کل تک بلا شرکتِ غیرے طاقتور ترین چیف جسٹس تھے۔ جو جی میں آتا کر ڈالتے۔ بڑے بڑے لوگ اُن کی عدالت میں آنے سے گھبراتے۔ آ ج انہیں جج صاحب کے بارے میں اشاروں کنایوں میں باتیں بنائی جا رہی ہیں۔ صاف الفاظ میں نہیں تو اشاروں میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے عدالتی طریقہ کار کو تباہ کر دیا۔
جج ثاقب نثار مرضی کے مالک تو تھے ہی اور یقینا اُن سے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوئیں‘ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اُنہوں نے بڑے اچھے کام بھی کیے اور دھڑلے سے کیے۔ اُن کی مداخلت نہ ہوتی تو بہتوں کو کٹہرے میں ٹھہرایا نہ جا سکتا۔ وہ نہ ہوتے تو آج آصف زرداری کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ بھی نہ آتی اور وہ گرفتار بھی نہ ہوتے۔ اُنہی کے حکم پہ آصف زرداری اور اُومنی گروپ کے کھاتوں کے بارے میں تحقیقات کو تیز کرنے کا کہا گیا اور اُنہی کے حکم پہ اس معاملے پہ جے آئی ٹی بنی۔ جج ثاقب نثار کی سرپرستی نہ ہوتی تو اومنی گروپ کے معاملات پہ بننے والی جے آئی ٹی کچھ کام نہ کر سکتی۔
ہماری پاکستانی قوم چاہتی کیا ہے؟ کب سے واویلا کیا جا رہا ہے کہ طاقتوروں پہ ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ کوئی ڈالتا ہے تو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے چیمپئن کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ سب قاعدہ و قانون کے مطابق نہیں۔ اِن چیمپئنز کی مانی جائے تو بڑوں کے خلاف اس ملک میں معمولی سی کارروائی بھی نہ ہو سکے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے ہر بڑے ملزم کے شانہ بشانہ اور پیچھے ملک کے بلند ترین اور قابل ترین وکلا کھڑے ہوتے ہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ نہ ان بڑوں کے نام لے سکتے ہیں نہ ہی معزز وکلا صاحبان کے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکاری ہو سکتا ہے کہ ہر بڑے کیس کی پیروی کیلئے لائق ترین وکلا دستیاب ہوتے ہیں؟
ثاقب نثار جج کم اور تھانیدار زیادہ تھے۔ لیکن مسئلہ پاکستان کا یہی ہے کہ یہاں کام کچھ ہونا ہے تو تھانیداری سے ہی ہو سکتا ہے… یعنی سختی ہی کام آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا بن چکا ہے کہ انگریزوں کا بنایا ہوا قانون یہاں بالکل بے فائدہ اور بے سود ہے۔ یہ انگریزوں نے جو ضوابط ہمیں دئیے تھے وہ اُن کے معاشرے کیلئے تو فٹ تھے‘ لیکن ہمارے موسم میں اُن کا چلنا محال تھا۔ اسی لیے تو یہاں سول مقدمات عمر بھر چلتے رہتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے وکلا تاریخ در تاریخ لیتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ نظام عدل بھی خرابیوں سے مبرّا نہیں۔ جس قسم کی کرپشن یہاں رائج ہے کیا انگلستان یا دیگر مغربی ممالک میں دیکھی جاتی ہے؟ کیا وہاں کے وکلا بھی ایسے رویے رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں عام ہو چکے ہیں؟ یہاں پہ کچھ ہونا ہے تو جھٹکے سے ہی ہو سکتا ہے اور اگر جھٹکے کو قابلِ اعتراض سمجھا جائے تو سمجھ لیجیے کہ یہاں پہ کچھ ہونے کو نہیں۔
ثاقب نثار نے مثال قائم کی تھی کہ انصاف ہونا ہے یا فیصلے صادر کرنے ہیں تو اُن کا طریقہ یہ ہے۔ وہ جو کچہری لاہور میں لگاتے تھے وہ کچہری کم اور جرگہ زیادہ لگتی تھی۔ لیکن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے نے ٹھیک ہونا ہے تو یہی ایک طریقہ ہے جو کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ باقی سب کتابی باتیں ہیں۔
ثاقب نثار صاحب نے لاہور میں بہت سارے ناجائز قبضے چھڑوائے تھے یا نہیں؟ اُن کی تھانیداری میں ایسے بہت سے کام ہوئے۔ لیکن اس ضمن میں جو کچھ کیا وہ مروجہ قوانین کے تحت اتنا نہ تھا جتنا کہ اُن کے اپنے اصولوں کے تحت۔ حمزہ شہباز اور اُن کی سابقہ اہلیہ عائشہ احد کے درمیان اُنہوں نے معاملہ کیسے سلجھایا؟ کوئی قانون نہیں تھا جو اُنہیں اس کی اجازت دیتا۔ لیکن انہوں نے دونوں کو اپنے چیمبر میں بلایا اور چند ہی منٹ میں معاملہ طے ہو گیا۔ کس قانون کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان نے اداکارہ بابرہ شریف اور اُن کے کرایہ دار کا معاملہ ٹھیک کیا؟ لیکن دونوں کو حاضری کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر میں اُن میں معاملہ طے پا گیا۔ حکمرانی و قانون کے چیمپئن بیشک کہتے رہیں کہ یہ کارروائی ماورائے قانون تھی۔ لیکن اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ ایسے معاملات کو کیسے حل کرتے۔
