رابرٹ ایٹ انگر 1918 میں نیوجرسی میں پیدا ہوا‘ وہ نسلاً یہودی تھا لیکن بعد ازاں لادین ہو گیا‘ وہ سائنس کو خدا سمجھنے لگا‘ فزکس اور ریاضی میں ایم ایس سی کیا اور یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا‘ وہ عمر بھر دائمی زندگی پر کام کرتا رہا‘ اس کا خیال تھاسائنس سو سال میں انسان کو ہزار سال تک زندہ رکھنے کا فارمولا ایجاد کر لے گی جس کے بعد موت راز نہیں رہے گی‘ رابرٹ نے تحقیق سے ثابت کیا انسان دل بند ہونے کے فوری بعد نہیں مرتا۔
انسانی دماغ موت کے پندرہ منٹ بعد تک زندہ بھی رہتا ہے اور یہ خلیات کو سگنل بھی دیتا ہے تاہم خلیات کو تازہ خون اور آکسیجن کی سپلائی بند ہو جاتی ہے جس سے ان کی حرکت ماند پڑجاتی ہے اور یہ گلنا سڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور یوں انسان مٹی میں مٹی ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔
رابرٹ کا خیال تھا ہم اگر حرکت قلب رکنے کے دو منٹ بعد انسانی جسم کو منجمد کر دیں اور یہ گلنے سڑنے کے عمل سے پہلے محفوظ کر لیا جائے تو انسان کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے تاہم رابرٹ کا خیال تھا سائنس ابھی اس مقام تک نہیں پہنچی لیکن یہ بڑی تیزی سے اس طرف دوڑ رہی ہے اور یہ بہت جلد وہاں پہنچ جائے گی جہاں ہم مُردوں کو دوبارہ زندہ کر لیں گے۔
رابرٹ کا کہنا تھا ہم اگر آج مُردوں کو محفوظ کر لیں تو یہ سو سال بعد زندہ ہو سکیں گے چنانچہ اس نے 1960 میں مشی گن میں مُردوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ ایجاد کیا اور 1976 میں مُردوں کو منجمد کرنے کا ادارہ بنا دیا‘ رابرٹ ایٹ انگر کا طریقہ کرائیانکس(Cryonics) کہلاتا ہے‘اس نے کرائیانکس کی مناسبت سے اپنے ادارے کا نام کرائیانکس انسٹی ٹیوٹ (Cryonics Institute) رکھا‘ رابرٹ نائٹروجن کے ذریعے مُردوں کو منجمد اور محفوظ کرتا تھا۔
یہ حرکت قلب بند ہونے کے دو منٹ بعد جسم کا 60 فیصد پانی نکال کر انسانی نسوں میں کیمیکلز بھر دیتا تھا‘ یہ کیمیکلز خلیات کی حرکت بھی روک دیتے تھے اور گلنے سڑنے کا عمل بھی بند کر دیتے تھے‘ یہ اس کے بعد لاش کو منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا تھا اورپھر اسے مائع نائٹروجن سے بھرے کنٹینر میں بند کر دیتا تھا‘ یہ کنٹینر (Cryostats) کہلاتے ہیں‘ رابرٹ کی والدہ ریحہ ایٹ انگر1977 میں فوت ہوئی‘ اس نے اسے بھی محفوظ کر لیا‘ اس کی پہلی بیوی 1988 میں فوت ہوئی‘ یہ بھی محفوظ کر لی گئی اور یہ خود بھی 2011 میں انتقال کر گیا‘ اس کے شاگردوں نے اس کی لاش بھی نائٹروجن کے کنٹینر میں محفوظ کر دی۔
رابرٹ کا دعویٰ تھا یہ سو سال بعد دوبارہ زندہ ہو جائے گا‘ یہ 30 سال لوگوں کو بتاتا رہا آپ آج کے زمانے کو سو سال پیچھے لے جا کر دیکھیں‘ آپ 1910میں بیٹھ کر آج کے زمانے کی سہولتوں کا اندازہ نہیں کرسکیں گے‘ آپ اگر اس وقت کو سو سال آگے لے جائیں اور خود کو اگر 2110میں رکھ کر دیکھیں تو آپ کو 2010 پسماندہ ترین سال لگے گا‘ رابرٹ کا کہنا تھا سائنس دو تین دہائیوں میںانسانی عقل کو حیران کر دے گی جس کے بعد کڈنی‘ ہارٹ اور لیور ٹرانسپلانٹ کی طرح مُردوں کو زندہ کرنا بھی معمولی واقعہ ہو جائے گا‘ آپ اگر اس دور میں دوبارہ زندہ ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے آپ کو اس دور تک محفوظ رکھنا ہوگا۔
رابرٹ کے دلائل میں وزن تھا چنانچہ امریکا کے 200 امیر لوگوں نے اکائونٹس بنائے‘ اکائونٹس میں دوبارہ زندگی کے لیے مطلوبہ رقم رکھوائی اور خود کو رابرٹ کے ادارے کے حوالے کر دیا‘ یہ لوگ مرنے کے قریب پہنچتے تھے توکرائیانکس انسٹیٹیوٹ کی ٹیم اسپتال پہنچ جاتی تھی‘ یہ لوگ جوں ہی مرتے تھے یہ ماہرین ان کی لاش کو محفوظ بنانے کا کام شروع کر دیتے تھے‘ یہ تصور چند برسوں میں طاقتور ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آج کرائیانکس انسٹی ٹیوٹ کے ممبرز کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے اور یہ ادارہ 170 افراد کی لاشیں محفوظ کر چکا ہے‘ یہ کمپنی اسٹاک ایکسچینج میں بھی رجسٹرڈ ہے اور لوگ اس کے شیئرز بھی خرید رہے ہیں۔
ماہرین کا دعویٰ ہے چند برسوں میں محفوظ لاشوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جائے گی‘ رابرٹ کا ادارہ عنقریب فرنچائز پروگرام بھی لانچ کر رہا ہے‘ یہ مختلف ملکوں کے ماہرین کو لاشیں محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے گا جس کے بعدکرائیانکس انسٹی ٹیوٹ کی شاخیں دنیا بھر میں کھل جائیں گی۔یہ ایک مثال تھی آپ اب ایک دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ میری جوانا (Marijuana) بھنگ کے خشک پتوں کا سفوف ہوتا ہے‘ لوگ صدیوں سے اسے سگریٹ اور حقے میں ڈال کر پی رہے ہیں۔
بھنگ نشہ ہے لیکن یہ نشے کے ساتھ ساتھ ایک معجزاتی پودا بھی ہے‘ یہ اگر اعتدال میں استعمال کیا جائے تو یہ انسان کی عمر‘ جوانی اور خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے اور یہ اس کی برداشت اور کام کی صلاحیت بھی بڑھا دیتا ہے ‘ یہ اسے روز مرہ کی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے‘ بھنگ میں کینسر تک کا علاج موجود ہے‘ بھنگ میں ہزار خوبیاں ہوتی ہیں بس ایک خرابی ہے اور وہ خرابی ہے نشہ‘ یہ پینے والوں کو مدہوش (ٹن) کر دیتی ہے۔
امریکا میں ماہرین نباتات نے آج سے پچاس سال قبل بھنگ پر ریسرچ شروع کی تو پتہ چلا بھنگ میں دو قسم کے اجزاء ہوتے ہیں‘ پہلا جزو سی بی ڈی (Cannabidiol) ہے‘ یہ پینے والوں کو پرسکون بھی بناتا ہے اور بیماریوں کے خلاف ان کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے جب کہ دوسرا جزو ٹی ایچ سی (Tetrahydrocannabinol) ہے اور یہ انسان کو نشے میں لے جاتا ہے‘ یہ اسے مدہوش کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ان اجزاء کی دریافت کے بعد بھنگ کا ایک ایسا پودا بنانا شروع کر دیا جس میں ٹی ایچ سی کا لیول کم اور سی بی ڈی زیادہ ہو‘ یہ چاہتے تھے بھنگ کا نیا پودا پینے والوں کی قوت مدافعت اور سکون بھی بڑھا دے اور یہ لوگ نشے کے شکار بھی نہ ہوں۔
ماہرین ریسرچ کرتے کرتے ٹی ایچ سی کی سطح کو تین فی صد اور سی بی ڈی کو 97 فی صد تک لے آئے اور یہ بہت بڑا کمال تھا‘ اس کمال کے بعد امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے نئی فصل کا معائنہ کیا‘ لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کیا اور اسے انسانی صحت کے لیے مفید قرار دے دیا‘ یہ رپورٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچی اور ٹرمپ نے دسمبر2018 میں جدید بھنگ( میری جوانا) امریکا میں لیگل قرار دے دی‘ بھنگ کا پودا ہیمپ (Hemp) بھی کہلاتا ہے‘ حکومت کی اجازت کے بعد امریکا میں ہیمپ ایک نئی انڈسٹری بن کر ابھر رہی ہے‘ ہیمپ کا منرل واٹر بھی بن رہا ہے‘ گولیاں بھی‘ چیونگم بھی‘ مرہم بھی‘ ان ہیلر بھی‘ شیمپو بھی‘ تیل بھی اور کریمیں بھی‘ مارکیٹ میں اب ہیمپ کے سگریٹ بھی دستیاب ہیں اور لوگ یہ تمام اشیاء کھلے عام بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ماہرین نے لوگوں پر ہیمپ کے دلچسپ اثرات دیکھے ہیں‘ یہ بلڈ پریشر‘ کولیسٹرول اور شوگر میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے اور یہ ڈپریشن کی ادویات کی جگہ بھی لے رہی ہے‘ یہ بڑی تیزی سے فارما سوٹیکل انڈسٹری کی ہیئت تبدیل کر رہی ہے‘ ماہرین کا خیال ہے ہیمپ چند برسوں میں کھانے اور پینے کی ہر چیز میں شامل ہو جائے گی‘ اس کی گیس بھی فضا میں چھوڑی جائے گی اور یہ تمام سگریٹوں میں بھی استعمال ہو گی۔
آپ یہ دونوں تازہ ترین منصوبے دیکھئے اور اس کے بعد ایک سوال کا جواب دیجیے‘ اس نوعیت کے تمام تحقیقی کام ’’کافر ملکوں‘‘ میں کیوں ہوتے ہیں‘ کافر سو سال بعد دوبارہ زندگی کا بندوبست کر رہے ہیں‘ یہ لوگ سوچ رہے ہیں سائنس دو تین دہائیوں میں مُردوں کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کر دے گی چنانچہ یہ اپنی لاشیں بھی محفوظ کر رہے ہیں اور یہ دوبارہ زندہ ہونے کے لیے فنڈز بھی اکٹھے کر رہے ہیں جب کہ ہم سے اس زندگی کا بوجھ نہیں اٹھایا جا رہا‘ ہم نے اسے بھی موت سے بدتر بنا دیا ہے۔
ہم زندہ لاشیں بن کر گلیوں اور بازاروں میں گھوم رہے ہیں‘ مجھے یقین ہے ہم کرائیانکس (Cryonics) کے تصورکی بھی اسی طرح کھل کر مخالفت کریں گے جس طرح ہم نے آج سے 65 سال قبل کڈنی ٹرانسپلانٹ‘52 سال پہلے ہارٹ ٹرانسپلانٹ اور50 سال قبل لیور ٹرانسپلانٹ کوشرک قرار دیا تھا یا پھر جس طرح ہم آج برین یا ہیڈ ٹرانسپلانٹ کوقیامت کی نشانی قرار دے رہے ہیں لیکن وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب رابرٹ ایٹ انگر کی اپنی لاش نائٹروجن کنٹینر سے نکالی جائے گی‘ اس کی نسوں سے کیمیکل نکال کر تازہ خون بھرا جائے گا‘ وہ آنکھیں کھول کر دائیں بائیں دیکھے گا اور پھر اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دے گا۔
آپ اسی طرح ہیمپ کے تصور کو بھی لے لیجیے‘ بھنگ‘ چرس یا میری جوانا کل تک منشیات بھی تھی اور پوری دنیا میں ممنوع بھی لیکن یہ آج قانونی بھی ہو چکی ہے اور صحت کے لیے فائدہ مند بھی‘ کیا ہم آج سے دس سال پہلے اس کا تصور کر سکتے تھے؟ امریکا افغانستان کے ’’بھنگ ریجن‘‘ میں ہیمپ کی کاشت کی پلاننگ کر رہا ہے‘ یہ پاکستان کو بھی مشورہ دے رہا ہے آپ کی زمین بھنگ کے لیے آئیڈیل ہے‘ افغانستان اور پاکستان کی چرس پوری دنیا کے نشئیوں میں مقبول ہے‘کیوں؟ کیوںکہ یہ زیادہ نشیلی ہوتی ہے اور یہ نشہ مٹی سے کشید ہوتا ہے۔
دنیا بھر کی خواتین خود کو اسمارٹ رکھنے کے لیے افغانی چرس پیتی ہیں‘ افغانی چرس(بھنگ) میں ایسے اجزاء موجود ہیں جو انسان کی فالتو چربی پگھلا دیتے ہیں چناںچہ آپ کو پوری دنیا میں کوئی چرسی موٹا نہیں ملے گا‘ امریکی ماہرین پاکستان کو مشورہ دے رہے ہیں آپ بھنگ پیدا کرنے والے علاقوں کو ’’ہیمپ ایریاز‘‘ ڈکلیئر کر دیں‘ بھنگ کے پرانے پودے تلف کردیں اور یہاں ہیمپ کا نیا پودا لگوا دیں اور آپ یہ علاقے انٹرنیشنل ایجنسیوں کے حوالے کر دیں۔
آپ کے کروڑوں چرسی بھی مرنے سے بچ جائیں گے اور آپ کو فارن ایکسچینج بھی مل جائے گا لیکن مجھے یقین ہے ہم اس تجویز کو بھی غیر سنجیدہ اور غیر اخلاقی قرار دیں گے اور ہم اس وقت تک اپنی سنجیدگی اور اخلاقیات پر ڈٹے رہیں گے جب تک پوری دنیا میں ہیمپ کی کاشت شروع نہیں ہو جاتی اور یہ پاکستان کی درآمدی فہرست میں شامل نہیں ہو جاتی‘ ہم پتہ نہیں کیوں تحقیق سے گھبراتے ہیں اور ہم پتہ نہیں کیوں ہر نئی چیز کو حلال قرار دینے سے پہلے اسے حرام کیوں ثابت کرتے ہیں؟ ہم شاید سپر ہیومین بیئنگ ہیںیا پھر ہم نے فیصلہ کر لیا ہے ہم جب تک سو جوتے نہیں کھائیں گے ہم اس وقت تک پیاز نہیں کھائیں گے‘ خواہ کچھ بھی ہو جائے۔