پچھلے 9 مہینوں میں ماحول یوں بنایا گیا: پی ٹی آئی حکومت پہلا بجٹ نہیں دے سکے گی، بجٹ دینا تو دُور کی بات حکومت ہی جا رہی ہے۔ قومی ادارے ایک پیج پر نہیں۔
اور پھر بجٹ آ گیا… اب فرماتے ہیں، بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے اور ساتھ ہی لات مار کر حکومت گرانے والی بات۔ لیکن کس کی لات لگی کہاں‘ آپ سب جانتے ہی ہیں اور یہ بھی کہ آیا ہوا بجٹ پارلیمنٹ سے فنانس بل کی صورت میں پاس بھی ہو کر رہے گا۔
اوپر مذکور بکھرے ہوئے پریشاں خیالات کچھ بے چین روحوں پر وارد کیوں ہوئے؟ یہ کسی کا ایجنڈا تھا، خواہش یا دُعا کہ ملک ڈیفالٹ میں چلا جائے‘ سلطنت ویران ٹھہرے اور قوم ریاست سے مایوس ہو جائے۔ ایسے بیانیے کا ماحول بنانے والے کون ہیں، کس کے کارندے اور کن کے پروردہ ہیں۔ یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا۔ اس لیے آگے چلتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر پاکستان قلاش ڈکلیئر ہو جاتا‘ ایسا ملک جو بجٹ ہی نہیں رکھتا تو کس نے خوش ہونا تھا اور شادمانی کے شادیانے کہاں کہاں گونج اٹھتے؟ چلیے اسے بھی جانے دیتے ہیں کیونکہ آپ کی توجہ ایک اور جانب مبذول کروانی ہے۔ اُن 3 خاندانوں کا طرزِ زندگی تو دیکھیں جو آج Living Beyond Means منی لانڈرنگ، کِک بیک اور کمیشن کے ٹریل بھگت رہے ہیں۔
ان کی ہر رہائش گاہ، سارے محلات سرکاری خرچ پر بم پروف بنائے گئے۔ گاڑیاں بلٹ پروف اور مؤقف شرمندگی پروف۔ نہ کسی کو اپنی اَن گِنّت دولت کے ذرائع آمدن کا پتا ہے نہ ہی کوئی اس آمدن کی منی ٹریل دے سکتا ہے۔ جن کے بچے ارب پتی اور داماد کھرب پتی ہیں۔ ماسوائے جتی ستی کاٹنے والے ایک ایسے پتی کے جس کے سامنے سب دودھ پتی پیتے ہیں‘ اور وہ بے چارہ اپنی روح کو صبح و شام سَتی ہوتے دیکھتا رہتا ہے۔ ہندکو زبان کے ممتاز شاعر افتخار قیصر کے بقول:
دیخدا جاندا رہ جمورے‘ دیخدا جاندا رہ
عمران خان کی قیادت میں جوں ہی ڈانواں ڈول معیشت کو سہارا دینے کے لیے اصلاحات شروع کی گئیں‘ ٹیکس چوروں اور بے نامی اکائونٹس والوں نے متحدہ محاذ بنا لیا۔ اس محاذ کے نعرے، تحریریں، تقریریں، مباحثے، بھاشن اور فتوے پورے 9 ماہ سے مسلسل جاری ہیں۔ سنگل پوائنٹ ایجنڈا یہ تھا کہ معیشت کسی قیمت پر ڈاکیومنٹ نہ ہو سکے۔ ٹیکس کی چوری سینہ زوری کے ساتھ چلتی رہے۔ اگلے دن محسن بیگ کے گھر لیِٹ نائٹ بیٹھک میں کچھ دیر بیٹھا۔ مبشر لقمان نے صرف ایک نجی ادارے کی طرف سے اس ٹیکس‘ جو وصول ہوا مگر ابھی تک ریاستی خزانے میں جمع نہ ہوا‘ کی پریشان کُن تفصیل بتائی۔ سال 2019/20ء کا بجٹ اصلاحاتی بجٹ ہے۔ اس کے پیش ہونے کے ساتھ ہی مالِ مفت دلِ بے رحم والے گھرانوں نے فوراً اپنا بیانیہ بدل لیا۔ اب کہتے ہیں: عمران خان ملک سے بھاگ جائے گا۔ بیانیے کا دوسرا نعرہ ہے: عمران خان این آر او کی تلاش میں ہے۔ یہی وہ کستوری والا نُسخہ ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اب ن لیگ کے نئے عہدے داروں کا نیا بیانیہ ملک کو ڈوبنے سے بچا لے گا۔
اِن سیاسی نعروں میں نہ کہیں وطن ہے نہ کوئی پالیسی سازی اور اصلاحات کا متبادل، نہ ہی سنجیدگی۔ طویل عرصے بعد ایک مختلف بجٹ آیا جس پر سارے پاکستان کے تاجر، صنعت کار اور معیشت دان دو طرح کے تبصرے کر رہے ہیں؛ ایک یہ کہ اس بجٹ کے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا تبصرہ‘ اس بجٹ میں متبادل اکانومی، سٹے بازی، مصنو عی کساد بازاری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ خاص طبقات‘ جو چلتے پھرتے امیری کے اشتہار ہیں‘ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے۔ اگرچہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پہ بھی بوجھ ڈالا گیا‘ مگر اس کی وجہ لاغر اور کمزور قومی معیشت ہے۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے قابلِ عمل اقدامات تجویزکیے گئے ہیں۔ اب یہ بجٹ قومی ایوان کی ملکیت ہے۔ اس پر بحث مباحثہ اور تجویز آرائی کے لیے ڈیبیٹ چل پڑی۔
حالیہ قومی میزانیے کی منظوری کو روکنے کے لیے اپوزیشن اس مخلوط حکومت کے اتحادیوں پر تکیہ کیے بیٹھی تھی۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ بجٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ میں ذاتی طور پر حقائق جانتا ہوں اور وہ مطالبات بھی جنہیں شدید اختلافات کہہ کر اپوزیشن کے حلقے حکومت ٹوٹنے کے دعوے کرتے رہے۔ جواب دہی کے شکنجے میں آئے ہوئے تین اپوزیشن گھرانے یہ بھی اعلان کرتے رہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنوا دیا ہے۔ اب اس دعوے کے بارے میں بھی Bluff call کا وقت آ گیا ہے کیونکہ فنانس بل ایکٹ آف پارلیمنٹ کی صورت میں ووٹنگ کے ذریعے ہی پاس ہو سکتا ہے۔ کسی صدارتی آرڈی ننس یا حکم نامے کی صورت میں ہرگز نہیں۔ اب آئیے اس بجٹ کے ایک منفرد پہلو کی طرف۔
یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تاریخی اقدام ہے‘ جس کے تحت عسکری قیادت نے اپنے اخراجات اور دفاعی امور میں سالانہ اضافہ لینے سے انکار کر دیا۔ ایسا قدم اس سے پہلے 70 سالہ تاریخ میں کسی ادارے نے نہیں اُٹھایا۔ وہ جو پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ سب کچھ فوج پر لگا دیا جائے گا‘ انہیں منہ کی کھانا پڑی ہے۔ ہمارے مشرقی بارڈر اور مغربی سرحدوں پر فوج کولڈ سٹارٹ جنگ کرنے والوں سے نبرد آزما ہے۔ ہر روز دھرتی ماں کے یہ بیٹے اپنی جوانیاں نچھاور کر کے ہمارے گھر اور نیندیں محفوظ بناتے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورتِ حال میں جدید فوجی سامان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کو میچ کرنا ضروری تھا‘ لیکن وطن کے اصلی مجاہدوں نے ڈالر کے دبائو کی پروا کی نہ قیمتوں میں اضافے کی شکایت۔ کاش کسی دن پارلیمنٹ کے 6 ایوانوں میں سے کوئی ایک اپنی دُم پر کھڑا ہو جائے۔
سال بھر کے مفت پی آئی اے ٹکٹ لینے سے انکار کر دے۔ مفت ریلوے ٹکٹ واپس کر دے۔ فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں سرکاری چائے کا کپ پینے سے انکار کر سکے۔ سرکاری بجلی، رعایتی کھانے واپس لوٹا دے۔ پارلیمانی لاجز چھوڑ کر فلیٹ کرائے پر لے لے۔ سرکاری پٹرول سے دست کش ہو جائے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا ٹی اے ڈی اے لینے سے بغاوت کر ڈالے۔ چاہیے تو یہ تھا فوج کی دیکھا دیکھی لاکھوں روپے کی مراعات لینے والے پالیمنٹیرینز کے ساتھ ساتھ اعلیٰ بیوروکریٹس بھی مشکل وقت میں فوج کی تقلید کرتے‘ لیکن ایسے لگتا ہے کہ جان دینے والے جہاد سے لے کر سادگی کے جہاد تک ہمارے سماج نے سارے جہاد سپاہی کی قسمت میں لکھ رکھے ہیں۔
آج کل کچھ وطن پرست والنٹیئر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے شاندار قومی مہم چلا رہے ہیں‘ جس میں انہیں پاکستان میں قربانی دینے کی ترغیب دی گئی کہ کچھ ڈالر پاکستان بھجوائو۔ ان سے پاکستان میں قربانی کے جانور خریدو اور سنتِ ابراہیمیؑ پوری کرو۔ کیا پاکستان سے کھرب پتی اور ارب پتی بننے والے نودولتیوں میں سے کوئی رجلِ رشید ہے جو اپنے پیسے پاکستانی بینک میں منتقل کرے؟ دبئی، لندن، قطر، کویت، جدہ، بحرین، سوئٹزر لینڈ، امریکہ سے ریال، پائونڈ، ڈالر واپس لا کر کسی قومی بینک میں رکھ دے۔ ابھی تک تو کوئی سامنے نہیں آیا۔ کل شاید کسی بخت آور کا بخت جاگ اٹھے۔ اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔ لیکن امیروں کے جمگھٹے والے اس ملک میں سب سے غریب عاجز اور مسکین کا نام ہے پاکستان۔
جمعرات کے دن شہرِ اقتدار میں سپریم کورٹ لائبریری جانا ہوا۔ کچھ سینئر وکیل ایک دوسرے سے ٹھٹھہ کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا: میں نے اپنے حصے کا تالا خریدنا ہے، اجازت دیجیے۔ اس پہ قہقہہ پڑا۔ دوسرے کہنے لگے: تیل کا ڈبہ بھی لے آنا۔ پھر بات بجٹ کی طرف مُڑ گئی۔ سب سے غیر مقبول دلیل یہ تھی کہ اب ہم سب کو ٹیکس دینا چاہیے۔ ایک صاحب اکڑ کر بولے: ملک نے مجھے دیا ہی کیا ہے کہ میں ٹیکس دیتا پھروں۔ ایک منچلے نے بہت خوب جملہ مارا۔ پوچھا: سر جی آپ کے پاس پریکٹس کا لائسنس افغانستان سے آیا ہے یا آپ نیو یارک بار کی لائبریری میں مفت کے ایئر کنڈیشنر تلے اونگھ رہے تھے۔