بدنامِ زمانہ راؤ انوار کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟ اُن کے پشت پناہ طاقتور لوگ تھے لیکن جج ثاقب نثار کا پریشر اتنا تھا کہ راؤ انوار کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ یہ جو آبپارہ والی سڑک ہے ‘ اسے کس نے کھلوایا؟ صاحبان اس فیصلے سے خوش تو نہ تھے لیکن جج صاحب نے اپنے آرڈر پر عملدرآمد کرایا۔
پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ جن وردی پوش تھانیداروں نے اقتدار پہ قبضہ کیا وہ صحیح معنوں میں تھانیداری نہ کر سکے۔ وہ ریاست کی ہیئت کو تبدیل نہ کر سکے۔ ایوب خان تھانیدار تھے لیکن آدھے تھانیدار۔ جتنی سوچ کی گہرائی ہونی چاہیے تھی اُن میں وہ نہ تھی۔ ضیاالحق بھی تھانیدار تھے لیکن اُن کی تھانیداری ملک کو کہاں لے گئی؟ وردی پوش تھے لیکن ملک کی میراث مولویوں کے ہاتھ میں چھوڑ گئے۔ جنرل مشرف کے پاس موقع تھا کہ تبدیلی کے کسی پروگرام کو عملی جامہ پہنا سکتے لیکن اُن کی بھی سمجھ محدود تھی‘ لہٰذا اپنی طاقت کا زمانہ اُنہوں نے بھی ضائع کر دیا۔ رہے جمہوریت کے چیمپئن… پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے… تو اُنہوں نے ملک کا وہ حشر کیا جس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔
حکمرانوں نے کچھ کرنے کی بجائے ایک حکمرانی کا خلا پیدا کیا۔ بہت سے بنیادی نوعیت کے کام اُن کو کرنے چاہئیں تھے لیکن اُس کے لیے اُن میں صلاحیت نہ تھی۔ اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش چند ججوں نے کی۔ افتخار چوہدری میں تھانیداری کے تمام وصف بدرجہ اتم موجود تھے لیکن وسعتِ خیالات سے وہ بھی محروم تھے۔ وہ چھوٹی لڑائیوں میں اُلجھے رہے اور جیسا کہ آئندہ کے حالات نے واضح کیا‘ اُن کا دامن بھی صاف نہ تھا۔ دوسرے ایکٹو جج ثاقب نثار تھے۔ انہوں نے بہت کچھ کرنا چاہا۔
بہت غلطیاں اُن سے ہوئیں لیکن بہت کچھ وہ کرکے بھی گئے۔ پنجاب بیوروکریسی کی جو دُرگت اُنہوں نے بنائی اور کون کر سکتا تھا؟ چھپن کمپنیوں والا مسئلہ اور کون سامنے لا سکتا تھا؟ بیچ میں یقینا اُن سے کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں لیکن ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ بہرحال جو طریقہ اُن کا تھا وہی طریقہ یہاں چل سکتا ہے۔ اگر آپ نے کچھ حاصل کرنا ہے۔ ورنہ ستر سال ہمارے گزر گئے۔ اچھی بھلی سرزمین کا حلیہ ہم نے بگاڑ کے رکھ دیا۔ انگریزوں کے مضبوط اداروں کو ہم نے تباہ حال کر دیا اور اگر وہ ادارے اب بھی کسی شکل میں کھڑے ہیں تو اُس کی وجہ ہماری مہربانی نہیں بلکہ اُن کی اپنی ہمت ہے۔ بگاڑ کو ٹھیک کرنا ہے تو مضبوط ہاتھ اور سخت ارادوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قانون کی باریکیاں بعد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ کون سا معاشرہ ہے جس میں حمزہ شہباز جیسے لیڈر پائے جاتے ہیں؟ ان میں لیڈری کی کون سی صفت موجود ہے؟ یہ تو پرچون کے سوداگر تھے، اپنے ہاتھوں کو جو چھوٹے سے چھوٹے فائدے سے نہ روک سکتے۔ شہباز شریف کی منصب داری میں ان کے کارناموں کی بازگشت زبان خاص و عام پہ نہ تھی؟ لیکن پھر بھی لیڈر بنے ہوئے ہیں۔
آصف زرداری کے تو سندھ میں ایسے کارنامے ہیں کہ پڑھیں تو یقین نہ آئے۔ یہ کراچی کی وسیع زمینوں کا مسئلہ: حکومتی تحویل سے کسی پرائیویٹ پارٹی کو دی جاتی ہیں اور پھر زرداری صاحب اُس پرائیویٹ پارٹی کے برابر کے پارٹنر بن جاتے ہیں۔ یہ افسانے نہیں حقیقت ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ ثاقب نثار کے حکم پہ جے آئی ٹی بنی اور تمام راز فاش ہوئے تو ثاقب نثار ہی بُرے ٹھہرے۔
ہمارے ہاں آئین اور قانون لاچاروں اور بے بسوں کے کسی کام کے نہیں۔ ہمارا نظام امرا اور طاقتور لوگوں کیلئے ہے اور آئین و قانون اِنہی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی تبدیلی آنی ہے تو ایک ہی طریقہ ہے… وہ جس کی ثاقب نثار نے مثال قائم کی۔