زندگی کیا ہے، جہالت کا جمعہ بازار ہے جس کی ہر دکان، ریڑھی، چھابڑی، ٹھیلے پر ’’دانش کدہ‘‘ کا بورڈ لگا ہے۔جمہوریت، جمہوری اقدار، جمہوری نمائندہ، جمہوریت کا حسن، جمہوریت کا استحکام، جمہوریت کا تسلسل جیسی اصطلاحیں، ترکیبیں، الفاظ سنتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ فکری منڈی میں کس جنس کو کس کس نام سے پکارا جاتا ہے۔ گرمئی بازار اور وحشتِ خریدار میں اس وقت خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے جب بلاول اور مریم کے لئے ’’قیادت‘‘ ، ’’قائدین‘‘ اور ’’لیڈرز‘‘ جیسے لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ واہ …….
ہماری قسمت میں بھی کیا کیا کچھ لکھا ہے۔ چرواہا ادھر ادھر ہوجائے اور اس طرح بھیڑ بکریوں کا ریوڑ تو اس کی اولاد کو منتقل ہونا درست ہے کہ بےزبان جانوروں کو جدھر چاہے ہانک دو لیکن غیوروں اور باشعوروں کے ’’ریوڑ‘‘ اس طرح ہانکے جانا کچھ عجیب سا لگتا ہے، پر جہالت کے جمعہ بازاروں میں سب چلتا ہے۔ جعلی نوٹ سے لے کر نقلی سکے تک سب چلتا ہے۔پوچھا ان دو عدد’ ’ نقد قومی قیادتوں‘‘ میں ایک اگر بھٹو کا نواسا اور بینظیر بھٹو کا بیٹا جبکہ دوسری اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتی تو یہ دونوں خالصتاً اپنے برتے پر زیادہ سے زیادہ کیا ہوتے؟
سو ل سروس تو کیا شاید پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی کوالیفائی نہ کرپاتے لیکن پورے پاکستان کے درپے ہیں کہ واقعی جمہوریت نسل در نسل بہترین انتقام ہے۔ایسی بات سن کر دولے شاہ کے فکری چوہے ننگے پائوں دوڑتے اور دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہندوستان، سری لنکا، بنگلہ دیش وغیرہ میں بھی تو یہی پریکٹس ہے۔ بندہ پوچھے بھائی!اسی لئے وہاں بھی تو پھٹکار در پھٹکار ہی برس رہی ہے لیکن جہالت کے جمعہ بازار میں سب جائز ہے۔ ہر مال ملے گا دو آنہ۔ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق کے عہد پاکیزہ اور دور روحانی میں بھی آج کی طرح ہم جیسوں کی حیرانی عروج پر تھی کہ ضیاء الحق بطور صدر مملکت اپنے وزیر اعظم جونیجو کا باس تھا اور یہی ضیاء الحق بطور آرمی چیف اپنے اسی وزیر اعظم جونیجو کا ماتحت بھی تھا۔ اس صورتحال پر کنفیوژ ہو کر میں نے لکھا تھا……….شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافیالٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گابلاول کی امی مرحومہ کو یہ شعر بہت پسند تھا۔
اسی لئے گیارہ جون1987اپوزیشن پارلیمانی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بینظیر بھٹو نے کہا تھا”ONLY HASSAN NISAR TRULY UNDERSTANDS ZIA SYSTEM AND ITS UNBELIVEABLE PARADOXES WHEN HE SAYS,شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافیالٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا‘‘میرا مسئلہ بلکہ المیہ دیکھئے کہ معاملات کو سیدھا دیکھنے کے جنون میں یہ خاکسار آج تک جہالت کے اس جمعہ بازار میں الٹا لٹک رہا ہے۔ اللہ جانے یہ ’’جونیجو جمہوریت‘‘ کب سیدھی ہوگی تاکہ میں بھی سیدھا ہوسکوں۔ چہرہ اس منحوس جنم جلی جمہوریت کا بدل بھی جائے لیکن اندر سے یہ ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے، جسے یقین نہ آئے یہ ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ والی واردات دیکھ لے کہ ’’وارداتیوں‘‘ نے یعنی جمہوری وارداتیوں نے اسے اپنی سہولت کے لئے ایجاد کر رکھا ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، جہالت کے جمعہ بازار میں جائز ہے۔
فکری کلرکوں کو اس سادہ سی بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ کوئی قانون، اصول، قاعدہ، ضابطہ اچھا برا نہیں ہوتا۔ قومیں، قبیلے، کمیونٹیز ارتقا کی مختلف منازل و مراحل سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ ابتدائی مراحل، درمیانی مراحل اور انتہائی مراحل کے پیکیج مختلف ہوتے ہیں جو کچھ آج اہل مغرب کو سوٹ کرتا ہے، ہرگز ضروری نہیں کہ ہمیں بھی راس آئے جیسے پری انڈسٹریل، انڈسٹریل اور پوسٹ انڈسٹریل ماحول کے تقاضے، ترجیحات ذرا مختلف ہوتی ہیں لیکن پھر وہی بات کہ جہالت اور اس ٹائپ کی جمہوریت کے جمعہ بازاروں میں سب چلتا ہے۔
کسی خاص جرم کے لئے کہیں بہت سخت، کہیں صرف سخت، کہیں نرم، کہیں بہت نرم سزا اور کہیں جرمانہ ہی کافی ہوتا ہے۔ بوتھے اور تھوبڑے اٹھا کر اندھا دھند معاشروں اور سزائوں کو مکس کردینا نامناسب ہی نہیں، خطرناک بھی ہوسکتا ہے لیکن جہالت و جمہوریت کے جمعہ بازار میں سب چلتا ہے۔ سو فیصد درست کہتے ہیں ہمارے چیف جسٹس کہ جعلی اکائونٹس کے ذریعہ ٹرانزیکشنز بہت بڑا جرم ہے جس کے مجرم کو تین سال قید کی سزا بہت کم ہے لیکن کیا کریں……..جہالت کے جمعہ بازار میں جعلی کلیم، جعلی ذاتیں، جعلی جمہوریت، جعلی اکائونٹ، جعلی ڈگری……..سب چلتا ہے اور جہاں یہ سب چلتا ہو وہاں دانش اصلی کیسے ہوسکتی ہے؟ کیسے چل سکتی ہے۔