میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منظر دیکھ کر خود میری آنکھیں بھی بھیگ جائیں گی۔ بیٹی نے جتنی محبت، وارفتگی کے ساتھ گلے لگا کر باپ کو رخصت کیا وہ واقعی دل د کھا دینے والا لمحہ تھا۔ بیٹا پیچھے کھڑا ہنس رہا تھا بلکہ ہنسی کی اداکاری کررہا تھا کیونکہ یہ ہنسی نہیں بےبسی کی انتہا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا داماد، بینظیر بھٹو مرحومہ کا شوہر، سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جیل جارہا تھا اور کس جرم میں؟ادھر چند روز پہلے عید ملنے کی اجازت نہ ملنے پر مریم نوازنے بھی’’ مکافات عمل‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ تب مجھے بچوں کو گود میں اٹھائے اور انگلی سے لگائے عدالت در عدالت دھکے کھاتی بینظیر یاد آئی جو ان دنوں نواز کی نوازشات کا شکار تھی۔
مدتوں چوہے بلی کا یہ کھیل جاری رہا جو دیار غیر میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر ختم ہوا حالانکہ یہ میثاق جمہوریت نہیں’’میثاق محترمہ و میاں‘‘ سے بڑھ کر کچھ بھی نہ تھا لیکن اس سب کے باوجود گینگز کے سرغنوں نے اصل سبق نہیں سیکھا۔ خدا جانے مریم نواز کے کسی منشی نے کیا سوچ کر ’’مکافات عمل‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی جو اس نے سوچے سمجھے بغیر بول یا لکھ دی۔پہلی بار احساس ہورہا ہے کہ میں بہت کمزور آدمی ہوں جسے آج یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس صورتحال پر خوشی منائے یا سوگ منائے، اسے سیلیبریٹ کرے یا اس پر ماتم کرے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اندر ہیں اور ایک جیسے الزاموں میں اندر ہیں۔ دونوں کے انداز اور ا نجام میںاتنی مماثلت ہے تو ایسا کیوں ہے؟ ایک تین بار وزیر اعظم رہا، دوسرے کی اہلیہ دو بار وزیر اعظم اور وہ خود ایک بار صدر رہا۔
ایک اپنی بیٹی اور دوسرا اپنے بیٹے کے لئے پاکستان نامی بیش قیمت ’’پراپرٹی‘‘ وراثت میں چھوڑ جانا چاہتا ہے جس میں 22کروڑ جیتے جاگتے انسان بھی شامل ہیں۔ دونوں میں کیسی کیسی مماثلت پائی جاتی ہے تو کیا یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے؟ان دونوں ’’پارٹیوں‘‘ کو عوام نےجو کچھ دیا جواباً انہیں جان بھی دے دیتے تو کم تھا لیکن یہ قسم قسم کے قرضے اور خسارے چھوڑ گئے، عوام کو اجتماعی دیوالیہ پن کی دہلیز پر چھوڑ گئے۔ 10جون 2019جس کسی نے مشیر خزانہ کی بریفنگ سنی ہوگی، وہ کانپ اٹھا ہوگا بشرطیکہ اس کا ضمیر اورذہن زندہ ہو لیکن اس کے باوجود میں اداسی اور شرمندگی کے درمیان مسلسل ایک ہی بات سوچ رہا ہوں کہ ایک دو کیا، پانچ چھ نسلوں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ کتنی دولت کی ضرورت ہوتی ہوگی؟ کیا کرنے ہوتے ہیں اتنے اربوں کھربوں ڈالرز؟ کس کام آتے ہیں یہ سرے محل، پارک لین، جاتی عمرے……….
ابھی کل ’’پرسوں‘‘ نرسوں کی بات ہے مغلوں، صفویوں، عثمانیوں کے نام و نشان تک مٹ گئے۔ تین براعظموں پر حکومت کرنے والوں کا غریب الدیار شہزادہ بس کنڈکٹری کرتا رہا، صفویوں کا ایک شہزادہ مجھے کیلگری کینیڈا میں ملا تھا، آخری روسی زار کا پڑپوتا لاہور میں ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا یہ بیحد ہنڈسم ڈاکٹر کون ہے؟جگہ جگہ ’’مغل بریانی‘‘ کے بورڈ لگے ہیں اور کدھر گئے صدام حسین جیسے مرد آہن کے اتھرے بیٹے، کیا ہوا قذافی کے صاحبزادگان کے ساتھ اور کس حال میں ہے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا فرزند ارجمند؟ انہیں یقین کیوں نہیں آتا کہ خالق و مالک و رازق و قادر مطلق واقعی انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے لیکن یہاں تو مائنڈ سیٹ ہی کچھ اور ہے کہ خود اپنی زبان سے خود کو سرعام’’ حکمران خاندان‘‘ کہتے ہوئے نہ جھجکتے ہیں نہ شرماتے ہیں اور مجھے وہ بھی یاد ہیں جنہوں نے فرمایا تھا۔”Bhuttos are born to rule”اللہ توفیق دے تو قیام پاکستان سے پہلے گورے افسروں کے لکھے گینریٹیرز ہی دیکھ لیں۔ تب کے اور اب کے شرفا، رئوسا، معززین، عمائدین میں زمین و آسمان کا سا فرق ہے۔
تب کے خاندانیوں کے نام و نشان مٹ چکے اور جو تب بےنام و نشان اور کمی کامے تھے، وہ آج سپر معززین میں شامل ہیں۔ وقت کا بےرحم پہیہ ازل تا ابد یونہی رواں دواں ہے ورنہ آج بھی فرعونوں اور قارونوں کے علاوہ اور کوئی دکھائی نہ دیتا۔کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ قانون کا ہاتھ حمزہ شہباز تک پہنچنے کی خبر بھی آگئی ہے۔ کہنااس کا بھی یہی ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا، اس کا دامن صاف ہے جسے نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔ اسی حمزہ کا ایک برادر اور ایک برادر نسبتی بھی باہر ہے اور کہنا ان کا بھی یہی ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا اور ان کے دامن بھی دودھ کے دھلے ہیں جبکہ میں مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی کچھ نہیں کیا تو اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہوچکا…….
وہ کس نے کیا؟نہ نواز شریف، نہ شہباز شریف، نہ آصف زرداری، نہ حمزہ نہ سلمان نہ اسحاق ڈار……..کسی نے کچھ نہیں کیا تو ہر کنگلا ننگلا پاکستانی کچھ کئے بغیر گھر بیٹھے بٹھائے ہی ایک لاکھ 64ہزار 9سو بائیس روپے کا مقروض کیسے ہوگیا؟اور ان سب سیاسی جادوگروں کے اثاثوں میں کچھ کئے بغیر ہی ہزاروں گنا اضافے کیسے ہوگئے؟آئیے کچھ دیر کے لئے بھول جائیں کہ ہماری ہمدردیاں کس سیاسی پارٹی اور سیاستدان کے ساتھ ہیں۔ صرف پاکستان کو دھیان میں رکھیں اور سوچیں اس ملک کے ساتھ ہوا کیا ہے اور کس نے کیا ہے؟سوال کا جواب اس سے اوپر والے دو سوالوں کے جواب میں موجود ہے۔ ایک لاکھ 64ہزار 9سو بائیس روپے کا یہ مقروض اپنے مقروض بھائیوں سے اس سوال کا جواب چاہتا ہے۔