اپنے ہی کانوں کو چیرتی للکار

بہادرشاہ ظفر بحیثیت بادشاہ بہت ہی ’’مظلوم بادشاہ‘‘ تھا۔ قرض کی مے پینے والے بادشاہ کی کیا حیثیت ہوتی ہوگی۔ جب اس کے خون میں شامل حاکمانہ اور شاہانہ آواز اُبھرتی ہوگی اور وہ اپنی بازگشت پر پھر منہ بسور کر رہ جاتا ہوگا۔
ایسے ہی بادشاہ آج کل پاکستان میں برسراقتدار ہیں، ہاتھ پاؤں بندھے اس بادشاہ کے بھی سامنے اس کے اپنے ہی کہے الفاظ آکھڑے ہوتے ہیں وہ جب اپنی نفسیات اور ذہنی کیفیات سے مجبور بڑھکیں مارتے ہیں تو سب کچھ اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے، منگل کی رات 12 بجے کے خطاب کے پیچھے بھی دراصل کچھ ایسی ہی کہانی اور کیفیت تھی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے انتہائی کمزور احتجاج کیا، اپوزیشن ارکان محض اسپیکر کے ڈائس کے سامنے تک گئے اور وقفے وقفے سے نعرے لگاتے رہے۔ یہ خیال بھی انہیں آدھی بجٹ تقریر کے بعد آیا۔ یہ سب بھی بلاسبب نہیں تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر پر یہی ’’سودے بازی‘‘ ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری بجٹ کی تصویر اگر کسی کی آنکھوں کے سامنے گھومے تو منگل کے روز کا احتجاج اس کے برابر کچھ نہ تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف کوئی آیا اور نہ ہی کسی نے وزیرخزانہ کے سامنے سے تقریر کی کاپی چھینی۔ لیکن شاہانہ سوچ کا کیا کیجئے؟ بادشاہ سلامت اپنی نشست پر مسلسل تلملاتے رہے اور وہاں سے جاتے ہی اپنے دفتر میں انہوں نے خوب دانت پیسے اور اپنے دھرنے کے دور کے تمام مشیروں کو طلب کرلیا۔ ’’میں نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’ان بدتمیزوں کو سبق سکھاؤں گا‘‘،’’میں ان سب کو دیکھ لوں گا‘‘ یہ وہ آوازیں تھیں جو کمرے میں گونج رہی تھیں۔ پھر بادشاہ سلامت نے خود ہی اعلان کیا۔ میں ان سے حساب لوں گا، ایک ایک پائی کا۔ خود حساب لوں گا۔ اب تک مشیر انگشت بدانداں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیسےہوگا یہ سب؟ بادشاہ سلامت خود ہی بڑبڑائے، ’’میں ان پر جے آئی ٹی بناؤں گا، قرضوں کی تحقیقات کراؤں گا، ان کی کرپشن کو پکڑوں گا‘‘۔ قریب ہی کھڑے ایک ’’محسن‘‘ مشیر نے تائید میں نعرہ بلند کیا اور پھر ہر طرف سے واہ واہ کی داد کے ڈونگرے برسائے جانے لگے۔ بادشاہ سلامت نے کہا، مجھے عوام سے خطاب کرنا ہے۔ سب نے کہا جی حضور یہی طریقہ ہے۔ اسی طرح اعلان کریں۔ کاغذ قلم پکڑا خود ہی نوٹس بنانے لگ پڑے، بڑی دیر تک ایک ایک پوائنٹ نوٹ کیا۔ اس دوران ایک قانونی مشیر کی انٹری ہوئی اس نے جے آئی ٹی کو کمیشن کا نام دینے کامشورہ دیا۔ پوائنٹس لکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ دیکھو میرے خطابات میں میرے تاثرات شامل نہیں ہوتے، میں دل سے بات کرتا ہوں میرے الفاظ تو لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ لیکن اس طرح نہیں جس طرح میں چاہتا ہوں۔ اس پر سب نے ہاں میں ہاں ملائی بلکہ دھرنے کے مشیروں نے اظہارِ ملال کیا اور خود کو کوسنے دینے لگے کہ انہیں اس سے پہلے اس بات کا احساس کیوں نہ ہوا۔ اس پر طویل بحث وتبادلہ ہوا۔ سب نے تائید کی کہ بادشاہ سلامت کے فرمودات ان کے مکمل تاثرات کے ساتھ پہنچنا ضروری ہیں اس کا اثر سوگنا سے بھی زیادہ ہوگا۔ اور ایک خطاب بہت سی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی شوز پر بھاری ہوجائے گا۔ یہ وہ پوائنٹ تھا جہاں ’’محسن‘‘ مشیر نے اپنا کام دکھایا اور اپنی حصہ داری میں چلنے والے پروڈکشن ہاؤس کی خدمات پیش کردیں۔ ایچ ڈی کیمرے، بہترین ساؤنڈ ریکارڈنگ اور جدید ایڈیٹنگ، خطاب کے تاثر کو اتنا تقویت دیں گے کہ اپوزیشن والوں کی بولتی بند اور فدائین کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ بجٹ سے آنے والی بددلی دفع دور ہوجائے گی اور جب ہوگی ہربلا دور تو پھر ملے گا دل کو اصل سرور۔ یہ وہ کیفیت تھی جب پی ٹی وی کی ٹیم کو اندر بھی داخل نہ ہونے دیا گیا۔ جدید آلات پر ریکارڈنگ ہوئی، کچھ ری ٹیک بھی ہوئیں، پھر ایڈیٹنگ نے کمال دکھائے۔ جس میں چہرۂ مبارک کو بار بار مرکوز کیا گیا۔ آواز کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا گیا اور یوں اس خطاب کا کارڈ (کیسٹ) کڑی نگرانی میں پی ٹی وی پہنچادیا گیا اور معاون خصوصی اسے چلانے کے لیے متعین کردی گئیں۔ یہ وہ مقام آیا چاہتا ہے جب کھوکھلے جذبات حقائق کے سامنے ڈھیر ہوتے ہیں۔ جب دوسروں کے سہاروں پر بنے بادشاہ کی جلال سے بھرپور آواز خود اسی کے کانوں کو چیر رہی ہوتی ہے۔ پی ٹی وی کا پرانا نشریاتی نظام اس جدید ریکارڈنگ کو نہ سہار سکا۔ اور بادشاہ سلامت کی ساری گھن گرج باربار کی تکنیکی مسائل میں ڈوب کر رہ گئی۔ بعض نجی ٹی وی چینلز کی تو سنی گئی۔ تکنیکی غلطی کا ’’خمیازہ‘‘ ادا کرنا پڑا۔ بہت سی منت سماجت اور کچھ ’’لالچ‘‘تاکہ اس تقریر کو پھر سے نشر کردیا جائے اور پھر ایسا ہوا بھی۔ اب اس کا اثر کس حد تک اور کتنی دور تک گیا ہے۔ اس کا اندازہ بدھ کی شام تک کے تبصروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جب کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔یہ ہے وہ کہانی جو سب جاننا چاہتے تھے ایسے تمام مواقع کی اندرونی خبروں کے لیے جڑے رہیے ہمارے ساتھ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے