کبھی کبھی اس کالم میں موسیقی کی بات چل نکلتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم غزل کے بہت دلدادہ ہیں یا یہ کہ ہر وقت طاؤس و رباب کی محفل سجی رہے۔ موسیقی کا ذکر اس سوچ کی بنا پہ چھڑ جاتا ہے کہ شاید موسیقی کا تھوڑا بہت اثر اس بے ہنگم معاشرے پر بھی پڑ جائے۔ موسیقی کا کچھ قاعدہ قانون ہوتا ہے۔ اس میں کچھ ربط ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ آرزو دل میں اُٹھتی ہے کہ معاشرہ اصل موسیقی کی طرف مائل ہو جائے تو شاید اس کا کچھ فائدہ ہو۔
کبھی کبھار ذکر اس بات کا بھی ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سماجی قدغنیں بہت ہیں۔ کئی ایسی قدغنیں بے جا اور غیر ضروری ہیں۔ دل میں خیال اُٹھتا ہے کہ اگر ایسی قدغنوں میں کچھ نرمی آ جائے تو شاید جو ہماری اجتماعی سوچ پہ تالے لگے ہوئے ہیں وہ بھی کھل جائیں۔ رند خانوں میں اور کچھ ہو نہ ہو کچھ آدابِ محفل کار فرما رہتے ہیں۔ اسی لیے سوچ اُٹھتی ہے کہ کسی اور چیز کا اثر تو ہمارے معاشرے پہ ہو نہیں رہا‘ ان آداب کا ہی کچھ اثر ہو جائے۔
یہ بات دل پہ لکھ لیجیے کہ ترتیب یا نظم و ضبط کے بغیر کسی معاشرے میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا… نہ معیشت، نہ کرکٹ اور نہ ہی وسیلۂ آخرت۔ اگر عشق میں جنون ضروری ہے، اگر جنگ میں صحیح نظم و ضبط درکار ہے تو ایسے معاشرے کا کیا بن سکتا ہے‘ جس میں نہ کسی اچھی کوشش کیلئے جنون ہو اور نہ روزمرہ زندگی میں کوئی نظم و ضبط؟
سرِ راہ تھوکنا، گندگی کے ڈھیروں سے بے پروا و بے نیاز رہنا، ٹریفک کا بے ہنگم ہونا، یہ سب چیزیں بیماریاں کم اور علامتیں زیادہ ہیں۔ یہ علامتیں اس امر کی ہیں کہ بیماری معاشرے میں ہے۔ جب تک اصل بیماری کا علاج نہ ہو ایسی علامتیں کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہیں گی۔
یہ بحث سرے سے ہی غلط ہے کہ نظام میں کچھ خرابی ہے۔ یہی نظام انگریز چلاتے تھے تو سب ٹھیک تھا۔ ہر چیز مطلوبہ طرز کے مطابق چلتی تھی۔ قانو ن کی بھی حاکمیت تھی اور قواعد و ضوابط کا بھی رعب اور دبدبہ تھا۔ جب تک آزادی کے بعد انگریزوں کا اثر رہا‘ اُن کے بنائے ہوئے ادارے ٹھیک طرح سے چلتے رہے۔ ورثے میں ملی ہوئی ریلوے بھی بہترین چل رہی تھی اور ہماری بنائی ہوئی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا شمار دنیا کی منتخب ایئر لائنوں میں ہوتا تھا۔ وہ اس لئے کہ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان‘ جنہوں نے اس ایئر لائن کی پرورش کی‘ انگریزوں کی سوچ کے حامل افراد تھے۔
اُن کی ساری ذہنی بناوٹ انگریزوں کی تربیت یافتہ تھی اور وہ انگریزی سکولوں میں ہی پڑھے تھے۔ اس وقت صرف ایک نور خان نہیں تھا بلکہ ہر ادارے میں کئی نور خان تھے۔ جب وہ جنریشن یا نسل جاتی رہی‘ اس کا اثر کم ہوا اور دیسی مارکہ لوگ آگے آنے لگے تو ہر چیز کا بگاڑ بھی شروع ہو گیا۔ نہ ہم سے ریلوے چلی اور جو حشر ہم نے اپنی ایئر لائن کا کیا‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ روس نے ہمیں ایک سٹیل مل لگا کر دی اور ہم سے وہ نہ چل سکی۔ دنیا میں ترقی یافتہ دور کا آغاز سٹیل ملوں سے ہوا۔ ہم اپنا قومی معیار دیکھ لیں کہ اس میں ناکام ہوئے۔
افواج باقی اداروں سے کیوں بہتر حالت میں ہیں؟ اس لئے کہ سطحی نعرے ہمارے جو بھی ہوں‘ افواج اُنہی خطوط پہ چل رہی ہیں جو کہ انگریزوں کی دی ہوئی ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول اور سٹاف کالج کوئٹہ اُنہی لائنوں پہ چل رہے ہیں جو ہمیں ورثے میں ملیں۔ اگر اب بھی وہ ادارے ٹھیک ہیں تو اس لئے کہ افواج یہ اہتمام کرنے میں کامیاب رہیں کہ باہر کی گرد اور زنگ اِن اداروں کو نہ لگیں۔ لیکن قومیں صرف افواج پہ مشتمل نہیں ہوتیں۔ مسئلہ تو ہمارا یہ ہے کہ مجموعی بنیادوں پہ قوم کیسے بہتر ہو۔ اس کی بیماریاں ختم نہیں تو کم کیسے ہوں ۔
1947ء میں جب پاکستان ایک آزاد ملک بنا تو نہ صرف اس کے اداروں بلکہ اس کی سوچ پر بھی انگریزوں کی چھاپ تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری نہیں تو بتدریج ہماری اپنی چھاپ پیدا ہوتی اور انگریزوں کے نظم و ضبط کی جگہ اسی طرح پراثر ایک دیسی قسم کا نظم و ضبط رائج ہوتا‘ لیکن ہم نے انگریزی اثر سے ایسے جان چھڑائی کہ اس کی جگہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہڑبونگ پیدا کر دیا۔ انقلابِ چین کے بعد چینی معاشرے کو نئے خطوط پہ استوار کرنے کی ذمہ داری چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اُٹھائی۔ یورپی معاشرہ ہزار سال کی مسلسل تاریخ کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسی سلسلہ وار تاریخ نہیں رہی۔ ہمارے معاشرے کو استوار کرنے کی ذمہ داری کس کو اٹھانی چاہیے تھی؟
یاد رہے کہ یورپی معاشرہ پہلے بنا تھا اور جمہوریت بہت بعد میں آئی۔ بیشتر یورپ میں تو جمہوریت صرف پچھلی صدی میں نمودار ہوئی۔ اس سے پہلے تو بیشتر یورپ پہ بادشاہتوں کا راج تھا۔ لیکن بادشاہتوں میں بھی قانون کی حاکمیت قائم ہو چکی تھی۔ جمہوریت تو صرف برطانیہ میں تھی اور وقفے وقفے سے فرانس میں۔ لیکن جمہوریت کے نہ ہونے کے باوجود یورپ میں اداروں کی افادیت اور حاکمیت پید ا ہو چکی تھی۔ بادشاہتوں میں ٹرینیں ٹائم پہ چلتی تھیں اور ٹیکس باقاعدگی سے اکٹھے کیے جاتے تھے۔ صنعتی انقلاب پہلے انگلستان میں آیا لیکن جلد ہی یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی آ گیا۔ جرمنی کی صنعتی ترقی تب شروع ہوئی جب وہاں بادشاہت قائم تھی۔
کہنے کا مطلب یہ کہ جمہوریت انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے لیکن ترقی یافتہ دنیا کی ترقی کا راز نہیں۔ جاپان نے تب ترقی شروع کی جب وہاں بادشاہت کا راج تھا اور جمہوریت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد بھی مشرقی ایشیا کے جن ممالک میں ترقی ہوئی… مثلاً جنوبی کوریا، تائیوان، سنگا پور اور ہانگ کانگ… وہاں مروجہ جمہوریتیں قائم نہ تھیں۔ کسی نہ کسی شکل میں مضبوط آدمی کی حاکمیت یا ڈکٹیٹرشپ چل رہی تھی۔ ملائیشیا میں بھی مہاتیر محمد جمہوریت نواز کم اور مضبوط آدمی زیادہ تھے۔ ان ممالک میں جمہوریت آئی تو ترقی کی بنیادیں قائم ہونے کے بعد۔
ہمیں تو جمہوریت 1947ء میں مل گئی تھی لیکن اس کا ہم نے حشر کیا کیا۔ کیا کوئی ذی شعور شخص کہہ سکتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے اپنے آپ کو جمہوریت کے قابل بنایا؟ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی میدان میں ہمارے رویے اب بھی جمہوری کم اور قبائلی زیادہ ہیں۔ کرپشن تو اپنی جگہ رہی، کیا سفارش اور اقربا پروری کی لعنتوں سے اپنی اجتماعی زندگی میں ہم نے نجات پائی؟
بائیس کروڑ کے ملک کا سوال ہے۔ یہ چھوٹا ملک نہیں۔ اگر اور کسی چیز میں نہیں تو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس کی شکل کو کیسے بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کون سا ادارہ ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹھیک لائنوں پہ چل رہا ہے؟ تعلیم کے شعبے سے لے کر صحت تک سب بربادی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یہ حالات کیسے درست ہوں گے؟
جو کامیاب حاکم اس سرزمین پہ آیا، مغلوں سے لے کر انگریزوں تک، وہ اگر کامیاب رہا تو دانش اور زور کے امتزاج سے۔ ہماری قومی اسمبلی ٹھیک نہیں چلتی۔ گندگی کے باوجود کسی شہر کی سبزی منڈی اس سے بہتر لگتی ہے۔ جو معمولی سا کام کر نہیں سکتے‘ اُن کے ہاتھ میں جمہوریت کا استرا دے دیا گیا ہے‘ جس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت کو کوئی گزند پہنچے یا اس کا بسترا گول کیا جائے۔ ہرگز نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ جمہوریت بھی تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے اگر اس کے وجود میں سختی کا راج اور ڈسپلن ہو۔ الیکشنوں کی ابتدا اس سرزمین پہ ہم نے نہیں رکھی۔ الیکشن کا رواج انگریزوں کی دین تھا۔ لیکن جب انگریزوں نے جمہوریت کی بنیاد بھی رکھی تو اُس ہیڈ ماسٹر کی مانند جس کے ایک ہاتھ میں مضبوط ڈنڈا ہو۔
ایسی سختی اور ایسی سوچ کون لائے گا؟ یہی پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