہیں کہ فتح انگلش کی ہوتی ہے، قدم جرمن کے بڑھتے ہیں۔
جب یہ تحریر آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو اگلے برس کا بجٹ پیش ہو رہا ہو گا، بجٹ کے خدوخال اہم ترین ریاستی راز ہوتے ہیں۔ 1947میں ہیو ڈالٹن (Hugh Dalton) برطانیہ میں لیبر حکومت کا وزیر خزانہ تھا۔ ہاؤس آف کامنز میں بجٹ تقریر کے لئے جاتے ہوئے ڈالٹن نے کسی صحافی کو بجٹ میں ٹیکس میں ردوبدل کی کچھ تفصیل بتا دی۔ ابھی اسٹاک مارکیٹ کے بند ہونے میں کچھ وقت تھا۔ نتیجہ یہ کہ ڈالٹن کو بجٹ کے رسمی اعلان سے چند منٹ پہلے اعداد و شمار افشا کرنے کی نادانستہ کوتاہی پر مستعفی ہونا پڑا۔ یہاں صورت یہ ہے کہ سالانہ تخمینے کا کیف و کم آنے پائی کی تفصیلات کے ساتھ صحافیوں تک پہنچ چکا ہے۔ عام آدمی کو اشاریے، اعشاریے اور فیصد کی کیا سمجھ لیکن یہ جانتا ہے کہ اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ۔ وزیراعظم نے بجٹ سے ایک روز قبل صبح کے اوقات میں قوم کی سماعت کا امتحان لیا۔ خیال تھا کہ شاید معیشت کی الجھی ہوئی تصویر کی کچھ تفسیر بیان کریں گے، ایک دوسرے کو قطع کرتی ان گنت آڑی ترچھی لکیروں کو متعین شکل دیں گے۔
سال گزشتہ کا معاشی سروے سامنے آچکا، معلوم ہوا کہ مویشیوں کی افزائش کے سوا معیشت کا کوئی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ بنیادی نکتہ یہ کہ معیشت کی نمو کا ہدف چھ فیصد سے کچھ زیادہ تھا۔ ہم نے گرتے پڑتے تین کا عدد پار کر لیا۔ درآمدت میں کمی کی نوید سنائی گئی ہے، حقیقت اس کی یہ کہ ملک میں معاشی سرگرمی ہی نہیں ہو گی تو درآمدات میں سامان زیبائش کے علاوہ کیا منگوایا جائے گا؟
برآمدات کا قصہ یہ رہا کہ جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے۔ حکومت کی آمدنی کا دارومدار محصولات پر ہوتا ہے، رواں برس میں چار ہزار ارب روپے جمع نہیں کر پائے اور نئے سال میں ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے کا ہدف رکھ لیا ہے۔ اگر بے آب و گیاہ صحرا میں کوئی دفینہ دریافت نہیں ہوتا تو یہ اضافی 1500ارب روپے مفلوک الحال اور مدقوق مخلوق کی ہڈیوں سے نچوڑے جائیں گے۔ خدا ہمیں اپنی امان میں رکھے کہ اس ملک میں دو حفیظ پائے جاتے ہیں۔ دروازے کے اندر حفیظ شیخ ہیں اور دہلیز پر حفیظ پاشا کھڑے ہیں، دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوئی۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔ گزرنے والا مالی برس اچھا نہیں تھا اور آنے والے سال میں کسی اچھی خبر کی امید نہیں باندھیے۔ ہمیں ہر ایک رنگ میں خسارہ بہار تھا۔ وجہ سادہ ہے کہ ہماری فصل سر نکالتی ہے تو زور آور اپنے مویشی چھوڑ دیتا ہے۔
اور یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ مویشیوں کی افزائش وہ واحد شعبہ ہے جس میں ہم ہدف سے بھی بڑھ کر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ خارجہ محاذ پر مشرق و مغرب میں حالات پہلے سے دگرگوں تھے، شمال سے بھی اچھی خبریں نہیں ہیں۔ شمال سے مراد محض ہنگو، بنوں اور کرک کے نواح مت سمجھئے، علاقائی تناظر پر آنکھ رکھیے۔ اسی مہینے ایف اے ٹی ایف سے معاملات کا نتیجہ بھی آنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ ہمیں سانس لیتے رہنے کی اجازت مل جائے گی لیکن اسے حبس دوام بعبور دریائے شور سمجھیے۔ کھارے پانی کی یہ خندق ہم نے خود کھود رکھی ہے۔ ہو سکے تو کتابوں کی کسی دکان سے بوش کی مصوری کا مرقع خرید لیجئے۔ استعاروں کا ایک جہان ہے۔ بوش نے تخلیق کائنات کے الوہی استعاروں کو نوع بنوع ترتیب دے کر معنی کی ایک دنیا تخلیق کی۔ کہیں خوشیوں کا باغ ہے تو کہیں جہنم کی کج روی۔ انور سجاد یہی کہتا کہتا مر گیا، اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا…