یہ محض اتفاق تھا کہ حماد حسن نام کے ایک صاحب کے چند اشعار میری نظر سے گزرے، میں حماد غزنوی کو تو جانتا ہوں جو بے پناہ خوبصورت لکھنے والے ہیں، احمد حماد سے بھی واقف ہوں جو بہت عمدہ شاعر ہیں لیکن ان حماد حسن کو نہیں جانتا تھا، پھر ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ پشاور میں رہتے ہیں اور پختون ہیں۔ اس کے بعد ان کی کئی نظمیں اور غزلیں مجھے پڑھنے کو ملیں جو انہوں نے مجھے وٹس ایپ پر ارسال کیں۔ میں ہر بار حیران ہوتا تھا کہ ہمارے شعری حلقوں میں یہ شخص کیوں کبھی موضوع گفتگو نہیں بنا اور یہ کہ اس کی شاعری کسی بھی صورت نظر انداز کرنے والی نہ تھی۔ ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ موصوف کالم نگار بھی ہیں مگر ان کے کالم میری نظر سے نہیں گزرے۔ آپ پشاور سے ایک انگریزی اخبار بھی نکالنے والے ہیں، پتہ نہیں نکال سکیں گے کہ نہیں کہ ان کے رستے میں بہت سی مشکلات آئیں گی۔
بہرحال اس تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ اس عمدہ شاعر کی دریافت کی مجھے بےحد خوشی ہے۔ ان کا اپنا ایک حلقہ ضرور ہوگا مگر میں چاہتا ہوں کہ وہ پوری اردو دنیا میں جانے جائیں۔ میں یہ کام پہلے دن سے کرتا چلا آرہا ہوں، مجھے جہاں کہیں ٹیلنٹ نظر آتا ہے میں اس کے پھیلائو کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں، چنانچہ میں ذیل میں حماد حسن کی غزلیں اور نظمیں درج کررہا ہوں۔ ایک وضاحت اور وہ یہ کہ مجھے اس کلام نے میرے شعری ذوق کے مطابق متاثر کیا ہے چنانچہ ضروری نہیں کہ مختلف شعری ذوق کے حامل بھی اس سے اتنا ہی حظ اٹھائیں جتنا میں نے اٹھایا ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ کوئی قاری اسے نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ ذیل میں حماد حسن کی چند غزلیں اور نظمیں درج کررہاہوں، مجھے امید ہے آپ کو بھی پسند آئیں گی۔
مرے شیریں سخنو
لے کو مدھم نہ کرو
مرے شیریں سخنو
ہر ایک گام سگانِ غنیم کا غوغا
ہر ایک بام پہ آسیب قہر کا پرتو
ہر ایک موڑ شبِ ظلم کے قصیدہ گو
محافظانِ ستم ہائے ناروا ہر رخ
ہر ایک سمت امڈتے سپاہیانِ عدو
حلیفِ تیرہ شبی جہل و جبر کے بازو
ابھی چراغوں کے سر پر ہے امتحاں باقی
ابھی تو وحشت ِصرصر نے کم نہیں ہونا
ابھی تو ختم عذابِ ستم نہیں ہونا
اس ایک صبح غنیمت تلاش کرنے کو
نکل پڑے ہیں رفیقانِ فکر تابندہ
کہاں کہاں نہ لٹا قافلہ محبت کا
کہاں کہاں سے نہ پھوٹا ہے خوابِ آئندہ
یہ لمحہ لمحہ شہادت بنے گی صبحِ ازل
رقم رقم ہے مثالِ دلاوری ہر دم
سو چیرتے رھو شب کا عذاب سناٹا
سو بانٹتے رہو اپنی نوا گری ہر دم
لے کو مدھم نہ کرو
مرے شیریں سخنو
حکم نامہ
سو اب یہ حکم آیا ہے
کہ اس بے فیض موسم
بے اماں صحرا میں رھنا ہے
سلگتی دھوپ اور بنجر پہاڑوں کو
شبستاں کی طرح
جنت کی مانند ہی سمجھنا ہے
کمیں گاہوں میں بیٹھے قاتلوں
کو بھی مسیحا ماننا ہے
اور روشن خواب و تازہ فکر
کو رستہ نہیں دینا
بدلتے وقت کی ہر اک ضرورت
ہر تقاضا بھول جانا ہے
یہ سارے اجرتی قاتل
یہ مخبر اور ان دیکھے
ستمگر فاتحوں کا جب اشارہ ہو
تو کٹھ پتلی کی مانند رقص کرنا ہے
اگر یہ عدل کی میزاں کسی جانب جھکے
تو تم زبانیں بانجھ رکھو گے
فقط اس سمت کو سجدے میں گرنا ہے
فقط اک مرحبا کا لفظ کہنا ہے
کوئی سچ کوئی حق تمہارے حصے کا
کسی دستور جابر میں نہیں
سو چپ ھی رہنا ہے
قصیدے پڑھ تو سکتے ہو
مگر جو نام اور جو منطقے ازبر کئے جائیں
زباں سے لفظ ِواحد بھی
اگر غلطی پھسلا تو
زباں پھر ہاتھ میں ھو گی
ہماری سرکشی بھی گھات میں ہوگی
سو یہ فرمانِ تازہ مل گیا میرے قبیلے کو
مگر یہ شوقِ شاہی رکھنے والوں
اور ان کے ہر مجاور کو خبر کر دو
کہ اس فرمانِ تازہ کو
غلاموں کا قبیلہ
اپنے سنگینوں سے پرزے پرزے کرکے
چل پڑے ہیں ایسے رستے پر
جہاں پر موت و آزادی کا اک یکساں تناسب اور امکاں ہے
گھٹن کے لمحوں میں
کچھ ایسے موسموں میں آنکھ کھولی ہے
کہ وحشت ناک خاموشی کا پہرہ ہے
کوئی گنبد کوئی روزن نہیں ہے جس سے ہوا آئے
سکوت مرگ کی مانند ہر سُو خامشی پھیلی
زبانیں حرف کی جادو گری سے ناشناسا ہیں
لبوں کی سرزمیں پر مسکراہٹ ہی نہیں اُگتی
ہوائے سانس بھی ہے بانجھ خوشبو سے
نظر بھی نابلد رنگوں سے خوابوں سے
عبارت روشنی کی پڑھ نہیں سکتے
مُقابل خوف ہے اور بڑھ نہیں سکتے
[pullquote]غزل[/pullquote]
عدُو کی صف سے مقابل غضب کا نکلا ہے
غضب تو یہ ہے کہ میرے نسب کا نکلا ہے
نہ کوئی خواب زُلیخا نہ کوئی تختِ عزیز
ہمارے مصر کا یوسف تو کب کا نکلا ہے
عجیب لوگ ہیں سب تیرگی پہ مرتے ہیں
عجیب شہر ہے سورج بھی شب کا نکلا ہے
وہ ایک میں کہ فصیلوں کو خاک میں رُوندا
وہ ایک تُو ہے کہ کاسہ طلب کا نکلا ہے
اسے یہ دُھن کہ مرے غم کا ذائقہ بدلے
مجھے یہ دُکھ کہ وہ شہر طرب کا نکلا ہے
تو یُوں ہوا تھا کہ ہم آگئے تھے نرغے میں
تو یُوں ہوا ہے کہ رہبر بھی تب کا نکلا ہے