معاملہ زاویہ نظر کا ہے۔ میں سیاسیات اور عمرانیات کا طالب علم ہوں۔ معیشت کو بھی اسی زاویے سے دیکھتا ہوں۔
عمران خان صاحب کی تقریر میں مدت سے کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ اس لیے اب سننے کا اشتیاق بھی نہیں ہوتا۔ تقریر سنے بغیر آپ بتا سکتے ہیں کیا کہا ہو گا۔ ‘چھوڑوں گا نہیں‘ ، ‘این آر او نہیں دوں گا‘ جیسے جملوںکی تکرار اور ریاستِ مدینہ کا بات بے بات ذکر۔ منگل کی شب کا خطبہ بھی ان کی دیگر تقاریر سے جوہری طور پر مختلف نہیں تھا۔ اس بار بھی خیال ہوا کہ کاش وہ لکھی ہوئی عبارت روانی سے پڑھ سکتے۔ فی البدیہہ تقریر اُسی کو کرنی چاہیے جو زبان و بیان کی نزاکتوں سے باخبر ہو۔ بدر و احدکے واقعات کا تذکرہ کرتے وقت الفاظ کے انتخاب میں احتیاط ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ لکھی تقریر ہوتی تو اس طرح کے تسامع سے بچا جا سکتا تھا۔ اگر انہیں اسی طرح کے خطاب پر اصرار ہے تو ان کے لیے مذہبی حوالوں سے گریز بہتر ہے۔
اس تقریر میں انہوں نے ‘چھوڑوں گا نہیں‘ کے جملے کی تفسیر میں ایک عملی قدم اٹھانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ‘اپنے نیچے‘ ایک کمیشن بنائیں گے اور وہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ادوار میں جو قرض لیا گیا، وہ کہاں خرچ ہوا۔ اس کمیشن میں آئی ایس آئی سمیت خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ میں اس فیصلے کے سیاسی مضمرات پر غور کر رہا ہوں‘ جو مجھے کسی طرح خوش گوار دکھائی نہیں دے رہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب خود اس معاملے میں فریق ہیں۔ وہ دوسروں کو اُس وقت سے چور کہتے آئے ہیں جب یہ معاملات کسی عدالت میں زیرِ بحث ہی نہیں تھے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور اسی ‘پوسٹ ٹروتھ‘ کو اپنی سیاسی مہم جوئی کی اساس بنایا۔ ایک مقدمے میں جو آدمی خود فریق ہو وہ منصف کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر انہوں نے کوئی کمیشن بنانا ہی ہے تو اس کے لیے مناسب ہوتا کہ وہ اپنی تجویز پارلیمان کے سامنے رکھتے اور کسی ایسے فرد کو اس کا سربراہ بناتے جو غیر سیاسی ہوتا۔ پارلیمان سے اپنی بات کے حق میں انہیں سادہ تائید میسر آ سکتی تھی۔ عمران خان صاحب کے ‘نیچے‘ بننے والا کوئی کمیشن غیر جانب دار متصور نہیں ہو گا۔
اس مجوزہ کمیشن میں دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں آئی ایس آئی جیسی خفیہ ایجنسیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ بات میرے نزدیک پہلی بات سے بھی زیادہ خطرناک اور کوتاہ نظری کی علامت ہے۔ قومی اداروں کو داخلی معاملات میں الجھانا کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ آئی ایس آئی ملکی دفاع کے باب میں غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ہر پاکستانی اس کردار کا معترف ہے۔ اسی کردار کے باعث ان اداروں اور عوام میں محبت کا رشتہ قائم ہے۔ اس رشتے کو کسی صورت مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بڑی عاقبت نا اندیشی کوئی نہیں ہو سکتی کہ کوئی سیاسی حکومت قومی اداروں کو سیاسی تنازعات میں الجھائے اور ان اداروں کو متنازعہ بنائے۔
گزشتہ دو برسوں میں ہمارے سیاسی ماحول میں جو تلخی گھل گئی ہے اور قومی اداروں کے بارے میں جیسے سوالات اٹھنے لگے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان اداروں کو ان معاملات میں شریک کیا گیا‘ جن کا تعلق ملک کی داخلی سیاست سے ہے۔ عمران خان صاحب اس غطی کو ایک بار پھر دہرانا چاہتے۔ انہیں اس مقصد کے لیے سویلین اداروں کی مدد لینی چاہیے اگر وہ اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ آج ملک کا حقیقی دوست وہی ہے جو فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کو غیر سیاسی بنانے کے لیے آواز اٹھا رہا ہے۔
پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ اس انتشار سے نجات ہے جو تیزی کے ساتھ پورے معاشرے میں سرایت کر رہا ہے۔ اس وقت ریاست کی تمام اکائیوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے جسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں وفاق کی سیاست کرتی رہی ہے اور اس کے اس کردار کو سراہنا چاہیے۔ حکومتی سطح پر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے سندھ میں شکایت پیدا ہو۔ اس وقت پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں اضطراب کی لہریں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ بڑی بد قسمتی ہو گی اگر حکومت اس صورتِ حال سے صرفِ نظر کرے گی۔
عمران خان صاحب کا مجوزہ کمیشن ایک ایسے ذہن کی تخلیق محسوس ہوتا ہے جو سیاسی حرکیات سے بے خبر ہے۔ جو ریاست کے وجودی مطالبات جانتا ہے نہ سیاست اور معیشت کے باہمی تعلق ہی کو سمجھتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ حکومت ایک ایسا بجٹ پیش کر رہی ہے جس میں کسی آدمی کے لیے فوری طور پر خیر کی کوئی خبر نہیں، اور اسی بجٹ کے بعد وزیر اعظم اپنی گردان کو پھر دہرا رہے ہیں۔ اس بجٹ میں اگر کچھ اچھا ہے بھی تو وہ وعدۂ فردا ہے۔
یہ خود حکومت کا موقف ہے کہ اگلا سال مزید مشکل کا ہو گا۔ اس کے بعد بہتری آئے گی۔ حکومت کے معاشی ماہرین اس بات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ جہاں جان کے لالے پڑے ہوں، وہاں مستقبل کا کوئی انتظار نہیں کرتا۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ مہنگائی کی جو لہر اب اٹھے گی اس کا ردِ عمل ہو گا۔
ایسا بجٹ پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم قوم سے خطاب فرما رہے ہیں اور اس میں اطلاع یہ دے رہے ہیں کہ چاہے ان کی جان بھی چلی جائے، وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ ایسے موقع پر جب بجٹ کو منظور کرانے کے لیے پارلیمان کی تائید کی ضرورت ہے، وہ دوستوں کے بجائے مخالفین کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سیاسی بصیرت کی کون داد دے سکتا ہے؟
جب یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سوال اٹھایا جاتا ہے: کیا احتساب نہ کیا جائے؟ کیا چوروں کو کھلی چھٹی دے دی جائے؟ اس کا بارہا جواب دیا جا چکا کہ اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ احتساب ہونا چاہیے اور کرپشن کے کلچر کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ احتساب کا ایسا نظام قائم کیا جائے‘ جس سے سیاسی خلفشار جنم نہ لے اور احتساب کا ایسا نظام قائم ہو جائے جس پر ایک عمومی اعتماد ہو۔ یہ ممکن ہے، اگر خان صاحب اپنی انتقامی سوچ کو قابو کر سکیں۔
اس کا آسان اور سادہ طریقہ یہ تھا کہ پارلیمان میں احتساب کے ایک نئے نظام کا خاکہ پیش کیا جاتا۔ اس پر بحث ہوتی۔ حکومت اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرتی۔ اگر پارلیمان میں اتفاق رائے ممکن نہ ہوتا تو پھر حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر قانون منظور کرا لیتی۔ اس صورت میں حکومت پر کوئی الزام نہ آتا۔ ہم شاید اس خلفشار سے بچ جاتے جس کا اس وقت شکار ہیں۔
سیاسیات اور عمرانیات کا یہ طالب علم یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ حکومتی پالیسی کسی سیاسی دماغ کی کارفرمائی ہے۔ میرے لیے یہ ایک عجوبہ ہو گا اگر اس سوچ کے ساتھ یہ حکومت چل جائے۔ حکومت نے نو ماہ سر توڑ کوشش کی ہے کہ کوئی ریاستی اکائی اور کوئی طبقۂ خیال اس کا ہم نوا نہ رہے۔ ایک ایک کر کے جس طرح سب کو بے زار اور الگ کیا جا رہا ہے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اب تو حامد خان صاحب کے لیے بھی ممکن نہیں رہا کہ وہ وکلا کو چھوڑ کر اپنی سیاسی جماعت کا ساتھ دیں۔
عمران خان صاحب کا سیاسی سفر جس راستے پر آگے بڑھ رہا ہے‘ اس کی منزل فاشزم ہے۔ فاشزم پاپولزم اور ہیجان کا مرقع ہے۔ وہ یک جماعتی نظام کو فروغ دے رہے ہیں اور سیاسی مخالفین کے وجود ہی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ مقصد ہیجان برپا کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کے، سیاسیات کے اس طالب علم کی نظر میں دو ہی انجام ممکن ہیں ایک فاشزم‘ اور اگر اس کے خلاف سیاسی مزاحمت منظم ہو جائے تو پھر سیاسی نظام کا خاتمہ۔