مدار س کے طلبہ پر ہر طرح کی بیرونی سرگرمیوں پر پابندی ہوتی ہے ۔ مدارس کی حدودمیں رہتے ہوئے کسی سیاسی ، سماجی ، عسکری جماعت کے ونگز بنانے یا ان کے ساتھ کام کرنے پر پابندی ہوتی ہے ۔ البتہ جن مدارس کا رحجان کسی خاص جماعت کی طرف ہوتاہے وہ طلبہ کو بھی اس طرف مائل کرتے ہیں یا ان کا حصہ بناتے ہیں ۔ مدارس میں طلبہ و اساتذہ عام طور پر سیاسی جماعتوں میں سے جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء پاکستان ، جماعت اسلامی ، جماعۃ الدعوۃ ، اہل سنت والجماعت اور اس قسم کی اسلامی سیاست کی علمبردار جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔
اس طرح کی سرگرمیوں پر پابندی کا فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ طلبہ تعلیم کی طرف اچھی طرح تو جہ دے پاتے ہیں ۔ سکول ، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر اس قسم کے ونگز سے جو خرابیاں جنم لیتی ہیں وہ مدارس میں بالکل نہیں پائی جاتی ہیں ۔عصری جامعات میں ایسے ونگز اکثر بدمعاشی اور غیر قانونی سرگرمیوںمیں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ اپنے جامعہ کے کسی دوسرے ونگ یا طلبہ کے ساتھ ان کی دشمنیاں ہوتی ہیں ۔ بسوں ، گاڑیوں اور پبلک مقامات میں ایسے طلباء ماردھاڑکرتےہیں ۔ مدارس کے طلباء ان تمام چیزوں سے بچے رہتے ہیں ۔
لیکن سیاسی جماعتوں کے کارکن طلبہ بہت سی مفید سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں ۔ ان جماعتوں کےساتھ وابستہ طلباء میں تنظیمی صلاحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جماعتی ڈسپلن میں کام کرنے کا طریقہ آتاہے ۔ اپنی صلاحیتوں کے زور سے مستقبل میں پارٹیوں میں بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں ۔ مدارس کے طلبہ پر ایسی پابندیاں ان کی سیاسی ، تنظیمی اور تحریکی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں ۔
اسی طرح کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستگی پر اصرار سے مدارس کےلوگوں میں تنوع ، وسعت اور لچک نہیں آتی ہے ۔ ان کے ذہن کو پہلے دن سے بند کردیا جاتاہے اور یہ بند ذہن سیاسی سطح پرباشعور نہیں ہوسکتاہے کیونکہ اس کو بہرحال ایک ہی جماعت کے پیچھے چلنا ہے چاہے وہ سیاہ کرے یا سفید ، ا س کی پالیساں اچھی ہوں یا بری ، ملک وقوم کے لئے فائدہ مند ہوں یا نقصان دہ ، اس لئے یا تو مدارس کو بالکل غیر سیاسی رہنا چاہیے لیکن اگر طلبہ و اساتذہ کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے تو ان کو اتنی آزادی بھی دی جائے کہ وہ کسی بھی جماعت کے رکن بن سکیں اور اس میں کام کرسکیں ۔ اس سے مدارس کے نمائندے مختلف جماعتوں میں جاکر اپنا فکری و عملی پر چار کرسکیں گے ۔
اگر کسی ایک خاص جماعت کے ساتھ بھی منسلک ہونا چاہتے ہیں تو ایسا حق و باطل کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے ۔ ہر جگہ پر حق و باطل کے پیمانوں پر بات کرنے والے لوگ سیاسیات میں بھی جب کسی ایک جماعت کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں تو اس جماعت کی حقانیت کو شرعی اصطلاحات و دلائل کی روشنی میں دیکھتے و ثابت کرتے ہیں۔ سیاسیات میں سیاسی اقدامات کی بجائے جب مذہبی اصطلاحات میں بات کی جاتی ہے تو عوام الناس ایسے لوگوں سے دور ہوجاتی ہے اس لئے سیاست میں ان کے نمائندوں کی کامیابی کا تناسب کم ہوتاہے۔
مدارس کے طلبہ عام طور پر جن جماعتوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ان میں کئی طرح کے مسائل پائے جاتے ہیں جن کا گہرا اثر ان طلبہ کے ذہنوں اور زندگی پر ہوتاہے ۔
وہ جماعتیں جن کے ساتھ مدارس کے طلباء وابستہ ہوتے ہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر وجود میں آتی ہیں اور ان کی سیاسی ترجیحات میں اپنے فرقے کے ووٹ کو محفوظ کرنا اول ترجیح ہوتی ہے ۔ مدارس میں فرقہ وارانہ حدود میں رہنےو الے لوگ سیاسی محاذ میں بھی جب فرقے کی بنیاد پر کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان میں فرقہ وارانہ جذبات مزید پختہ ہوجاتے ہیں اور سیاسی محاذ بھی ان کی وسعت ذہنی کا ذریعہ نہیں بنتاہے ۔
عوامی مسائل و نفسیات کیا ہیں ، سیاسی سطح پر عوام میں پذیرائی کیسے ملتی ہے ، کسی جماعت کے مشہور و مقبول ہونے میں کونسے عوامل کارفرماہوتے ہیں ؟ اس کا ان جماعتوں کو ٹھیک طرح سے ادراک نہیں ہوتاہے یا وہ ان طریقوں پر چلنا نہیں چاہتے ہیں ۔
ان جماعتوں کے ایجنڈے میں جمہوری اقدار، عوامی فلاح وبہبود اور انسانی ترقی ایسی چیزیں شامل نہیں ہوتی ہیں اس کی بجائے یہ طاغوتی نظام کے خلا ف جہاد اور فاسق و فاجر لوگوں کا مقابلہ کرنے کے عزم سے میدا ن میں اترتے ہیں ۔ان کی اس نرگیست کے لئے عوام میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ۔ نتیجۃ یہ لوگ نظام اور اس کی بساط کو الٹنا چاہتے ہیں ، انقلاب ان کی رگ وجان میں سمایا ہوتا ہے ۔ مایوسی کو پہنچی ہوئی یہ جماعتیں کارکنوں اور طلبہ مدارس کو بھی ایسی ذہنیت سے دوچار کردیتی ہیں ۔ ایسے میں یہ کوئی بعید نہیں کہ خلافت کے نام پر جو کوئی اٹھے گا اس کی حمایت میں یہ اٹھ کھڑے ہوں گے ؟
مذہبی سیاسی جماعتیں ملک میں اسلامی نظام کے ایجنڈے پر کام کررہی ہوتی ہیں ۔ وہ ایک طرف جمہوری نظام کو اپنائے ہوتی ہیں دوسری طرف اس نظا م کی بجائے خلافت کو آئیڈیل قرار دیتی ہیں ۔ ان جماعتوں سے وابستہ لوگ سیاست کے حوالے سے ہمیشہ دو رخی میں رہتے ہیں ۔ ان کا ذہن کلیئر نہیں ہوپاتا ۔
علماء کرام اور اسلامی سیاست کے نمائندوں کو اپنے کارکنوں کو بتانا چاہیے کہ اسلام میں خلیفہ کے تقرر کے کسی ایک طریقہ پر اصرار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح حکومت کے مختلف نظام و معیارات اسلامی تاریخ و روایت میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایسے میں آج جب جمہوریت کو اس شرط پر قبول کرلیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ پاک کی ہوگی اور قانون سازی میں قرآن و سنت کو بالاتری حاصل ہوگی تو یہ ایک اسلامی طریقہ انتخاب ہے ، اسلام کے اصولوں کے برعکس نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامی قانون کے نفاذ میں بعض کوتاہیوں کے باوجود یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہے ۔ اسی طرح قدیم دور میں اسلامی ریاست کے ساتھ وابستہ بعض تصورات میں بھی بدلتے حالات کی وجہ سے تبدیلیاں آچکی ہیں ۔ آج اسلامی سلطنت کو ان زمانی تبدیلیوں کے ساتھ ہی قبول کرنا پڑے گا ۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک طرف تو دعویٰ ہوتاہے کہ وہ اصولوں کی سیاست کرتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کی عملی صورتحال کے پیش نظر وہ اس دعوے پر برقرار نہیں رہ پاتے ہیں ۔ ان کی انتخابی مہم میں بہت بلند و بانگ نعرے ہوتے ہیں ۔ جب یہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ان نعروں پر عمل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ یہ جماعتیں دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرتی ہیں تو تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں ۔ ان جماعتوں کی داخلی و اندرونی ساخت بھی ان کے نعروں کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی ہے ۔ ان کے اس دوہرے معیار کو عوام محسوس کررہی ہوتی ہے ۔ ایسے میں ان کے ساتھ وابستہ لوگوں میں بھی تذبذب اور بے یقینی کی کیفیت بڑھتی ہے ۔
طلبہ مدارس کو اپنی دعوتی ذمہ داریوں کو پہنچاننا ہوگا اور اس بات کو بخوبی سمجھنا ہوگا کہ کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ گہری وابستگی ان کی دعوتی سرگرمیوں کو نقصان تو نہیں پہنچا رہی ، دیگر جماعتوں کو منبر و محراب کے وارثین سے دور تو نہیں کررہی ۔ علماء کرام وطلبہ کو چاہیے قومی سیاسی جماعتوں میں اپنے کردار و عمل کے ذریعے مثبت تبدیلیاں لانے کی کوششیں کریں ۔
اگر کسی ایک جماعت کے وابستہ ہونا چاہتے ہیں تو دیگر جماعتوں کی ایسی بنیادوں پر مخالفت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مذہب اور مذہبی طبقہ سے دور ہوجائیں ۔