ہمہ جہت جنگیں

اسرائیلی اور روسی فوجیوں کے درمیان ایک ہاٹ لائن ‘توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔آئی ڈی ایف کے ایک اہلکار نے گزشتہ دنوں کہا کہ ہماری سرگرمیوں کے بارے میں روسیوں کو مطلع کرنے کے حوالے سے بہت سے خدشات موجود ہیں‘روسی ہماری ہر نقل و حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی تک روسی طیاروں سے بچنے کے لئے کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ۔ اسرائیلی افواج شام میں ہزاروں فوجیوں کو پیچھے دھکیلے ہوئے ہیں‘ تاکہ ایرانی حمایت یافتہ فوج اسرائیل کے شمالی سرحدسے دور رہے۔شام میں ہزاروں روسی فوجی بھی موجود ہیں ‘جو کبھی کبھار براہ راست لڑائی کی زد میں آجاتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ اسرائیل یا ماسکو لڑائی میں دلچسپی رکھتے ہیں‘مگر کئی بارآمنے سامنے آ چکے۔ ایک اسرائیلی دفاعی اہلکار نے یروشلم میں عالمی میڈیا کوحالیہ انٹرویو کے دوران بتایا کہ ہم میں سے کوئی بھی فوجی تصادم نہیں چاہتا۔یہ دونوں اطراف کے لئے خطرناک ہوگا۔اس کے باوجود اسرائیل کی پالیسی اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ جودیکھ رہا ہے اور بھگت رہا ہے‘ شام سے ایرانی افواج کا نکلنا نہایت ضروری ہے؛ اگر روس ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا تو اسے یقینا اس کی قیمت چکانا ہوگی۔اسرائیل اور ماسکو کے درمیان تعلقات ‘سرد جنگ میں زیادہ گرم ہیں۔ 1970 ء کا عشرہ‘جنگ کے دوران امریکی‘ سوویت یونین کے درمیان تعلق کا ایک عجیب یادگار دور ہے۔ اعلیٰ سطح پر‘ ایک خاص دوستی اور تعاون کے خواہاں‘ ابھی تک مسکراہٹ کے نیچے جنگ‘ شک اور بنیادی مفادات کا مقابلے میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ لگی ہے۔

آئی ڈی ایف کے اہلکاروں کو اکثر انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسرائیل میں کوئی بھی پریشان نہیں۔ روس کون ہے ؟اور اس کے ساتھ کون اتحادی شامل ہیں؟ہاں ایک بات واضح ہے کہ روسی ہمارا اتحادی نہیں اور نہ ہی وہ ہمارے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتا ہے۔ہمارااتحادی صرف اورصرف امریکہ ہے ۔روس کے اپنے مقاصد ہیں۔اس وجہ سے وہ شام میں مداخلت کر رہا ہے اوروہ شامی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔شام ‘ اسرائیل کے خاتمے کا ایک واضح مقصد ہے۔روس ایک ایسے اتحاد کا بھی حصہ ہے‘ جو ایران کی حمایت کرتا ہے۔اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اس واقعہ کونہیں بھلایا جا سکتا۔ ستمبر 2018ء کے دوران مغربی شام میں گولہ باری کی گئی اور حملوں میں شدت آئی ۔شام میں ایک میزائل سے روسی L-20 نگرانی جہاز کومار گرایا گیا۔ پندرہ روسی افراد ہلاک ہوئے۔اسرائیل روسی الزامات سے انکار کرتا رہا کہ اس نے روسی جہاز کومیزائل سے ٹارگٹ نہیں کیا‘ بلکہ اسرائیل کو کئی مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ روس نے شام کو جدید ترین S-300 طیارے اور جدید میزائل فراہم کیے ہیں‘ جس کو چھپانے کے لیے اسرائیل پر الزام لگایا جا رہا ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے ہوئے‘ کریملن نے بھی شام میں اسرائیلی حملوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ واضح رہے کہ شام اور روس پرانے اتحادی ہیں۔ داعش اور دیگر باغی گروہوں سے حکومت کو بچانے کے لیے روس نے کافی تعدادمیں اپنی فوج کو لڑنے کے لیے بھیجا۔شام میں کم سے کم 63000فوجی اس وقت خدمات انجام دے رہے ہیں۔روسی صدر پیوٹین 2016 ء میں وعدہ کر چکے کہ جلد روسی افواج کاشام سے انخلاء یقینی بنائیں گے ۔ 2016ء میں‘ ماسکو اور دمشق نے چالیس سالہ معاہدے پر دستخط کیے‘ جس کے مطابق؛ جوہری طاقتور روسی جنگجوؤں کو شام سے اپنے آپریشن چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔وہاں روسی فوجی چھائونیاںقائم کی گئیں۔اس کے علاوہ روسی طیارے ‘ میزائل اوربشمول S-400 فضائی دفاعی نظام کے شام کے مغربی علاقوں میں دو بڑے ہوائی اڈے قائم کیے گئے۔

شام میں لڑائی سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا اسرائیل ‘ روس سے لڑے بغیر شام میں ایران کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ایرانی یا شام کی تنصیب پر ایک اسرائیلی حملے سے روسی مشیر یا تکنیکی ماہرین نے بم کے ٹکرے اکٹھے کیے‘اسی اسرائیلی ساختہ بم سے روسی کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا؟ دسمبر 2017ء میں شام کے اسلحے اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کو بخوبی جانا جا سکتا ہے‘ جب امریکی طیاروں کو شرق اوسط سے داخل ہوتے ہوئے‘ روسی ایس یو طیاروں نے ریڈار میں ٹریک کر لیا۔عمومی طور پر یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ آئی ڈی ایف اس سیارے پر سب سے بڑے ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ سابق سپر طاقت روس کے مقابلے میں اس کی صلاحیتوں سے نہ ہی نفر ت کرتا ہے اور نہ ہی فکرمند ہے ۔

اسرائیل ایک چھوٹے چوہے کا کردار ادا کیے ہوئے ہے‘جو کئی ممالک کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔یہ بھی سچ ہے؛ اگر اسرائیل کسی چوہے سے مشابہت رکھتا ہے‘ تو یہ کئی ممالک پہ غالب چوہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی کوئی بھی ممکنہ جنگ بہت خطرناک حالات پیدا کر سکتی ہے‘یہ نظریہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔ 1967ء میںچھ دن کی جنگ کے بعد سوویت جنگجوؤں کو مصر بھیج دیا گیا تھا۔ 1970ء میں سوز کینال پر ایک منصوبہ بندی کے تحت فضائی حملے میں ‘اسرائیلی لڑائیوں میں‘تین منٹوں کے اندر سوویت کے مگ طیاروں کو تباہ کر دیا گیا۔دوسری جانب اسرائیل کو روس کے ساتھ براہ راست لڑنے کی خاص ضرورت نہیں۔ آئی ڈی ایف اہلکار( اسرائیلی) اور روسی افواج کے درمیان کوئی بڑا تنازعہ نہیں‘بس اسرائیل کو تشویش ہے کہ شام کی لڑائی میں وہ ان کے مخالف کی حمایت جاری کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہتھیاروں سے مدد کررہا ہے۔

یاد رہے کہ 1970ء کے عشرے میں شام اور ایران جیسے اسرائیلی دشمنوں کوسوویت یونین نے متعدد فضائی دفاعی میزائل اور بندوقیں فراہم کیں‘ جس نے اکتوبر 1973ء کی جنگجوؤ ںمیں اسرائیلی جہازوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے