زرداری صاحب کا پندرہ برس بعد پہلی دفعہ سیاسی جوا ناکام ہوا ہے۔ انسان جب مسلسل کامیابیاں سمیٹ رہا ہو تو اسے نہیں لگتا کہ زوال بھی آئے گا۔ ویسے زرداری صاحب نے اگر ایسا سوچ بھی لیا تھا تو اس میں ان کا قصور نہیں تھا۔ اب پندرہ برس بعد وہ جیل گئے ہیں‘ جہاں سے نکل کر وہ 2004 میں دبئی گئے تھے۔ ان کے جیل سے نکل کر دبئی جانے کی کہانی دلچسپ ہے۔
2002 کی بات ہے۔ میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹر تھا۔ امریکہ سے ایڈیٹر‘ شاہین صہبائی نے میسج کیا: پتہ کرو آصف زرداری ہسپتال سے غائب ہو گئے ہیں‘ جہاں علاج کے نام پر رکھے گئے تھے۔ شاہین صہبائی کے بقول بینظیر بھٹو‘ جو ان دنوں امریکہ میں تھیں‘ مسلسل زرداری اور ان کے سیکرٹری قیوم سومرو کو فون پر فون کر رہی تھیں لیکن فون بند مل رہا تھا۔ پریشان حال بینظیر بھٹو نے امریکہ میں ہر پاکستانی صحافی کو فون کرکے بتایا کہ زرداری کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ بی بی کو خدشہ تھا کہ زرداری کو مشرف حکومت نے اغوا نہ کر لیا ہو‘ تاکہ ان پر دبائو بڑھایا جائے۔ کچھ دیر بعد شاہین صہبائی کا میسج تھا: بی بی کا فون آیا تھا زرداری مل گیا ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ شاہین صہبائی کو احساس ہوا کوئی گڑبڑ ضرور تھی۔ مجھے کہا: ذرا پتہ کرو‘ کیا کہانی ہے کہ پہلے زرداری ایسا غائب ہوا کہ بینظیر بھٹو تک کو علم نہ تھا اور اب اچانک بینظیر بھٹو شانت ہو گئی ہیں۔
میں نے امین فہیم کے ایک دوست کا منت ترلا کیا کہ آج باس نے امتحان لیا ہے۔ اس نے بتایا: امین فہیم، زرداری کو ہسپتال سے خفیہ طور پر لے کر ایک بڑے صاحب سے ملانے سیف ہائوس لے گئے تھے‘ جہاں کوئی بات چیت ہونا تھی۔ جلدی میں بینظیر بھٹو کو نہ بتا سکے تھے۔ بعد میں بی بی کو بتایا گیا کہ موصوف مشن پر تھے تو وہ شانت ہو گئیں۔
ان خفیہ ملاقاتوں کے جلد نتائج نکلے۔ 2004 میں زرداری ڈیل کرکے دبئی چلے گئے تھے۔ ان پندرہ برسوں میں زرداری نے جو بھی کارڈز کھیلے‘ سب کامیاب رہے۔ پہلے بینظیر بھٹو نہ رہیں۔ پھر صدر بن گئے۔ ان کی پارٹی محض ایک سو بیس ایم این ایز کے ساتھ نہ صرف اقتدار میں تھی بلکہ کہا جاتا تھا کہ جو زرداری نے ایک سو بیس ایم این ایز کے ساتھ حاصل کر لیا تھا وہ بھٹو اور بینظیر بھی حاصل نہ کر سکے تھے۔ زرداری نے اپنا وزیر اعظم، اپنا سپیکر، چیئرمین سینیٹ، وزرا، دو صوبوں میں حکومتیں بنا لیں اور خود صدر بن بیٹھے۔ زرداری صاحب کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ بھٹو اور بینظیر بھٹو والا روٹ نہیں لینا۔ جیسے بینظیر بھٹو نے اپنے باپ کے انجام سے سیکھا تھا کہ امریکہ سے پنگا نہیں لینا‘ ایسے ہی زرداری نے سیکھا کہ طاقتوروں سے گنوانی نہیں بلکہ فوائد لینے ہیں۔
اسی لیے زرداری نے جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دے دی کہ جناب آپ ہمیں کچھ نہ کہیں‘ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ یوں پہلی دفعہ زرداری کو براہ راست مقتدرہ سے بات چیت کا موقع ملا۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو زرداری کو ان معاملات میں نہیں آنے دیتی تھیں۔ اسی لیے بینظیر بھٹو نے دبئی میں جو بھی خفیہ ملاقاتیں جنرل مشرف سے کیں‘ وہ سب اکیلے کی تھیں۔ اب پہلی دفعہ زرداری کو موقع ملا تھا کہ وہ مقتدر حلقوں سے براہ راست بات چیت کریں۔ پانچ سال تک صدر رہنے کے بعد زرداری کا اعتماد بہت بڑھ گیا تھا۔
نواز شریف جس طرح فیصلہ سازوں سے الجھنا شروع ہوئے اس کے بعد مقتدر حلقوں میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ ان کی نسبت زرداری سے ڈیل کرنا آسان ہے۔ نواز شریف ہر بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اپنے لائے ہوئے لوگوں سے ہی پنگا لے لیتے ہیں۔ نہ صرف خود ڈوبتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ جمہوریت کا پورا جہاز لے کر جاتے ہیں۔ زرداری اس معاملے میں سمجھدار ہیں اور اپنی اوقات دیکھ کر چلتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور ان کی جانب سے زرداری کے بارے میں دی گئی خوفناک اطلاعات کے باوجود انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ عزیر بلوچ میڈیا خبروں سے غائب ہو گیا اور ڈاکٹر عاصم کو بھی بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی۔ اگرچہ جب ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے تھے تو زرداری جیسے سمجھدار بندے سے بھی بڑی غلطی ہوئی‘ جب بڑھک ماری کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
