بلال خان مذہبی پس منظر رکھنے والا نوجوان تھا ، وہ بے دھڑک اپنی بات کرتا تھا ، اس میں شدت تھی لیکن منافقت نہیں تھی ، تحریر میں سخت نظر آنے والا بلال عملی زندگی میں جی دار شخص تھا ، ہم نے اسے انفرینڈ کیا اور اسے کہا ذاتی تعلق برقرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہے ، آپ کی بعض چیزیں دکھ کا سبب بنتی ہے میں وہ پڑھنا نہیں چاہتا .
اسکے باوجود اس سے اچھا تعلق رہا ، اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دھیرے دھیرے چلیں لیکن اسے جلدی تھی ، وہ زیادہ کام تھوڑے وقت میں کرنا چاہتا تھا ، اسکے قتل کی خبر بجلی بن کر گری ، رات کروٹیں بدلتے گزری ، لوگوں نے بلال سے محبت کا خوب اظہار کیا ، لوگ جب بلال سے محبت کا اظہار کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کیا ان لوگوں نے بلال سے زندگی میں بھی اس طرح محبت کی ہے ؟ ہم مردہ پرست لوگ ہیں ، ہم اپنے زندوں کو بچا نہیں سکتے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو انہیں پوجنے لگ جاتے ہیں ، منزل تک پہنچنے کے لئے زندہ رہنا ضروری ہے .
اس سوسائٹی پر مدتوں سے یہ محنت کی گئی کہ موت خوبصورت ہوتی ہے ، زندگی کیا ہے ؟ ٹھیک ہے کہ ایک دن موت ہے لیکن انسان کو جینا چاہیے ، کام زندہ لوگ کرتے ہیں ، مر گئے تو کہانی ختم ہو گئی .
ہماری پوری ایک نسل موت کی نذر ہو گئی ، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمیں اپنے ذہین لوگوں کو جینا سکھانا ہے اور ان سے کام لینا ہے ؟ بلال میرا حامی تھا یا مخالف ؟ لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ایک تحریک کا نام تھا ، ذہین تھا ، جس جس موضوع کو چھیڑا اس میں کمال حاصل کرتا گیا ، اس نے سب کچھ سیکھا صرف جینا نہیں سیکھا ، وہ جینا سیکھ لیتا تو آج بلال ہم میں موجود ہوتا .
مکرر افسوس کہ ہمارے لیڈروں نے ہمیں مرنا سکھایا ہے جینا نہیں ، کاش یہ جینا سکھاتے ، وہ سوسائٹی کبھی امن کی راہ نہیں چل سکتی جس سوسائٹی میں زندگی سے محبت نہ سکھائی جائے ، نوجوان بھائیو ! جینا اور کام کرنا سیکھیں ، قبرستانوں میں خاموشی ہوتی ہے اور تالی بجانے والے چار دنوں بعد کسی اور کے لیے تالی بجا رہے ہوتے ہیں ، کام والے لوگوں کو تالیوں کے چکر سے باہر آنا ہو گا ، نہیں تو بلال قتل ہوتے رہینگے ، ہم چار دنوں بعد کسی نئے شہید کے لیے ترانے لکھ رہے ہونگے ، اپنے زندوں کو بچانے کی تدبیر کریں ، میتوں پر رونے والی کئی آنکھیں مل جاتی ہے رونا کوئی کمال نہیں ، رونے سے آگے بڑھیں ، بلال کی زندگی سے سبق سیکھیں ، بلال کچھ تھا اسی لیے کچھ نئے پہلو سامنے آئے
بلال کی شہادت سے دو نئے پہلو سامنے آئے ،
ایک بلال کا مذہبی پس منظر معلوم ہونے کے باوجود جبران ناصر ، ماروی سرمد ، گل بخاری و دیگر لوگوں کا مثبت رد عمل دیا ، ماروی سرمد نے بلال کو بیٹا قرار دیا ، یہ خوشگوار پہلو ہے ، اہل مذہب کے دماغ میں ہمیشہ ان لوگوں کے بارے میں نفرت بٹھائی گئی ،ہمیں بتایا گیا کہ یہ لوگ اہل مذہب کے دشمن ہیں ، اس پروپیگنڈے نے نفرت کی بنیاد قائم رکھی ، تقسیم گہری کی گئی ، کسی نے اس تقسیم کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی ، میری داڑھی میری پگڑی تضحیک کا نشانہ بنی ، مقامی لبرل اپنی نفرت چھپا نہیں پاتے ، انہیں خدا واسطے کا بیر ہے ، ہم ایسے کئی مذہبی نوجوانوں نے اس تقسیم کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن مایوسی ہوتی رہی ،اب بھی مایوسی ہے ،مایوسی کے عالم میں ماروی سرمد ، گل بخاری ، جبران ناصر و دیگر حضرات نے اس تقسیم کو توڑا ، اللہ کرے یہ کوشش عارضی نہ ہو ، یہ سلسلہ چلنا چاہئے ، نفرت پیدا کرنے والوں کی مہم کا راستہ ایسے ہی روکا جا سکتا ہے ، اہل مذہب سیدھے اور معاملہ فہم ہوتے ہیں ، ان سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ، دونوں کو اس بات پر اتفاق کر لینا چاہیے کہ ظالم اور مظلوم کہیں بھی ہو سکتے ہیں ، ہمیں ظالم مظلوم کی تقسیم پر ایک ساتھ ہونا چاہیے ، امید ہے ایسا ہو گا ، یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے جسے خوشگوار کہا جا سکتا ہے ،
ایک پہلو اور ہے جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھا ،
بلال کے قتل کو بی بی سی ، وائس آف امریکہ نیو یارک ٹائمز نے کوریج دی ، بلال کے قتل سے پہلے یہ مثال خال خال ملتی تھی ، اہل مذہب نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہم مارے گئے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا ، ہماری داڑھی پگڑی شدت کی علامت بتائی جائے گی اور کوئی لب نہیں ہلائے گا ، مغربی دنیا ہمیں دہشت گرد ہی کہے گی ، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا ، اس بار بلال کو کوریج ملی ،اس آواز سے مزید کئی لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنائیں گے ، وہ اس خوف سے نکلیں گے کہ ہماری بقا اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بنا کر ہی رکھنے میں ہے ، یہ پہلی بار ہو گی کہ انہیں قلم کی طاقت کا اندازہ ہو گا ، اس کوریج سے مذہبی نوجوانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھلا ہے جس کا اندازہ کم لوگوں کو ہے .
بلال خان کے قتل نے ہمارے معاشرے کی شدت پسندی کو ایک بار پھر ننگا کیا ہے .
مجھے بلال کے لہجے سے ہمیشہ اختلاف رہا ، لیکن میرا ماننا تھا کہ وہ سیکھ جائے گا اکیس سال کی عمر کوئی عمر نہیں ہوتی ، افسوس کہ اسکے حریف بہت چھوٹے نکلے ، انہوں نے بلال کے خلاف بغض نکالا ، اسکے قتل کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ، اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے ، مرنے بعد اس سے مقابلے کی کوشش کی ، ایک بچے سے مقابلہ کرتے ہوئے انسان کو شرم آتی ہے ، اگر وہ بچہ مار دیا جائے اور پھر اس کا مقابلہ کیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے .
اس سوسائٹی کو آگے بڑھنا چاہیے ، خوشگوار تبدیلی کو خوشگوار رکھنے کے لیے نئے قدم اٹھانے ہونگے ، جو غلطیاں ہوئی ہیں انہیں چھوڑنا ہو گا ، نفرت سے سوسائٹیاں تباہ ہوتی ہیں ، قلم کے مقابل قلم ، زبان کے مقابل زبان ہونی چاہئے ، قلم کے مقابل گولی لانا قلم کو بلند اور گولی کو شرمندہ کرے گی .
مجھے نہیں معلوم بلال کے قاتل پکڑے جائینگے یا نہیں لیکن ہمیں لاشوں سے سیکھنا چاہیے ، ماں لاشوں کی ٹوٹی انگلیاں اور چھلنی سینے دیکھتی رہ جاتی ہیں ، ان ماوں کا خیال کریں _