حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی خدمت میں

قارئین کرام جانتے ہیں اور میرے گزشتہ کئی سالوں کے دوران رویت ہلال کے حوالے سے شائع ہونے والے کالم گواہ ہیں کہ میں نے اس مسئلے پر کبھی بھی کوئی حتمی رائے نہیں دی بلکہ ہمیشہ ریاست اور علمائے کرام کے سامنے اپنا اور اپنے جیسے لوگوں کا مسئلہ رکھ کر اس کا حل سامنے لانے کی استدعا کرتا رہا۔ حضرت مفتی منیب الرحمٰن پر بھی تنقید کی اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی پر بھی لیکن کسی ایک کی بھی تضحیک یا توہین نہیں کی بلکہ ہر کالم میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتا رہا کہ اختلاف کے باوجود میں مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے حکم کی تعمیل اس لئے کرتا ہوں کہ وہ ریاست کے حکم سے اس منصب پر بیٹھے ہیں لیکن حضرت مفتی منیب الرحمٰن حل نکالنے کے بجائے ہر مرتبہ مجھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے طنز و تشنیع پر اتر آتے ہیں۔

اب کی بار انہوں نے پوری وڈیو جاری کی جس میں انہوں نے مجھ سمیت میری والدہ پر بھی طنز کیا۔ میں نےجواب میں وضاحتی کالم لکھا تو ان کا جوابی کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے روایتی انداز میں مجھے لبرلز کے ساتھ جوڑ کر طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ میں جواب دے سکتا تھا لیکن چونکہ عید گزر گئی تھی اور مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ مفتی صاحب کو رویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ سے عشق ہو گیا ہے اس لئے میں خاموش رہا اور جواب دینے کے بجائے ملک کے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہوا۔

آج کے دن کے لئے بھی میں نے ملکی سیاسی صورت حال اور احتساب کے عمل پر کالم تحریر کرکے ارسال کیا تھا لیکن جنگ اخبار اٹھایا تو دیکھا کہ وہاں پر مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا کالم شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے میرے خلاف بہتان طرازی سے کام لیتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ میں ان کے بارے میں ذاتیات سے کام لے رہا ہوں اور یہ کہ میں پختون قوم پرست ہوکر لسانی اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر ان پر تنقید کررہا ہوں۔ صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آخر میں مفتی صاحب نے انتہائی متکبرانہ انداز میں یہ دھمکی بھی دی کہ ”پس کالم نگار کے جگر کی آگ بجھانے کے لئے جب تک ان کے من کی مراد پوری نہیں ہوگی، وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہم بھی جواب کے لئے حاضر رہیں گے“۔ چنانچہ پہلے سے تحریر کردہ کالم ڈراپ کرکے حضرت مفتی صاحب کے جواب میں یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوا۔

حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ میں اہل دین کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مفتی صاحب صرف اپنے اور اپنے ہمنوا اہل دین کی توہین کو ناجائز سجھتے ہیں جبکہ میں تمام اہل دین کا احترام اپنے اوپر لازم سمجھتا ہوں۔ وہ مفتی منیب الرحمٰن ہوں، پیر نقیب الرحمٰن ہوں، مفتی تقی عثمانی ہوں، مفتی رفیع عثمانی ہوں، مولانا طارق جمیل ہوں، مفتی عبدالرحیم ہوں یا مفتی شہاب الدین پوپلزئی۔ سب کا احترام کرتا ہوں اور سب کے ساتھ احترام کا تعلق ہے لیکن حضرت مفتی صاحب نے شاید یہ احترام صرف اپنے آپ اور اپنے ہمنوائوں تک خاص کردیا ہے۔ جو اہل دین جتنے زیادہ سیاست زدہ ہوجاتے ہیں ، ان پر میری تنقید اتنی زیادہ ہوتی ہے اور جو سیاست سے جتنے زیادہ دور ہیں، ان پر میری تنقید بھی اتنی کم رہتی ہے۔ میں تنقید ضرور کرتا ہوں لیکن اہل دین کی تضحیک اور توہین سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ جس طرح حضرت مفتی صاحب اہل دین کی فہرست میں آتے ہیں، اسی طرح مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب بھی اہل دین کے زمرے میں آتے ہیں لیکن مفتی صاحب ان کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتے۔

مفتی صاحب اگر اپنی پختون ولی پر مجھے دفاعی پوزیشن پر لانا چاہتے ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنے اس مشن میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ میں جس طرح گناہگار لیکن فخریہ مسلمان ہوں، جس طرح فخریہ پاکستانی ہوں اسی طرح فخریہ پختون ہوں اور رہوں گا۔ پختونوں کے حق کی بات کرنا میرے اسلام اور پاکستانیت سے متصادم نہیں بلکہ بہتر مسلمان اور بہتر پاکستانی بننے کا تقاضا ہے کہ میں بہتر پختون اور پختونوں کا غمخوار رہوں لیکن میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ نسلی یا لسانی بنیادوں پر تعصب کا شکار بن جائوں۔ میں اگر نسلی یا لسانی تعصب کا شکار ہوتا تو پختون مفتی پوپلزئی کے بجائے مفتی منیب الرحمٰن کے حکم سے روزے اور عید کا فیصلہ نہ کرتا۔

اب کی بار پختون مفتی پوپلزئی کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ پختون وزیراعلیٰ محمود خان نے کیا تھا لیکن ان کی اتباع کے بجائے میں نے مفتی منیب صاحب کی کمیٹی کی اتباع کی اور پختونخوا حکومت کے فیصلے پر خود مفتی منیب صاحب نے بھی اس شدت سے تنقید نہیں کی جس شدت سے میں نے کی۔ میں مفتی صاحب کی اس منصب سے علیحدگی کا مطالبہ اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ ان کے رویے سے پاکستانیوں میں تقسیم اور اختلاف جنم لیتا ہے حالانکہ نہ میں مفتی صاحب کی طرح اس منصب کا امیدوار ہوں اور نہ میری ضرورت ہے کہ نیویارک ائرپورٹ پر اپنے تعارف کے لئے رویت ہلال کمیٹی کا سہارا لوں۔ مفتی صاحب نے یہ بہتان طرازی بھی کی کہ میں نے نسلی تعصب کی بنیاد پر سردار مہتاب احمد عباسی، جن کا تعلق ہزارہ سے ہے، کے گورنر بننے کی مخالفت کی۔ شکر الحمدللہ سردار مہتاب احمد خان حیات ہیں۔ کوئی بھی شخص ان سے رجوع کرسکتا ہے۔

وہ اگر یہ گواہی نہ دیں کہ جب پرویز مشرف نے سردار مہتاب کو جیل میں ڈال کر ان کے خاندان کو آزمائشوں سے دوچار کیا تھا تو ان کے لئے تمام صحافی برادری کی صفوں میں سب سے زیادہ آواز سلیم صافی نے اٹھائی تو میں صحافت چھوڑ دوں گا۔ میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ذاتی تعلق کے لحاظ سے میں آج بھی سردار مہتاب اور ان کے خاندان کے اتنا قریب ہوں کہ جتنا کوئی ان کا ہم لسان صحافی بھی نہیں ہوگا۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنے کالم میں یہ بھی الزام لگایاہے کہ میں نے اسی تعصب کی بنیاد پر فاٹا کے لئے بنائی گئی کمیٹی کی قیادت کے لئے سرتاج عزیز صاحب کی مخالفت کی۔ مکرر شکر الحمدللہ کہ سرتاج عزیز بھی ابھی حیات ہیں۔

ان سے پوچھا جاسکتا ہے اور اگر میں ان چند صحافیوں میں سے ایک نہ ہوا جو سرتاج عزیز صاحب کا سب سے زیادہ احترام کرتے ہیں اور جن کا سرتاج صاحب سب سے زیادہ احترام کرتے ہیں تو تب بھی میں صحافت چھوڑ دوں گا۔ اتفاق ہے کہ اسی ماہ میری نئی کتاب ”قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی۔ جوابی بیانیہ“ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ سرتاج عزیز اور حنا ربانی کھر نے لکھا ہے۔ میرے دل میں ان دونوں کا غیرمعمولی احترام ہے تبھی تو میں نے پورے پاکستان میں ان دونوں کو اپنی کتاب پر تبصرے کے لئے چنا اور سرتاج صاحب کے میرے بارے میں کیا خیالات ہیں، وہ ان کا تبصرہ دیکھ کر ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔

کالم کی تنگی داماں آڑے آرہی ہے ورنہ تو اور بھی بہت کچھ تحریر کرسکتا ہوں۔ مفتی صاحب اگر اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو یا بسم اللہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے