قابلِ تشویش صورتحال

پچھلے دنوں ملک کی معیشت کے بارے میں اعداد و شمار شائع کئے گئے جو قطعی غیر متوقع نہیں تھے۔ حالات کے خراب ہونے کا ثبوت عوام کے تاثرات اور ردّعمل ہے۔ ہر شخص مہنگائی اور بدانتظامی کی شکایت کررہا ہے۔

9؍جون کے ڈیلی دی نیوز میں میرے پیارے اور نہایت قابل دوست ڈاکٹر فرخ سلیم نے بہت ہی اچھا مضمون لکھا اور وزیراعظم کو مخاطب کرکے کئی اہم موضوعات (خرابیوں) کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے بھی چند دن پیشتر ان کو مخاطب کرکے کئی خراب معاملات پر توجہ دلائی تھی۔ ایک دوست نے کہا کہ وزیر اعظم کی توجہ بُرے حالات کی جانب کیوں نہیں دلاتے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پرانے دور کی طرح روز صبح دو چار اخبارات کے اسپیشل ایڈیشن شائع کرکے وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کردیئے جاتے ہیں اور خوشامدی ان کی سرخیوں کی جانب توجہ دلا کر وزیر اعظم اور حکومت کی کارکردگی کے بارے تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے ناصرف کمزوریوں اور غلط اَقدام کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ اس کی اصلاح کے لئے بھی اچھے مشورے دیئے ہیں مگر بدقسمتی سے ہر اچھی نصیحت، ہر خرابی کی نشاندہی کو اپوزیشن کا ایجنڈے تصور کیا جاتا ہے۔

1864ءمیں روسی فوجیں آہستہ آہستہ سینٹرل ایشیا کی ریاستوں کو ہضم کرتی جارہی تھیں۔ خفیہ اداروں نے امیر بخارا کو باربار خطرے سے آگاہ کیا مگر خوشامدی مشیروں نے کہا کہ ان کے بہادر جوان روسیوں کو ان کی سرحد تک بھگا کر آئیں گے۔ چند دن میں روسی افواج نے توپوں سے شہر کی فصیلیں اُڑانا شروع کردیں اور بخارا پر قبضہ کرلیا۔ کسی زمانے میں امیر بخارا کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی، دور دور تک کے علاقے اس کی سلطنت کا حصّہ تھے۔ تقریباً اسی قسم کے حالات و واقعات اور مشیروں کے مشوروں نے لاتعداد اسلامی طاقتور حکومتوں کو تباہ کرا دیا۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ موجودہ حالات اس پرانے دور کی ایک اہم کڑی تو نہیں ہیں۔

دیکھئےاب یہ ایک عام تاثر ہے کہ اگر آپ نے آکسفورڈ، کیمبرج، لندن اسکول آف اکنامکس، ہارورڈ، اسٹینفورڈ سے کوئی ڈگری لے لی ہے تو آپ ہرفن مولا ہوگئے یا یہ کہ اگر آپ کو ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف نے بھرتی کرلیا ہےتو آپ فنانشل وزرڈ ہوگئے، یہ نہایت غلط تاثر ہے۔ انسان یونیورسٹی کے نام یا ڈگری سے ماہر نہیں بن جاتا اس کی اپنی قدرتی صلاحیت اس کو ماہر بناتی ہے۔ بیں الاقوامی(مغربی) ادارے غیر ترقی یافتہ ملکوں کے چند تعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کرلیتے ہیں اور ان کے ذریعے غریب ملکوں کی معیشت تباہ کرکے اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اسی طرح ہے کہ انگریز نے ہمارے لوگوں کو بھرتی کیا اور ان سے ہی اپنے لوگوں پر گولیاں، تلواریں، نیزے چلوائے، خون کی ندیاں بہیں اور چند ہزار سے کروڑوں لوگوں پر حکومت کرکے قابض ہوگیا۔ ان کے ہی اشارے پر ہمارے شہری اپنے بھائیوں کو بیدردی سے قتل کرتے چلے گئے۔ دیکھئے ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف، ان سے قرض لینا کابلی پٹھان سے قرض لینے کے برابر ہے۔ آپ اِدھر اُدھر سے اور قرض لے کر ان کا سود اتارتے رہتے ہیں اور اصل رقم قائم رہتی ہے۔ آپ سے جو بات کہنے جارہا ہوں اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ کیا ہمارے مشہور بزنس مین، نااہل اور بدعنوان ہیں؟ ہرگز نہیں! آپ ان کی صلاحیت کا اندازہ کیجئے کہ نہ ان کے پاس ہارورڈ، نہ آکسفورڈ اور نہ ہی کیمبرج کی فنانس کی ڈگری اس کے باوجود آپ ان کی کارکردگی دیکھئے ماشاء اللہ اربوں روپے کی تجارت کرتے ہیں، اس سے منافع اٹھاتے ہیں اور بہت بڑی رقم ٹیکس میں بھی ادا کرتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب آپ کو غلام اسحٰق خان صاحب اور اے جی این قاجی صاحب ایسے لوگ ملیں گے جو بغیر فنانشل ڈگری کے ملک کو اعلیٰ طریقے سے چلاتے رہے اور عوام پر کبھی بے جا بوجھ نہ ڈالا۔ آپ اپنی پوری فنانشل ٹیم کو ایک طرف کردیں اور ایک ٹیم کامیاب بزنس مینوں کی بنائیں، ہمارے ملک کے بعض بزنس مین نہایت کامیاب سمجھدار لوگ ہیں، یہ ملک کی معیشت کو آپ کی پوری ٹیم سے سو گنا بہتر سمجھتے ہیں، انہوں نے کبھی اپنی بزنس میں نقصان نہیں اُٹھایا، انہوں نے اربوں روپیہ سالانہ آپ کو ٹیکس دیئے ہیں جبکہ آپ سے کسی قسم کی مالی یا سیاسی سہولت نہیں مانگی۔ یہ ناصرف رزق حلال کماتے ہیں بلکہ نہایت مخیر شخصیتوں کے مالک ہیں، انہوں نے کبھی حرام کو حلال نہیں کہا، دیندار اور ایماندار لوگ ہیں، آپ سے تنخواہ لے کر آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے۔ ان کو آپ سے تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں۔

مغربی ممالک میں (اور چند مشرقی ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے) ’ماہرین‘ نے کئی کتابیں لکھی ہیں اور ان کا موضوع رہا ہے کہ حکومتیں کیوں ناکام ہوتی ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے لاتعداد وجوہات بیان کی ہیں۔ دو اہم وجوہات میں حکمرانوں کی ناہلی، مردم شناسی کا فقدان، مشورہ کرنے کا فقدان اور نااہل مشیروں کی تعیناتی۔ اگر اچھے مشیر لگا لئے تو ان کے مشوروں پر عمل نہ کرنا۔ حکومت کی ناکامی میں دونوں فیکٹر ہی بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسا کہ حالیہ دور میں ہورہا ہے۔

آپ ذرا غور کیجئے، چودہ سو سال پیچھے جائیے جب نہ ہوائی جہاز، نہ کاریں، نہ ریلوے، نہ فون، غرض مواصلاتی نظام کی کوئی بھی سہولت نا تھی اور حضرت عمرؓ کی حکومت پاکستان سے 8گنا بڑی تھی۔ پورے عرب، ایران، عراق، افغانستان، آذربائیجان، آرمینیا، سینٹرل ایشیاء، سندھ، پنجاب، چینی ترکستان وغیرہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ ذرا شبلی نعمانی کی کتاب الفاروق یا محمد ہیکل کی کتاب عمرؓ بن خطاب کا مطالعہ کریں اور سر دُھنیے کہ اس زمانہ میں جب کوئی سہولت نہ تھی مجال ہے کہ کوئی ایک درہم کی بے ایمانی یا غبن کا مرتکب ہوا ہو، کسی نے کسی کا حق مارا ہو، کسی نے کسی پر ظلم کیا ہو، کسی خاتوں کی عصمت دری کی گئی ہو، کوئی بھوکا، پیاسا سویا ہو۔ ہم آج کل حکمرانوں کی تقریریں سنتے ہیں، ریاست مدینہ کی بات ہوتی ہے۔

خبریں سنتے ہیں کہ معصوم بچیوں اور بچوں کو کس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کس بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے۔ ایسے ظلم کرنے والوں کے کھلے عام ہاتھ کاٹ دینے چاہئے تھے، یہاں حجاج بن یوسف جیسے سخت گیرحاکم کی ضرورت ہے ورنہ یہ ملک بد سے بدتر حالات کا شکار ہوتا جائے گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو(آمین)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے