مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو منگل کے روز علی الصبح دارالحکومت قاہرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔مصر کے سرکاری ٹی وی کےمطابق محمد مرسی پیر کے روز اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے جبکہ سیکورٹی خدشات کی بنا پر مصری حکام نےمرسی خاندان کی جانب سے ان کی آبائی گاؤں میں تدفین کی درخواست مسترد کر دی۔
مصری پراسیکیوٹر جنرل نبیل صادق کے مطابق محمد مرسی عدالتی کارروائی کے دوران ساؤنڈ پروف پنجرے کے اندر موجود تھےکہ اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے انتقال کی تصدیق کردی گئی۔مصری پراسیکیوٹر جنرل نے استغاثہ کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو میت کے معائنے، عدالت کے ہال میں نصب کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ کرنے اور جائے وقوع پر موجود عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔اگر ہم محمد مرسی کی اقتدار سے جیل اور وفات کا جائزہ لیں تو صورتحال کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اور کیوں ہوا۔۔!!
مرسی مصر کے پہلے جمہوری اور منتخب صدر تھے،جب انکی حکومت پر قبضہ کیا گیا تو ایک پورا منظر نامہ ترتیب دیا گیا اور عوامی احتجاجوں اور انکی حکومت کے فیصلوں سے ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کی گئی۔محمد مرسی نے حالات کی خرابی کے بعد اور اپنی منتخب حکومت کی پہلی سالگرہ کی شام مصری قوم سے جو خطاب کیا اس میں ان کا لہجہ مصالحت والا تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطیاں ہوئیں اور اب ان غلطیوں کو درست کرنے کا وقت آ گیا ہے۔محمد مرسی کے خلاف مظاہروں میں شدت آنے کے بعد فوج نے یکم جولائی کو انھیں متنبہ کیا کہ اگر انھوں نے 48 گھنٹوں کے اندر اندر عوام کے مطالبات نہ مانے تو وہ مداخلت کر کے اپنا ’روڈ میپ‘ نافذ کریں گے۔
فوج کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن کے قریب آتے آتے مرسی نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ مصر کے جائز رہنما ہیں اور اگر انھیں زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔مصر کی فوج نے تین جولائی کی شام کو آئین کو معطل کر دیا اور صدارتی انتخابات سے پہلے ایک ٹیکنوکریٹک عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔محمد مرسی نے اس اعلان کو ’بغاوت‘ قرار دیا۔انھیں تین جولائی کو ان کے اقتدار کے پہلے برس کی تکمیل پر ملک میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد فوج نے اقتدار سے الگ کر دیا اور انھیں ایک خفیہ مقام پر زیرِ حراست رکھا گیا۔
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ یہ حالات پیدا کیونکر ہوئے محمد مرسی کے خلاف ہنگامہ آرائی میں شدت پیدا کرنے میں مخالفین اس لئے کامیاب رہے کہ اخوان المسلمین کو جس سے وہ وابستہ رہے ایک بنیاد پرست گروپ کے طورپر مشہور کردیا گیا تھا اور عام لوگوں میں یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اگر مرسی اقتدار میں برقرار رہتے ہیں تو ملک میں بنیاد پرستوں کا غلبہ ہوجائے گا اور عام آدمی کی شخصی آزادی ختم ہوجائے گی۔لہٰذا جو لبرل اور آزاد خیال عوام تھے ان مظاہروں میں آگے آگے تھے۔البتہ اعتدال پسند لوگ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ الاخوان کٹر بنیاد پرست نہیں بلکہ اعتدال پسند گروپ ہےاورانہوں نے دونوں پہلووں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے حکومت کا نظام قائم کیا۔
یہی نہیں، خارجہ پالیسی میں بھی کئی ایسے قدم اٹھائے جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ انہوں نے مصر کو بہت آگے لے جانے کا عزم کر رکھاہے۔مرسی نے مختلف ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کے اقدامات کئیے ماسوائے اسرائیل کے جس سے حسنی مبارک کے دور میں بہتر سفارتی تعلقات قائم تھے، اور مصر کو اسرائیل کا دوست ملک شمار کیا جاتا تھا،تاہم محمد مرسی نے فلسطین کے عوام کی حمایت میں کھڑے ہوکر اسرائیل کی دوستی سے پیچھے ہٹنے کے واضح اقدامات اٹھائے۔انہوں نےاتحاد امت اور سلطنت عثمانیہ کی طرز پر امہ کے بلاک کی بات بھی کی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس پر کئی عملی اقدامات بھی اٹھائے۔
اس کا واضح ثبوت ایران وترکی سے لے کردیگر خلیجی ملکوں کے ساتھ ان کا متوازن رویہ اور تعلقات میں بہتری کے اقدام شامل ہیں۔مصر اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات پچاس کی دہائی کے اوائل میں قائم ہوئےاور زیادہ عرصہ یہ تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہی رہے۔لگ بھگ تین چار دہائیوں بعد محمد مرسی وہ پہلے مصری حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔2013 میں محمد مرسی جب پاکستان آئے تو نسٹ یونیورسٹی میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دئیے جانے کی تقریب میں نے کور کی۔دورہ پاکستان کے دوران اعلی سطح ملاقاتوں میں صدر محمد مرسی نے کہا تھاکہ مسئلہ فلسطین اور شام کی خونریزی کو سنجیدہ کوششوں کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور مصر دو اہم اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں اور مشکلات کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانا ہے۔
نییشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اپنے خطاب میں بھی انہوں نے مسلم امہ کے اتحاد پر ہی زور دیااور کہا کہ آنے والی نسلوں کو جدید سائنسی علوم سے آراستہ کرنا ہماری ذمے داری ہے۔میں نے انکا خطاب براہ راست سنا اس کے بعد ان سے مصافحہ بھی ہوا مرسی کے بعض ناقدین انہیں حادثاتی لیڈر کہتے ہیں یقین جانیں مجھے انکی گفتگو میں مسلمانوں کی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان سمیت تمام شعبوں میں ترقی کیلئے سچائی اور امہ کی سچی لگن نظر آئی۔ ان کی قیدو بند کی صعوبتیں اور جن حالات میں انکی وفات ہوئی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اگراپنے پیش رو حسنی مبارک کی طرح اسرائیل اور اس کے حواریوں سے راہ و رسم رکھتے اور امہ امہ نہ کہتے تو ہوسکتا ہے کہ انکے اقتدار کو بھی طوالت مل جاتی مگر وہ تو ایک سچا انسان تھا مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سوچنے والا مسلم راہنما۔
میں چونکہ ابلاغ عامہ کا طالبعلم ہوں میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اسلام دشمن قوتیں ابلاغ اوردیگرذرائع سےوہ طور طریقے اپناتیں ہیں کہ رائے دینے والا سمجھتا ہے کہ وہ اس کی رائے ہے حالانکہ اس رائے کے پیچھے بھی کوئی اور کار فرما ہوتا ہے۔اور اسلامی دنیا کے لیڈروں کے ساتھ تو یہ واقعات ایک تسلسل سے ہورہے ہیں۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مصرکے ایک پی ایچ ڈی سکالر حکمران کے نصف صدی بعد دورہ پاکستان کے چند ہفتوں کےاندر مغربی میڈیا میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ مصری صدر محمد مرسی کی دورہ پاکستان کے دوران القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے45 منٹ تک ملاقات ہوئی جس میں مرسی نے الظواہری کو اسلام آبادسے کسی عرب ملک، قطر، صحرائے سینا یا پھر مغربی صحرائی علاقوں میں بحفاظت منتقل کرنے کی پیشکش کی تھی۔
اس وقت کے مصری صدارتی محل کے ترجمان عامر عمر نےایسی خبروں کی سختی سےتردید کی انہوں نے کہا کہ ان رپورٹوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ صدر مرسی نے پاکستان کا اعلانیہ دورہ کیا تھا جس کی آزاد میڈیا نے کوریج کی تھی۔ یہودیوں کے زیر اثر مغربی میڈیا کی اس جھوٹی خبر سے دوہرے مقاصد حاصل کئے گئے ایک محمد مرسی کا دہشگردی سے رابطہ جوڑا گیا دوسرا پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔میری رائے میں اگر ان حقائق پر غور کریں تو سمجھ آتی ہے کہ محمد مرسی مرحوم کا اصل جرم کیا تھا۔۔!