مجھے فحاشی سے گھن آتی ہے

دیکھیے، چشم فلک نے یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ درویش جیسا فاسق فرتوت اور فاجر کہنہ سال فحاشی کے خلاف قلم اٹھائے۔ ثم العجب کہ ایسی بستی میں جہاں بزعم خود فحاشی سے نبرد آزما اہل حق کا ایک لشکر جرار بفضل تعالیٰ ہمارے درمیان نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ اس کے نعرہ ہائے خارا شگاف سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

خدائی فوجداروں کا یہ جم غفیر قمیص کی آستین ایک انچ سرک جانے پر، دامن کے آدھ انچ اٹھ جانے پر اور تیز ہوا سے آنچل کی سازش پر قیامت برپا کر دیتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ درویش اپنی جملہ کمزوریوں، کوتاہیوں اور کردار کی کج روی کے علیٰ الرغم زاہدان ریا کار کے انبوہ میں شمار کئے جانے کا روادار نہیں۔ سو ضروری ہے کہ فحاشی کے اس تصور کی کچھ صراحت ہو جائے جو اس ننگ اسلاف کو دکھ دیتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ اس نگر کے پیران تسمہ پا فحاشی اور عریانی میں فرق نہیں کرتے۔ عریانی جسم پر چار گرہ کپڑے کی تہمت ہونے یا نہ ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔

عریانی کی حقیقت تو شیخ ظہور الدین حاتم نے بیان کر دی، جامہ عریانی کا قامت پر مری آیا ہے راست… اور پھر غالب چلے آئے، قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا… غالب سے پہلے مصحفی گزرے تھے۔ آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح / آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں۔ کسی ماہر بشریات سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ عریانی کسی خاص حصہ بدن سے تعلق نہیں رکھتی، ارتقائے انسانی کے اجتماعی لاشعور کی باقیات کا معاملہ ہے۔

نامعلوم زمانوں سے فنون عالیہ کے نمونے غیر تربیت یافتہ آنکھ کے لئے فحش جبکہ مرتب ذہن کے لئے ’حسن بے پروا کی بے حجابی‘ کا مضمون رہے ہیں۔

عریانی سے منسلک تصور ننگ کا پایا جاتا ہے۔ ننگ وہ داخلی محجوبی ہے جو زورآوری کے بل پر بے لباس کئے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ گاؤں کی راجباہ میں ننگ دھڑنگ نہاتا بچہ محض پانی کے لمس سے لطف کشید کر رہا ہے۔ اسی گاؤں کے حوالات میں پولیس اہلکار کے حکم پر لباس سے محروم کیا جانے والا مظلوم شہری ننگ کے احساس سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ فحاشی نہ تو عریانی ہے اور نہ ہی ننگ۔ فحاشی وہ اجتماعی توہین ہے جس سے گزرتے ہوئے قوم بے بسی، دست نگری، غلامی، احتیاج، مجبوری اور ناانصافی کے احساس سے دوچار ہوتی ہے۔ درویش نے اس دیس میں آدھی صدی سے کچھ اوپر برس گزار لئے، زندگی کے پانیوں میں اپنی ناؤ ڈالی تھی تو امید تھی کہ ہلکورے لیتی موجوں سے کھیلتے دریا کے پار اس رمنا تک جا پہنچیں گے جس کی چھاؤں نسلوں سے مانجھیوں کو اشارہ کرتی آئی ہے۔

اب دھوپ ڈھل رہی ہے اور شوریدہ سر منجدھاروں کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آنے والوں کو اپنے عہد کی فحش صورت حال کے کچھ زاویے گنوا دیے جائیں۔ مقصد خود ترسی نہیں، آنے والوں کو چنوتی دینا ہے کہ جہاں ہم ناکام رہے، شاید وہ دریا کے پاٹ سے بہتر زور آزمائی کر سکیں۔ کسی قوم کے لئے اس سے بڑی فحاشی کیا ہو سکتی ہے کہ غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی حاصل کر لے لیکن اس کا حق حکمرانی نادیدہ مشتری کے ہاتھوں رہن رکھ دیا جائے۔ قدیم دانش کے مطابق، غیروں سے نبرد آزما ہونے سے اپنوں سے معاملت کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہ دانش ہمارے تجربے پر پوری نہیں اتری۔ غیروں سے جنگ دوبدو ہوتی ہے، اپنوں سے چومکھی لڑنا پڑتی ہے۔

درویش نے استاد محترم سے پوچھا کہ ہم نے فرنگی سے آزادی کیوں مانگی؟ کہنے لگے کہ جب ہم آپس میں لڑتے تھے تو فرنگی انصاف کرتا تھا لیکن جہاں بدیسی حکمرا ن کے مفاد سے ٹکراؤ ہوتا تھا تو ہمیں انصاف نہیں ملتا تھا۔ گویا انصاف میں درجہ بندی پائی جاتی تھی، ایک قابل رسائی اور دوسرا احاطہ خیال سے باہر۔

