یہ صرف کرکٹ کا معاملہ نہیں ، پورا سماج زوال مسلسل کا شکار ہے ۔ زوال جب کسی معاشرے کا رخ کرتا ہے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس میں کمال کے چند جزیرے آ باد کر لے۔ سماج کا جو بھی رنگ ہو عمومی ہوتا ہے اس میں جزیرے آباد نہیں کیے جا سکتے ۔
مسلم لیگ کی قیادت کبھی حضرت قائد اعظم کے ہاتھ میں تھی، آج اس مسند پر نواز شریف اور شہباز شریف براجمان ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا رہنما کبھی ذولفقار علی بھٹو ہوتا تھا اب آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے قائد بن چکے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی زمام کار کبھی سید مودودی کے ہاتھ میں ہوتی تھی آج اس مسند پر سراج الحق جلوہ افروز ہیں ۔ سیاسی بیانیہ ایک دور تھا نوابزادہ نصر اللہ ، ولی خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، پروفیسر خورشید ، معراج محمد خان ، مفتی محمود ، سید مودودی جیسی شخصیات ترتیب دیتی تھیں آج یہ ذمہ داری طلال چودھری ، رانا ثناء اللہ ، فواد چودھری اور فیاض چوہان کے سپرد کی جا چکی۔
موسیقی کی دنیا میں ایک وقت تھا استاد نصرت فتح علی خان کی آواز جادو جگایا کرتی تھی ، شہنشاہ غزل استاد مہدی حسن تھے ، ملکہ غزل فریدہ خانم تھیں ، استاد بڑے فتح علی خان ہوا کرتے تھے، استاد امانت علی خان اور حامد علی خان ہوتے تھے، نور جہاں تھیں ۔ اچیاں لمیاں وہ لال کھجوراں جانے کہاں کھو گئیں ، پتر جنہاں دے ساوے ، اب تو دنیائے موسیقی کے زوال کا یہ عالم ہے کہ تیرے اور میرے گھر کے بیچ میں لاری اڈا آ چکا ہے ۔ کچھ بچ رہا ہے تو وہی پرانے وقتوں کے چند نقوش ہیں ، استاد غلام علی ہیں ، عابدہ پروین ہیں یا استاد نصرت فتح علی خان سے فیض پانے والا راحت فتح علی ہے۔ لوک موسیقی میں ایک ہمارا لالہ عیسی خیلوی بچا ہے، رات اس کا پیغام دیکھا ، بیمار ہوں دعا کیجیے۔ جذبہِ بے اختیارِ شوق میں ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے۔
صحافت کا حال آپ کے سامنے ہے۔ خیالِ خاطرِ احباب کے پیش نظر سخن ہائے گفتنی کو نا گفتہ ہی چھوڑ رہا ہوں لیکن صورت احوال کیا ہے آپ یقینا لا علم نہیں ۔ اک زوال مسلسل ہے۔ خبر چربہ، کالم تعصبات کی جگالی، تجزیہ خواہشات کا دیوان ، اسلوب جیسے بیوہ کا بڑھاپا ، تدبر غائب، علم عنقا ، بس ایک مشق مستعجل ہے ۔ میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔ ابوالکلام آزاد سے لے کر چراغ حسن حسرت تک کیسے کیسے لوگ اس شعبے سے وابستہ رہے ہیں ۔ سترہ سال کی عمر میں ابو الاعلیٰ مودودی مدھیہ پردیش کے ’’تاج‘‘کے مدیر بنے اورآخر تک صحافت کو وجۂ افتخار جانا۔ پاسپورٹ پر کبھی علامہ ، مولانا یا مذہبی سکالر نہ لکھا ۔ ہمیشہ خود کو صحافی لکھا۔ اسلوب، متانت اور علم ! ہم نے سب کچھ گنوا ڈالا۔ وے ’گہر‘ تو نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے۔
علم و تحقیق اورشعر و ادب کی دنیا پر نگاہ کیجیے۔ میر یاد آتے ہیں : ’’ بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ‘‘۔ اسلوب ہے نہ ندرت خیال ۔ بس’’ منفرد لہجے ‘‘کے شعراء کے لشکر دھرتی پر اتر چکے ہیں ۔ فکر کا منصب عرصے سے خالی ہے ۔ علم و تحقیق کے سوتے خشک ہو چکے۔ دنیا میں جامعات علم و آگہی کا مرکز ہوتی ہیں ۔ روز ہم پڑھتے ہیں فلاں یونیورسٹی نے فلاں معاملے پر ریسرچ کی اور اس کے نتائج فکر یہ ہیں ۔ برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طلباء دنیا بھر کے تزویراتی ، معاشی اور سماجی امور پر مقالے لکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں کبھی ایسی کوئی تحقیق نہیں ہو سکی جو ہمیں بتائے کہ ہمارے معاشی چیلنجز کیا ہیں، جو ہمیں خبر دے کہ اگلی دہائی کے تزویراتی چیلنجز کیا ہوں گے، اور خطے کی نئی صف بندی میں ہمارے لیے امکانات اورخدشات کیا کیا ہیں ۔ خانہ پری کے لیے یہاں سینکڑوں تھیسز لکھے جاتے ہیں لیکن جن حالات سے ہم دوچار ہیں ان پر کسی نے تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ وہی روایتی ’ کاپی پیسٹ‘ کی لعنت ہے جسے یہاں تحقیق کہا جاتا ہے۔
کرکٹ کی بات کیجیے ، کہاں وہ زمانے کہ عمران، میانداد ، وسیم ، وقار، انضمام جیسے کھلاڑیوں کی ایک مالا پرو دی گئی تھی اور کہاں یہ وقت کہ شعیب ملک سے حفیظ تک کتنے ہی کھلاڑی ہیں جونا معلوم وجوہات کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ ہیں ۔ گروہی سیاست اور کرپشن کا آزارہے یا عمومی نا اہلی معلوم نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ٹیم میں میرٹ کے علاوہ سب کچھ ہے۔ قریب قریب ہر شعبہ زندگی کا یہی حال ہے۔ فرق اتنا ہے میرٹ کی یہ پامالی کرکٹ میں ہو تو نظر آ جاتی ہے اور کسی وزیر کی بہن کو نیکٹا میں لا بٹھایا جائے تو ہم ایک عرصہ یہی سمجھتے رہتے ہیں محترمہ اس شعبے کی کوئی بہت بڑی ماہر ہوں گی ۔ بہت سی وارداتوں کی تو عوام الناس کو خبر ہی نہیں ہوتی ۔ عثمان بزدار جیسے لوگ یہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی بنا دیے جاتے ہیں او ر پھر اس پر اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ سیاست کے وسیم اکرم ہیں۔
قائد اعظم زیارت میں تھے، بیماری کا غلبہ تھا ، کھانا کم کر دیا، ذاتی معالج نے ان کے باورچی کو کراچی سے بلا لیا ۔ قائد نے اس شام کھانا شوق سے کھایا ۔ پوچھا کس نے بنایا ۔ بتایا گیا آپ کے باورچی کو بلوایا ہے۔ قائد نے اسی وقت چیک کاٹ کر تمام خرچ خود ادا کر دیا ۔ آج یہ عالم ہے شہنشاہ ذی وقار نواز شریف مری میں ہوتے ہیں تو کھانا اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر میں جاتا ہے۔ بیرون ملک علاج قومی خزانے سے کروایا جاتا ہے۔ قائد کی نرس نے کہا میں یہاں آپ کے ساتھ زیارت میں ہوں میرا شوہر سرکاری ملازم کراچی میں ہے اس کا تبادلہ یہاں کروا دیں ۔ قائد نے کہا بات تو درست ہے لیکن میں سفارش نہیں کر سکتا ۔ اس سے سفارش کلچر فروغ پائے گا ۔ آج یہ عالم ہے کہ وزیر اپنی بہنوں کی نہ صرف سفارش کر رہے ہیںبلکہ اس پر نادم ہونے کی بجائے ڈٹ بھی جاتے ہیں ۔ سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایوان صدر کے طوطوں کے پنجروں کے انیس لاکھ کے ٹینڈر پر اٹھنے والا شور ابھی تھما نہیں اور یاروں نے ایوان صدر کے مٹکوں کے لیے 17 لاکھ کا ٹینڈر جاری فرما دیا ۔
یہ صرف کرکٹ کا معاملہ نہیں ،پورا سماج زوال مسلسل کا شکار ہے۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو سماج کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس میں کمال کے چند جزیرے آ باد کر لے۔