آپ اگر بائبل کا مطالعہ کریں تو آپ ابتدا کے باب میں ہابیل (Abel) اور قابیل (Cain) کا واقعہ پڑھیں گے‘ حضرت آدم ؑ کے ان دونوں بیٹوں میں صرف ایک خاتون کے لیے لڑائی نہیں ہوئی تھی‘ یہ دراصل جانور پالنے اور کھیتی باڑی کرنے والوں کی نفسیات کی جنگ بھی تھی‘ ہابیل گڈریا تھا‘ وہ جانور پالتا تھا جب کہ قابیل کسان تھا‘ وہ کھیتی باڑی کرتا تھا‘ یہ دونوںاقلیما سے شادی کرنا چاہتے تھے۔
حضرت آدم ؑ کے قبیلے میں روایت تھی فریقین تنازعے کی صورت میں چڑھاوا چڑھاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ جس کا چڑھاوا قبول کر لیتا تھا وہ جیت جاتا تھا اور دوسرا شخص فیصلے کو اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیتا تھا‘ ہابیل اور قابیل بھی اپنے اپنے چڑھاوے لے کر مقدس مقام پر پہنچ گئے‘ ہابیل نے بھیڑوں کا دودھ اور بھیڑ کا بچہ اللہ تعالیٰ کی نذر کیا جب کہ قابیل نے اپنے کھیت کے خوشے اور باغ کے پھل پیش کر دیے‘ اللہ تعالیٰ نے ہابیل کا تحفہ قبول کر لیا۔
روایت کے مطابق قابیل کو اللہ کا فیصلہ قبول کر لینا چاہیے تھا لیکن وہ باغی ہو گیا اور اس نے ہابیل کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا‘ قابیل نے لڑتے لڑتے زمین سے پتھر اٹھایا اور ہابیل کے سر پر دے مارا‘ ہابیل گرا اور دم توڑ گیا یوں قابیل دنیا کا پہلا قاتل اور ہابیل پہلا مقتول بن گیا‘ یہ زمین پر انسان کی پہلی لاش بھی تھی۔
قابیل لاش دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اسے کہاں اور کیسے ٹھکانے لگائے‘ اللہ تعالیٰ نے کوے کو اس کی مدد کے لیے بھجوادیا‘ قابیل کے سامنے ایک کوا فوت ہوا‘ دوسرے کوے نے چونچ کے ساتھ زمین کھودی‘ گڑھا بنایا‘ مردہ کوے کو گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالا اور چونچ کے ساتھ گڑھا بھر دیا‘ قابیل نے بھی گڑھا کھودا اور ہابیل کو دفن کر دیا‘ ہابیل اور قابیل کی یہ لڑائی ایک غار میں ہوئی تھی‘ یہ غار دمشق کے مضافات میں پہاڑوں کے درمیان واقع ہے‘ مجھے اس میں جانے کاا تفاق ہو چکا ہے۔
زمین پر آج بھی وہ پتھر موجود ہے جس سے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا‘ وہ چھوٹا سا پتھر ہے لیکن دو تین لوگ مل کر بھی وہ پتھر نہیں اٹھا سکتے‘ مجھے ہابیل کے مزار پر حاضر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی‘ یہ پہاڑ کی چوٹی پر ہے‘ مزار کے برآمدے سے دور نیچے وادی میں دمشق شہر نظر آتا ہے‘ یہ جگہ خانہ جنگی کے زمانے میں داعش کے قبضے میں چلی گئی تھی اور وہ وہاں سے شہر پر گولہ باری کرتے تھے‘ یہ اب شامی فوج کے پاس ہے ‘ حضرت ہابیل کے مزار کے بالکل سامنے توپیں لگی ہیں اور فوجی بیرکیں بنی ہیں۔
میں قصے کی طرف واپس آتا ہوں‘ ہم ہابیل اور قابیل کے واقعے سے تین سبق اخذ کر سکتے ہیں‘ پہلا سبق گڈریا ذہنیت ہے‘ جانور پالنے والے لوگ متوکل اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوتے ہیں‘یہ وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے تمام انبیاء کرام جانور پالتے رہے‘ یہ زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں گڈریے رہے‘ دوسرا سبق کسان ذہنیت (Peasant Mentality) ہے‘ دنیا کے زیادہ تر کسان سخت مزاج‘ کینہ پرور اور دشمن دار ہوتے ہیں‘ پوری دنیا میں اسی لیے دیہاتی علاقوں میں لڑائی جھگڑے‘ قتل و غارت گری اور نسلی فسادات کے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں‘ کسانوں کی لڑائیاں نسلوں تک چلتی ہیں‘ یہ عصبیت کے بغیر بھی زندگی نہیں گزار سکتے۔
تاجر یا صنعت کاربہت کم بھائی کا دشمن بنتا ہے لیکن کسان ضرور ہوتے ہیں اور تیسرا سبق کوا ہے‘دنیا میںپرندوں کی 18 ہزاراقسام ہیںلیکن اللہ تعالیٰ نے قابیل کو سمجھانے کے لیے صرف کوا بھجوایا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ کوا پرندوں میں طویل العمر ہوتا ہے‘ یہ عموماً تین سو سال تک زندہ رہتا ہے‘ آپ کو کوؤں کی بہت لاشیں ملیں گی‘ کوے دشمن سے بچنے کا فن بھی جانتے ہیں‘ یہ ہمیشہ کالونی بنا کر گروپ میں رہتے ہیں‘ یہ خوراک کے لیے پہلے ایک کوے کو بھجواتے ہیں‘ وہ تمام چیزوں کو ٹھونگیں مار کر چیک کرتا ہے۔
دوسرے کوے دور بیٹھ کر مشاہدہ کرتے رہتے ہیں‘ پہلا کوا اطمینان کے بعد سگنل دیتا ہے اور پھر پہلے آدھے کوے زمین پر اتر کر دانا چگتے ہیں اور دوسرے درختوں پر بیٹھ کر ان کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ جوں ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں‘ وہ چیخنا شروع کر دیتے ہیں اور دانا چگنے والے کوے خطرے سے مخالف سمت میں اڑ جاتے ہیں‘ پہلے بیچ کے سیر ہونے کے بعد وہ درختوں کی چوٹی پر بیٹھ کر نگرانی کا کام شروع کر دیتا ہے اور پھر دوسرا بیچ دانا چگنے لگتا ہے‘ یہ خطرے میں اس قدر زور سے چیختے ہیں کہ پورے علاقے میں موجود کوؤں تک خطرے کی خبر پہنچ جاتی ہے۔
آپ کسی کوے پر ایک بار گولی چلا دیں پانچ سال تک کوئی کوا اس علاقے میں داخل نہیں ہو گا‘ کوے اپنی طویل العمری کی وجہ سے علاقے کے تمام لوگوں‘ ان کے رشتے داروں‘ ان کے گھروں اور ان کی گلیوں تک سے واقف ہو جاتے ہیں چناں چہ ان کا کوئی رشتے دار جب بیمار ہوتا ہے یا یہ ان کے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے تو کوا ڈاکیا بن کر اس خاندان کو اطلاع دے دیتا ہے‘ یہ باؤنڈری وال پر بیٹھ کر چیخنا شروع کر دیتا ہے‘ یہ ان کو اپنی زبان میں بتاتا رہتا ہے آپ کھانا بڑھا لیں آپ کے مہمان آ رہے ہیں اور آپ کا فلاں رشتے دار بیمار ہے اور وہ چند دن کا مہمان ہے۔
ہمارے دیہات کے زیادہ تر بزرگ کوؤں کے یہ پیغام سمجھتے تھے چناں چہ کوا جوں ہی بولنا شروع کرتا تھا یہ پیغام سمجھ کر تیاری شروع کر دیتے تھے‘ پنجابی میں ایسے سمجھ دار کوؤں کو ’’سیانا کاں‘‘ کہتے ہیں‘ سیانا کاں کی اصطلاح دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہے‘ کوے عقل اور تجربے کی علامت بھی ہوتے ہیں اور یہ علامت پوری دنیا میں دیکھی‘ پڑھی اور پڑھائی بھی جاتی ہے۔
دنیا سرمایہ کاروں‘ صنعت کاروں اور تاجروں کو کبوتر کہتی ہے‘ آپ کبھی کبوتروں کا مشاہدہ کریں‘ آپ دیکھیں گے کبوتروں کے غول کا ایک کتوبر پہلے نیچے اتر کر دانے پر چونچ مارے گا‘ باقی دور بیٹھ کر دیکھتے رہیں گے‘ یہ جب بلاخوف و خطر دانا چگتا رہے گا تو باقی کبوتر بھی نیچے آ جائیں گے لیکن جوں ہی کسی ایک طرف سے ٹھک کی آواز آئے گی‘ تمام کبوتر اڑ جائیں گے اور یہ پھر جلدی واپس نہیں آئیں گے‘ دنیا کا خیال ہے سرمایہ کاروں کے سینے میں بھی کبوتر کا دل ہوتا ہے‘ یہ سرمایہ کاری کی زمین پر ایک ایک کر کے اترتے ہیں لیکن خطرے کی صورت میںتمام اکٹھے اڑ جاتے ہیں اور انھیں پھر واپس لانا ممکن نہیں ہوتا‘مجھے اس آبزرویشن سے اختلاف ہے۔
میں سرمایہ کاروں کو کبوتر نہیں ’’سیانا کاں‘‘ سمجھتا ہوں‘ سرمایہ کاری دنیا کی طویل ترین دستاویزاور قدیم ترین یادداشت ہے‘ آپ 21ویں صدی میں بیٹھ کر 35 سو سال پرانے قارون کو جانتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ سرمایہ کار تھا اور سرمایہ کار مرنے کے بعد یادداشت یا دستاویز بن جاتے ہیں‘ یہ سیانے کوؤں کی طرح نئے آنے والے سرمایہ کاروں کے لیے درس گاہ ہو جاتے ہیں‘ دنیا کے کسی ملک میں اگر کسی ایک سرمایہ کار کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ خود کوے کی طرح اڑ جاتا ہے لیکن اس کے شور (مثال) سے پھر کوئی دوسرا کوا وہاں نہیں آتا اور ہم یہ غلطی کر رہے ہیں‘ ہم نے احتساب کو غلیل بنا لیا ہے اور یہ غلیل ملکی اور غیر ملکی دونوں سیانے کوؤں کو اڑاتی چلی جا رہی ہے۔
آپ ملک کی معاشی حالت دیکھ لیجیے‘ ہم زرعی ملک ہیں‘زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.8فی صد تھا ‘ یہ 0.85 فی صد رہا‘ بڑی فصلوں کی گروتھ کا ہدف تین فی صد تھا ‘یہ منفی 6.55 فی صد رہا جب کہ باقی فصلوں کی شرح نمو 3.5 فی صد ہدف کے مقابلے میں 1.95 فی صد رہی‘ کاٹن جننگ کے شعبے کی گروتھ 8.9 فی صد کے مقابلے میں منفی 12.74 فی صد رہی‘ ڈالر 103 روپے سے 152 روپے تک پہنچ گیا‘ حکومت نے 14مئی کو اثاثے ظاہر کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لانچ کی‘ حکومت کا خیال تھا یہ اسکیم کے ذریعے 200ارب روپے جمع کر لے گی لیکن یہ اسکیم بری طرح فلاپ ہو گئی۔
وزیراعظم نے دو بار قوم سے درخواست کی لیکن قوم نے اس کے باوجود اثاثے ظاہر نہیں کیے‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت غلیل بن چکی ہے اور جہاں غلیل ہوتی ہے وہاں سے سیانے کوے اڑ جاتے ہیں‘ دنیا اب معیشت کا نام ہے‘ آپ معاشی لحاظ سے ترقی کر رہے ہیں تو آپ سپر پاور ہیں ورنہ آپ راستے کے پتھر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ہم ملک کو پتھر بناتے جا رہے ہیں‘ آپ گوگل پر جا کر میگا کرپشن اسکینڈلز آف انڈیا ٹائپ کریں‘ آپ کو چودہ اسکینڈلز ملیں گے‘ پہلا اسکینڈل ایک لاکھ 76 ہزار کروڑ روپے مالیت ہے‘ یہ پاکستان کے کل بجٹ کے برابر ہے۔
چھوٹا ترین اسکینڈل 50 ہزار کروڑروپے کا ہے لیکن آپ بھارت کے کسی سیاستدان کو کسی فورم پر ان اسکینڈلز کا ذکر کرتے نہیں دیکھیں گے جب کہ ہماری پوری کابینہ دنیا کے ہر فورم پر ’’ہم کرپٹ ہیں‘ ہمارے حکمران ملک کو لوٹ کر کھا گئے‘‘ کی دہائی دیتے نظر آئیں گے چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجیے حکومت جب خود ملک کی منفی ایڈورٹائزنگ کرے گی تو پھر کون سا ’’سیانا کاں‘‘ پاکستان میں اترے گا چناں چہ ہم منفی ایڈورٹائزنگ کے ذریعے بھی غیر ملکی اور مقامی دونوں سرمایہ کاروں کو بھگاتے چلے جا رہے ہیں‘ کیا ہم اس ملک کو کمیونسٹ بنانا چاہتے ہیں‘ کیا ہم اسے ہابیل اور قابیل کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں؟یا پھر ہم اسے مکمل طور پر دیوالیہ کرنا چاہتے ہیں‘ حکومت آخر کرنا کیا چاہتی ہے؟
یہ کم از کم واضح کر دے تاکہ لوگ اپنی اپنی قبریں کھود لیں‘ یہ اپنی آخری آرام گاہ کا فیصلہ کر لیں‘ یہ ملک خوف کی بھٹی بن کر اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ کو بہرحال لوگوں کو اعتماد لوٹانا ہوگا‘ اگر ایک بار تمام سیانے کوے اڑ گئے تو پھر یہ کبھی واپس نہیں آئیں گے‘ آپ کچھ نہ کریں آپ صرف سرمایہ کاروں کو اعتماد دے دیں‘ آپ کو پھر کسی تقریر‘ قوم سے کسی خطاب کی ضرورت نہیں رہے گی‘ باقی آپ خود سمجھ دار بلکہ عقل کل ہیں۔