اس بیان سے جو نقصان ہوا‘ اس کی تلافی جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ تک نہ ہو سکی۔ اس دوران زرداری کو پاکستان واپس آنے کی اجازت نہ ملی‘ حالانکہ زرداری نے معافی تلافی کی کافی کوششیں کیں۔ معافی تلافی جنرل راحیل کے دور تک نہ ہو سکی؛ تاہم ان کے جانے کے بعد پھر فیصلہ سازوں کو نواز شریف کو سیدھا کرنے کے لیے ضرورت پڑی تو زرداری نے بلوچستان میں اپنے بلوچ لنکس استعمال کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن سے پہلے حکومت گرا کر نواز شریف کو سرپرائز دیا اور سینیٹ میں چیئرمین بھی منتخب کرا لیا۔ اعلیٰ حلقوں کی کوشش تھی کہ نواز شریف کے فکس کئے جانے تک زرداری سے مہربانی برتیں۔ زرداری کو یہی تاثر ملتا رہا کہ اب معاملات بہتر ہو گئے ہیں لہٰذا جب ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کھولا گیا تو وہ پریشان نہیں تھے؛ تاہم انہیں اتنا تجسس ضرور تھا کہ اب نیا کیا ہونے والا ہے‘ کیونکہ معاملات تو کنٹرول میں تھے۔
دراصل دو تین ایسی باتیں ہوئیں جنہوں نے زرداری کے ساتھ رومانس ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔ پہلی بات‘ نواز شریف کو جیل ہو گئی تھی لہٰذا زرداری کی مزید ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ دوسری‘ عمران خان کو سیدھا رکھنے کی خاص ضرورت نہیں تھی‘ جیسے نواز شریف کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے زرداری یا عمران خان کی ضرورت پڑتی تھی کیونکہ عمران خان آرام سے وہی کچھ کر رہے تھے جو کرنے کا کہا جا رہا تھا لہٰذا ان کے نواز شریف بننے کے امکانات نہیں تھے‘ جس کے لیے زداری کو باہر رکھنے کی ضرورت ہو۔ تیسری وجہ یہ سمجھ لینا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم سے مسائل پیدا ہو رہے تھے‘ جس کے گرو زرداری تھے۔
ممکن ہے یہ ساری باتیں برداشت کر لی جاتیں‘ لیکن جب بلاول بھٹو نے پی ٹی ایم کے محسن داوڑ اور علی وزیر کے ساتھ مل کر چیلنج کیا تو وہ سب سہولتیں واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یقیناً بلاول نے یہ سب کچھ اپنے باپ کے کہنے پر کیا تھا۔ زرداری نے اس بار بلاول سے وہی غلطی کرائی جو انہوں نے خود جنرل راحیل کے دور میں اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دے کرکی تھی۔ جب پختون تحریک کے ساتھ مل کر دبائو بڑھانے کی کوشش کی گئی تو پھر طاقتوروں نے سوچا‘ بہت ہو گیا۔ ان کا خیال تھا کہ زرداری بلیک میل کرنے پر اتر آئے ہے۔
زرداری نے اپنے تئیں جوا درست کھیلا تھا۔ انہیں احساس ہوا تھا کہ پی ٹی ایم فیصلہ سازوں کے لیے بڑا سر درد بننے والی ہے اور وہ اس معاملے کو کیش کرا سکتے ہیں؛ تاہم وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ پی ٹی ایم کو اب معافی نہیں ملنی اور جو قوتیں ان کے ساتھ کھڑی ہوں گی‘ وہ بھی رگڑی جائیں گی۔ زرداری کا خیال تھا کہ نواز شریف کو جیل میں ڈالنے اور پی ٹی ایم سے بگڑتے تعلقات کے بعد ان کی ضرورت بڑھ جائے گی۔ یہیں ‘سب پر بھاری صاحب‘ مار کھا گئے کہ انہیں پتہ نہ تھا‘ اس دفعہ فیصلہ سازوں نے بھی سب کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب جب تک نیا سوار گھوڑے کی لگام تھام کر سین پر نمودار نہیں ہوتا‘ زرداری کو انتظار کرنا ہو گا۔
زرداری جیسے رائو انوار کو اپنا لاڈلا بچہ سمجھتے تھے ویسے ہی وہ چند برسوں سے خود کو بھی مقتدر حلقوں کا لاڈلا سمجھنے لگ گئے تھے۔ جنہوں نے انہیں لاڈلا ہونے کا تاثر دیا تھا انہوں نے ہی نیچے سے سیڑھی کھینچ لی ہے۔ راج نیتی میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ گلہ یا شکوہ کیسا۔ مجھے یقین ہے‘ خود زرداری راج نیتی کے اس کھیل پر مسکرا رہے ہوں گے کہ اس دفعہ غلط چال چل گئے۔ سب اندازے غلط نکلے۔
اب زرداری کو نئی چال کے لیے سوچ سمجھ کر نئی بازی کھیلنا ہو گی۔ جلدی کاہے کی؟
عوام نہ گھبرائیں۔ یہی تو راج نیتی کے صدیوں پرانے کھیل کی خوبصورتی ہے۔ اس میں جو بہتر بارگین، اعصاب پر کنٹرول اور صبر کرنا جانتا ہے، وہی سکندر کہلاتا ہے ورنہ ہمارے جیسے عام جذباتی عوام تو اس کھیل میں پیادوں کی طرح سب سے پہلے مارے جاتے ہیں۔