کیا زمانہ تھا جب الطاف حسین کو پہلی بار منی لانڈرنگ کے شبہ میں سکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر میں سوال و جواب کے لئے طلب کیا گیا تو ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کو باقاعدہ فوری بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ معمول کی کارروائی ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ شہری اپنا کاروبار جاری رکھیں۔
یہ اعلان اس لئے کرنا پڑا کہ چوتھائی صدی سے سندھ کے شہری علاقوں کے لوگ عادی ہو چکے تھے کہ ایک کونسلر یا سیکٹر انچارج یا رکنِ صوبائی اسمبلی کی گرفتاری کی بھی خبر آئے تو موٹر سائیکل سوار لڑکوں کی آمد کا انتظار کئے بغیر دوکانوں کے شٹر گرا کے تالا لگا دیں۔
ایسا بھی ہوا کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے عین دوپہر میں ’پرامن یومِ احتجاج‘ کی اپیل کی اور شہر آدھے گھنٹے میں یوں ہو گیا گویا کسی جادوئی ہاتھ نے منجمد کر دیا ہو اور پھر ایک گھنٹے بعد احتجاج کی اپیل واپس لی گئی تو مجسموں میں پھر سے حرکت پیدا ہو گئی اور نل بٹا سناٹا شاہراہوں پر دوبارہ ٹریفک جام ہو گیا۔
لندن سے الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر آنے کے نصف گھنٹے بعد میں نے فلیٹ کی کھڑکی سے جھانکا۔ سب دوکانیں کھلی ہیں۔ مجھے لگا کہ شاید دوکان داروں تک یہ خبر نہیں پہنچی۔ نیچے اتر کر عبداللہ بھائی پان والے سے کہا الطاف بھائی گرفتار ہو گئے۔ پان پر کتھا لگانے اور دوسرے ہاتھ سے چائے سڑکنے میں مصروف عبداللہ بھائی نے کہا ’معلوم ہے۔ چائے منگواؤں؟‘
ایک ’گاہک‘ بولا عمران کی قسمت اچھی ہے۔ قوم کل زرداری کی گرفتاری پر لگی پڑی تھی آج الطاف بھائی کی خبر میں مست ہے۔ بجٹ کا ڈنڈا کسی کو محسوس نہیں ہوگا۔
ایک اور نے لقمہ دیا ’انگریزوں کو الطاف بھائی کی تین سال پرانی تقریر اب جا کے سمجھ میں آئی ہے۔ گوروں کو بھی پتہ چل گیا کہ اب الطاف بھائی کسی کام کے نہیں اس لئے او ایل ایکس پر بیچ دو۔ دیکھ لینا اگر انہیں پاکستان کے حوالے بھی کر دیا تو سنگل خبر ہی چھپے گی۔‘
اب تو یہ بحث بھی نہیں ہوتی کہ الطاف حسین مولا جٹ ہیں کہ نوری نت۔ کل ہی کی تو بات ہے کہ اہلیانِ کراچی کو رابطہ کمیٹی کے ارکان چھوڑ علاقہ یونٹ اور سیکٹر انچارج کے نام تک ازبر تھے۔ کینٹ سٹیشن پر رکنے والی ہر ٹرین سے پہلی بار کراچی کے پلیٹ فارم پر قدم رکھنے والا ہولو خبطو پردیسی بھی جانتا تھا کہ نائن زیرو کا مطلب کیا ہے۔
پر آج یہ بتانا بھی دشوار ہے کہ مئیر کراچی وسیم اختر ایم کیو ایم بہادر آباد میں شامل ہیں کہ ایم کیو ایم پی آئی بی کالونی میں۔ الطاف حسین جب تقریر کرتے تھے تو ہر ٹی وی چینل ان کا خطاب اعوذ باللہ سے لے کر خدا حافظ تک پورا پورا دکھاتا تھا۔ عزیز آباد کے ٹی گراؤنڈ میں ہزاروں کا سناٹے دار مجمع بھائی کے ٹیلی فونک خطاب میں سنائی دینے والی ایک ایک سانس سے جھول جاتا تھا۔ سب ایمان کی حد تک اس نعرے سے سرشار تھے ’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے۔‘
ٹیلی فونک خطاب کے دوران سٹیج پر بیٹھی قیادت کو صرف دو جملے بولنے کی اجازت و عادت تھی۔ ہر جملے پر جی بھائی جی بھائی کہنا ہے اور جب الطاف بھائی ایک ہزار پانچ سو بیاسیویں بار استعفی کا اعلان کریں تو پوری طاقت لگا کے کہنا ہے ’نہیں بھائی نہیں بھائی۔‘ کیونکہ بھائی ایک ایک کی آواز پہچانتے ہیں۔
الطاف بھائی نے کراچی پر 1988 سے 22 اگست 2016 تک 28 برس شمالی کوریائی انداز کی حکمرانی کی، یکے بعد دیگرے دو نسلیں ان کی مٹھی میں بند رہیں۔ آٹھ برس ایم کیو ایم مشرف حکومت کی دامے درمے ڈارلنگ رہی۔ الطاف حسین چاہتے تو اس بے پناہ اختیار سے کراچی کو جنوبی ایشیا کا مثالیہ بنا سکتے تھے۔ خیر یہ مثالی شہر تو بن گیا مگر کوئی اس مثال کو دہرانا نہیں چاہتا۔
میں نے چند ہفتے قبل فیس بک پر بھائی کے سولو خطاب کی جو وڈیو دیکھی اس پر تب تک صرف 761 لائیکس پڑے ہوئے تھے۔ گویا میری نسل نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اورنگ زیب از خود بہادر شاہ ظفر میں کیسے تبدیل ہوتا ہے۔