اس درجہ بندی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں آزادی کی لڑائی لڑنا پڑی۔ عرض کی کہ استاد محترم، آزادی کے بعد بھی تو یہی صورت رہی۔ ایک دوسرے پر نالش میں انصاف کی امید رہتی تھی جہاں اقتدار اعلیٰ سے پنجہ آزمائی ہوئی، ہمیں مولوی تمیز الدین کیس، ڈوسو کیس، نصرت بھٹو کیس، حاجی سیف اللہ کیس اور ظفر علی شاہ کیس سے واسطہ پڑا۔ استاد نے کہا اسے آزادی نہیں، انصاف کی فحاشی کہا جائے گا۔ فحاشی کی دوسری صورت یہ ہوئی کہ آزادی عوام کے حق حکمرانی کے لئے حاصل کی گئی لیکن یہ حق سیاست دربان کی نذر ہو گیا۔ مٹھی بھر راندہ درگاہ صاحبان عزیمت کو چھوڑ کر ہماری تیغ اپنے ہی لہو میں نیام ہوتی رہی۔ استاد نے فرمایا، یہ حکمرانی کی فحاشی تھی۔

سوال کیا کہ آزاد ملک میں شہریوں کے مفاد کی حفاظت پارلیمنٹ کرتی ہے اور پارلیمنٹ دستور کے تابع ہے۔ یہاں دستور منسوخ یا معطل کئے گئے اور پارلیمنٹ مٹی کے پیالے کی طرح پاش پاش کی گئی۔ استاد نے سرد آہ بھر کر کہا تمہیں صرف تین دساتیر کی بے حرمتی یاد ہے۔ اکتوبر 1954 اور دسمبر 1971 میں دو ایسے دستور بھی پامال ہوئے جو دن کی روشنی بھی نہ دیکھ سکے۔ یہ دستوری فحاشی تھی۔ کچھ تامل کے بعد سوال کیا، یا استاد، شہری اپنی جان و مال اور اپنے احترام کا تحفظ ریاست کو سونپتا ہے، ہمارے ساتھ اس تسلسل سے جھوٹ بولا گیا کہ ریاست اور شہری دو فریق بن کر رہ گئے۔ استاد نے مختصر جواب دیا، یہ عمرانی معاہدے کی فحاشی تھی۔

اگلا سوال ان سوختہ جانوں کے نام تھا جنہیں بار بار جانے اور انجانے مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا، کبھی بابڑا فائرنگ، کبھی لالو کھیت، کبھی کالی مندر، کبھی لیاقت باغ کبھی پکا قلعہ، کبھی سہراب گوٹھ، کبھی پاراچنار، کبھی کچلاک، کبھی ڈیرہ بگٹی، کبھی ہشت نگر، کبھی کچھی پھاٹک، کبھی رتو ڈیرو… استاد نے بات مکمل نہیں ہونے دی، رک جا بالک، رات کم ہے، لاشے بہت زیادہ ہیں، یہ بندوق کی فحاشی تھی۔ سوال کیا کہ ہمارا روز گار، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے اور علاج معالجے پر حق تھا، وہ کیا ہوا؟ فرمایا یہ استحصال کی فحاشی تھی۔ طالب علم کے کندھے جھک گئے، نیچی نظروں سے پوچھا، ہمارا علم پر حق تھا، علم سے بے بہرہ رہ کر دنیا سے کیسے آنکھ ملاتے؟ استاد نے بغیر رکے کہا ، یہ جہالت کی فحاشی تھی۔ استاد بے چین ہو چلا تھا لیکن طالب علم کی زنبیل میں ایک سوال باقی تھا، پوچھا کہ چار نسلیں خوشیوں کا خواب لئے مٹی میں روپوش ہو گئیں، خوشی پر ہمارا دعویٰ کیا ہوا؟

فرمایا یہ حرمت انسان کی فحاشی تھی۔ اور ساتھ ہی کہا، اب خاموش ہو رہو، سوال ان گنت ہیں اور زمانہ ابھی باقی ہے۔ جو زندہ رہے گا وہ جان لے گا کہ قومیں فرد کے ننگ اور اجتماع کی فحاشی میں ترقی نہیں کر سکتیں۔ عریانی تو ذاتی صوابدید پے۔ ذرا سی کوشش سے خوش لباسی میں بدل سکتے ہو لیکن قوم کی فحاشی ایک پھیلا ہوا سوال ہے۔ اس سے چھٹکارے میں عصائے کلیم اور گلیم ابوذر کام نہیں آتے، تدبیر اجتماعی اور فکر فردا کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے