جنابِ سلیم صافی کی خدمت میں

جنگ کے ادارتی صفحات شاہد ہیں کہ مجھے ہدف بنانے کا سلسلہ جنابِ سلیم صافی نے شروع کیا، میں نے ہرگز نہیں، البتہ صرف اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ہے۔ صافی صاحب! آپ نے اپنے 12جون کو شائع شدہ کالم میں لکھا ہے ’’میں آپ پر بہتان باندھتا ہوں‘‘، یہ بجائے خود بہتان ہے، میں نے جو کچھ لکھا، آپ کی ماضی کی تحریروں کے حوالے سے لکھا۔ رہا یہ معاملہ کہ آپ فلاں فلاں شخصیات کا احترام کرتے ہیں، یقیناً کرتے ہوں گے، ہم تو آپ کے لکھے ہوئے حرف پر بات کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا ’’میں علماء کا احترام کرتاہوں‘‘، اللہ تعالیٰ آپ کو لفظاً اور معناً اس پیمان پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے مگر میرے سامنے آپ کی یہ تحریر ہے ’’ان میں سے ایک جھوٹ بولتا ہے یا دوسرا یا دونوں جھوٹ بولتے ہیں‘‘، کیا یہ احترام اور تکریم کے کلمات ہیں، ہم نے کیا جھوٹ بولا ہے، جھوٹ کا تعلق کسی خبر سے ہوتا ہے کہ آیا واقعہ کے مطابق ہے یا نہیں، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان شہادات وصول کرنے اور اُن کے رَدّ و قبول کا فیصلہ کرنے کے بعد رویت کا فیصلہ کرتی ہے، یہ فیصلہ ہے، یہ قضا ہے، اس پر جھوٹ کا طعن کرنے کا جواز کیا بنتا ہے؟

ہاں! البتہ کوئی فیصلے پر اعتراض کرنا چاہے، تو میں گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں: اس کے بارے میں استدلال کی دو بنیادیں ہو سکتی ہیں: ایک اصولِ شرع کی روشنی میں اور دوسری فنّی معیارات کی روشنی میں۔ کسی دلیل پر بات کرنے کے بجائے طنز و تعریض شروع کردی جائے، ہیر پھیر کے ذریعے دشنام کو شِعار بنایا جائے، اس مرتبہ آپ نے مُتکبّر کا فتویٰ مجھ پر صادر کیا ہے، ہو سکتا ہے آپ کی لُغت میں اس کے معنیٰ ’’تعظیم و توقیر‘‘ کے آتے ہوں، ہم بھی انسان ہیں، غالب نے کہا ہے:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

کسی کو میرا چہرہ پسند ہو یا ناپسند، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان 25ارکان پر مشتمل ہے، اس میں تمام مکاتبِ فکر کے جیّد علماء شامل ہیں، تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں، البتہ بوجوہ ہدف صرف چیئرمین کو بنایا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا اکثریتی علاقہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلے پر عمل کرتا ہے اور اب یہ اعداد و شمار ریکارڈ پر ہیں۔ آپ کا تفرّد یہ ہے کہ ایک ریاستی ادارے کے مقابل مساوی حیثیت میں ایک فرد کو لاکر بٹھا دیتے ہیں، اگر ایک فرد کو ریاستی فیصلہ اور ریاستی رِٹ کو پامال کرنے کا حق ہے تو پھر مُلّا فضل اللہ، صوفی محمد اور لال مسجد والے یہی کام تو کر رہے تھے اور وہ بھی شریعت کے عنوان سے یہ سب کام کر رہے تھے، اب ہمارا تضاد یہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن ہوا اور اس انحراف کی میڈیا پر پروجیکشن کی جاتی ہے اور ریاست کے مقررہ ادارے کو اس کے مقابل مطعون کیا جاتا ہے۔ اِس فکر کی روشنی میں وہاں آپریشن کا کیا جواز رہ جاتا ہے اور آج بھی جابجا مختلف علاقوں میں ریاست سے مزاحم افراد موجود ہیں، اُنہیں بھی آپ اپنے پروگرام میں بلائیے اور اُن کی بھی پروجیکشن کیجئے کیونکہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے حوالے سے آپ یہی کررہے ہیں۔

ماضی میں بالترتیب مولانا احتشام الحق تھانوی، علامہ سید محمود احمد رضوی، علامہ جسٹس پیر کرم شاہ الازہری، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، مولانا سراج احمد دین پوری، مفتی محمد حسین نعیمی، مفتی ظفر علی نعمانی، مولانا ارشاد الحق تھانوی، مولانا محمد عبداللہ مزاری (لال مسجد والے) اور مفتی محمد اطہر نعیمی اس کے چیئرمین رہے ہیں۔ جنابِ مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ان سب سے اختلاف کیا ہے لیکن ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کیا یہ سب غلط تھے اور اس سے پہلے قیامِ پاکستان سے مسجد قاسم علی خان کا یہی شِعار رہا ہے، 1958کے ایک قومی اخبار کی سُرخی ہے: ’’پشاور کے سوا، سارے پاکستان میں کل پیر کو عید منائی جائے گی‘‘، کیا یہ جرم بھی میں نے کیا تھا؟ جنابِ صافی صاحب! آپ کا جرم یہ ہے کہ آپ ایک فرد کو قومی ادارے کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں، اس سے اعتزال و انحراف کی روش کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں:یہ نہ تو پشتون اور نان پشتون مسئلہ ہے، نہ مسلکی مسئلہ ہے، یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے، ایک ذہنی نہاد ور ایک انحرافی روش ہے۔ پورے پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان سے وابستہ تمام علماء مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔

خانقاہِ دارالایمان والتقویٰ کربوغہ شریف، ہنگو ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں واقع ہے، وہاں کے سجادہ نشین علامہ سید مختار الدین شاہ نے گزشتہ سال اشتہارات تقسیم کیے تھے اور روزنامہ اسلام میں بھی ایک بڑا اشتہار شائع ہوا تھا کہ رویتِ ہلال کی قضا کا اختیار مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کو ہے اور مُتوازی کمیٹیاں بناکر لوگوں کے روزے خراب نہ کیے جائیں۔ رمضان المبارک میں وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اعتکاف کرتے ہیں، جن میں مفتی عدنان کاکاخیل ایسی شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ کراچی، ملتان، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور دیگر مقامات پر مسلکِ دیوبند کے بڑے دینی مدارس وجامعات ہیں، جہاں صوبہ خیبر پختونخوا کے طلباء و طالبات کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ سب مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلے کا احترام اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔ جامعۃ الرشید کراچی میں شعبۂ فلکیات قائم ہے، اُس کے تحت پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ اور بنوں سمیت صوبۂ خیبر پختونخوا کے تمام حساس علاقوں میں نوجوان علماء کو مامور کیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدہ رویت کا اہتمام کریں، اُن کے تقریباً 45مراکز ہیں اور پھر مقامی جریدے اسلام میں تفصیلی رپورٹ چھپتی ہے، ملک بھر سے اُن کی اور ہماری حاصل کردہ شہادات یکساں ہوتی ہیں۔

اسی طرح فیضانِ مدینہ میں توقیت کا بہت مؤثر شعبہ قائم ہے اور ہمارے ادارے میں بھی توقیت کا شعبہ کام کر رہا ہے اور پاکستان بھر میں تعلیمی سال کے دوران تربیتی ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں اور جدید ماہرینِ فلکیات نے ان کورسز کا مشاہدہ کرکے ان کی تحسین کی ہے۔ ایک بار پھر عرض کیے دیتا ہوں: ہربار پہل آپ کی طرف سے ہوتی ہے، میں صرف اور صرف دفاع کرتا ہوں، میرے پاس ٹی وی اسٹوڈیو تو نہیں ہے لیکن میرے ہاتھ میں قلم اور دماغ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو موجود ہے، اس عطا پر میں اپنے خالق و مالک کا شکر گزار ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے