یہ سول سوسائٹی کیا بلا ہے؟

پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود ترقی پسند سیاسی کارکنان کا ایک المیہ ہے۔ وہ یہ کہ جب جب انہوں نے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ کوشش کی ہے کہ کسی عوامی مسئلے پر ماضی قریب میں کوئی تحریک کھڑی کی جائی، تب تب مشہور و معروف این-جی-اوز یا بااثرشخصیات نے ان نومولود تحریکوں پر حاوی ہوکر انکا قلع قمع کیا ہے۔

یہ جہاں دیکھتے ہیں کہ کوئی لیفٹ کی جماعت کسی مسئلہ پر اکھٹا ہورہی ہے، وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ توجہ کا مرکز یہ این-جی-اوز چلانے والے رہیں۔ اب چونکہ یہ اپنی این-جی-اوز کے مضحکہ خیز نام استعمال کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو یہ ‘سول سوسائٹی’ کے نام پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنے آپسی اختلاف وقتی طور پر بھلا کر بے لوث کام کرنے والے بائیں بازو کے کارکنان کے خلاف محاز بنا لیتے ہیں۔

اس نام کے استعمال کرنے سے ایک بڑا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ انکی انفرادیت تو برقرار رہتی ہے، ان این-جی-اوز چلانے والوں کی تو خوب واہ واہ ہوجاتی ہے مگر کوئی سیاسی پارٹی جو مزدوروں پر مشتمل ہو یا ان ہی کی سیاست کرتی ہو اپنے پیر نہیں جما پاتی۔ ایسی کئی ایک مثالیں ماضی قریب میں موجود ہیں جنکا تزکرہ کرنا اب ناگزیرہوگیا ہے۔

لفظ سول سوسائٹی بھی بہت عجیب ہے۔ یہ درحقیقت ریاست کا ہی ایک ادارہ ہوتا ہو جسکی تعریف مارکسی فلسفی اینٹونیو گرامچی نے کی ہے لیکن اس پر روشنی ڈالنے کے لئیے شاید ایک الگ مضمون درکار ہو۔

سول سوسائٹی کا نام دراصل اس بات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے کہ جو تحریک جنم لے رہی ہے یا یہ جس معاشرے میں جنم لے رہی ہے اس میں کوئی طبقات موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ قارئین جانتے ہونگے کہ یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ سول سوسائٹی کا نام استعمال کرنے والوں کے مطابق وہ معاشرے کا وہ مہذب حصہ ہوتے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھاتے ہیں اور برائی کے خلاف نکل کر سڑکوں پر، علاقوں میں یا ہوٹلوں میں کانفرنس کروا کر اپنا ضمیر مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔

خود سول سوسائٹی کا لبادہ اوڑھے جب این-جی-اوز کے کرتا دھرتا عوام میں شامل ہوتے ہیں تو ایک طبقاتی کشمکش جنم لیتی ہے کیونکہ انکے اپنے طبقاتی مفادات عوام کے مفادات سے ٹکراتے نظر آتے ہیں۔ یہ خواتین و حضرات جو اپنے آپ کو ترقی پسند و لبرل کہلواتے ہیں اور سول سائٹی کے زیرِ سایہ کام کرنا چاہتے ہیں اپنی نجی زندگی میں سرمایہ دار ہوتے ہیں یا سرمایہ دار کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

آپ خود سوچیئے کہ جو آدمی ڈیفنس یا گلبرگ کے علاقے میں رہتا ہو اور بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتا ہو، اپنی غیر سرکاری تنظیم چلاتا ہو، اسکی امداد کے لئیے مستقل سامراجی قوتوں اور کارپوریشن سے رابطے میں ہو، انکو باقائدہ رپورٹ کرتا ہو وہ کیونکہ کر کسی تحریک میں شامل ہوکر پسے ہوئے غریب عوام کے حقوق اور جائز طبقاتی مفادات کی نمائندگی کرے گا؟

وہ کیوں کر نہیں چاہے گا کہ عوام کی ان مشکلات سے کچھ نا کچھ اپنا فائدہ نکال لے، یا تھوڑا سوشل کیپٹل بڑھا لے جو بعد میں کارآمد ثابت ہو اور اس تحریک میں انگلی کٹوا کر سرکار یا بیرونیِ ملک ایجنسیوں سے پیسے بٹور لے؟

وہ نومولود تحریک جس میں محنت کش طبقہ شامل ہوکر معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے صرف چند با اثر، قابلِ احترام شخصیات جس میں سے اکثر پرانے مارکسی کامریڈ کہلائے جاتے ہیں بس انہی کا ‘فین کلب’ یا انجمن بن کر رہ جاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں تحریک کا اثر زائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور تھوڑی بہت یکجہتی بھی ختم ہوجاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوا تھا جب سال 2017 میں سلمان حیدر و دیگر بلاگرز کو خفیہ اداروں نے تحویل میں لیا۔ سلمان حیدر چونکہ بائیں بازو کے ایک متحرک سیاسی کارکن اور ادیب بھی تھے ٓ، انکے اور دیگر بلاگرز بشمول عاصم سعید و وقاص گورایا کے لئیے کراچی میں موجود جوانوں نے جب بازیابی کی تحریک شروع کی تو ڈھیر ساری این-جی-اوز اسکا حصہ بنتی چلی گئیں۔

ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی جسکی ملاقات کمیشن برائے انسانی حقوق میں ہوا کرتی۔ ان ملاقاتوں میں ایک بات طے ہوئی کیونکہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے لہٰذا اس تحریک کا اصل مقصد ہونا چاہیئے کہ ‘تمام سیاسی کارکنان کو رہا کیا جائے’۔

اس لئیے لیفٹ کا موقف رہا کہ اسکے لئیے ‘ریکور آل ایکٹیوسٹ’ کا نعرہ استعمال کرنا چاہیئے۔ جس پر سب نے حامی بھر لی۔
البتہ، 19 جون 2017 کوجب ایک احتجاجی ریلی کی کال دی گئی جو کراچی ارٹس کونسل سے نکل کر کراچی پریس کلب تک جانی تھی تب بہت سے این-جی-اوز کے رہنماؤں کا اصل کردار آشکار ہوا۔ اس احتجاج میں سندھ پولیس نے سختی سے مظاہرین کو منع کردیا کہ کوئی آرٹس کونسل سے آگے نہیں بڑھے گا کیونکہ ہمیں خطرہ ہے کہ ایک انتہا پسند جماعت دھاوا بول سکتی ہے۔

راقم السطور جو اس تمام پیش رفت کو دیکھ رہا تھا بہت حیران ہوا جب معلوم ہوا کہ کراچی میں ‘سول سوسائٹی’ کے کئی ایک بڑے نام مستقل پولیس سے رابطے میں تھے اور مظاہرین کو پولیس کی بات پر عمل کرنے کی سختی سے تلقین کر رہے تھے۔ جب نعرہ بازی شروع ہوئی اور مظاہرین کے اشتعال میں اضافہ ہوا تو عورت فاؤنڈیشن نامی این-جی-او کی رہنما نے آگ بگولہ ہوکر نوجوانوں کی خوب عزت افزائی کی۔ دراصل معلوم چلا کہ انکو یہ فکر ذیادہ لاحق تھی کہ کہیں افرا تفری میں انکے بینرز کی تصویریں شرکاء کے ساتھ کھچنے سے نہ رہ جائیں۔

ابھی مذاکرات ہی چل رہے تھے اور تمام این-جی-اوز والے باضد تھے کہ احتجاجی ریلی شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کردی جائے کہ پولیس نے بہت سے شرکاء کو مارنا پیٹنا، اور دھکے دینا شروع کردئے جسکی وجہ سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ اور پھر کچھ انتہا پسندوں نے مظاہرین پر پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ کردیا۔

(https://www.dawn.com/news/1309434)

بعد میں کچھ ویڈیوز سے ظاہر ہوا کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے ان انتہاپسندوں کی خوشنودی کے لئیے خواتین شرکاء کو دھکے دئیے تھے اور ان پر لاٹھیاں برسائی تھیں۔

جو چشم کشاء تجربہ ہوا وہ یہ تھا کہ کس طرح این-جی-اوز بنام سول سوسائٹی بوقتِ ضرورت حکومتی اداروں کے ساتھ جا کھڑی ہوئیں۔اور ضلع ایس پی کی جی حضوری میں مصروف دکھائی دیں یہاں تک کہ مزاحمت کے وقت اپنے ہی لوگوں کہ خلاف آواز اٹھانا شروع کردی اور حملہ ہوتے ہی راہ فرار اختیار کی۔ صرف یہ نہیں آگے اور بھی کچھ ہونا تھا۔

اس کے بعد جب چند ہی روز میں سلمان حیدر و دیگر کو رہا کردیا گیا تو ایک میٹنگ کال کی گئی اور اس میں ان لوگوں پر لعن طعن کی گئی جو اس روز ‘ریڈیکل لائن’ لینے کے حق میں تھے یعنی جو لوگ کہتے تھے کہ ہمیں اعلان کے مطابق کراچی پریس کلب تک ریلی لے کر جانا چاہئے۔ اس ملاقات میں ایک خاتوں رہنما (جن کا نام لکھنا ابھی مناسب نہیں) نے کسی کی بات سنے بغیر یہ اعلان کردیا کہ اب یہ تحریک آگے نہیں بڑھانی چاہیئے کیونکہ 5 بلاگرز رہا ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کے بار بار اصرار کی باوجود کہ یہ مسئلہ ہزاروں لوگوں کا ہے اور اب اس پر بات ہونا شروع ہو چلی ہے، کسی بھی این-جی-او کے کرتا دھرتا نے ایک نہ سنی اور اس تحریک کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ یہاں تک کہ سب دورانِ ملاقات ہی اٹھ کر چل دئیے اور صرف لیفٹ کے لوگ بیٹھے رہ گئے جنہیں بعد میں کہلوایا گیا کہ دفتر خالی کردیں۔

ذرا سوچئیے کہ اگر اس تحریک کو چلتے رہنے دیا جاتا تو کتنے نوجوان شاید اس طرح لاپتہ نا ہوتے۔ کتنی ماؤں کے لختِ جگر انسے نہ چھینے جانتے اور قانون کی بالادستی کی خاطر سیاسی کارکنان پر اگر کوئی الزام ہوتا بھی تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانے لگتا۔ لیکن اگر ایسا ہونے لگتا تو این-جی-اوز کی دکانیں بند ہوجاتیں۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اس تحریر کہ ذریعے اٹھانا ضروری ہے کہ کئی مہینے لاپتہ رہنے کے بعد جب کراچی کے کامریڈ واحد بلوچ واپس آئے اور انہوں نے اپنے تجربے کے بارے میں کچھ لکھنے کا عزم کیا اور اپنی یانداشت کو رقم بھی کرلیا لیکن اب تکانکو کن لوگوں نے اسکی اشاعت سے روک رکھا ہے؟ کیا یہ وہی سول سوسائٹی کے نمائندہ لوگ تو نہیں تھے؟! اس سوال کا جواب ہے تو مثبت میں لیکن کسی کا نام لینا ابھی مناسب نہیں۔

صرف لاپتہ افراد کے معاملے کے لئیے اٹھنے والی تحریک کے ساتھ یہ نہ ہوا بلکہ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف برپا ہونے والی تحریک جوسانحہِ آرمی پبلک اسکول کے بعد کھڑی ہوئی تھی اس کو بھی مل کر کئی نام نہاد رہنماؤں نے سول سوسائٹی کا نام لے کر نا صرف برباد کردیا بلکہ اس سے خوب پیسے بھی کمائے۔ پہلے تو اس تحریک میں یہ قید لگائی گئی کہ کوئی سیاسی جماعت اس میں اپنے نام ک ساتھ کام نہیں کر سکے گی اور پھر کچھ خاص شخصیات نے اس تحریک کے ذریعے نام کمانا شروع کیا یہاں تک کہ بیرونِ مامالک دورے کرکے لیکچرز بھی دئیے اور وہاں سے انتہاپسندی کے خلاف امداد بھی اکھٹا کی جو ناجانے کہاں لگائی گئی۔ اگر یہی کام کسی پابند اور نطم و ضبط کا پاس رکھنے والی پارٹی کے ذریعہ ہوتا تو اس کی نوبت نہ آتی اور اور کوئی شخص انفرادی طور پر لوگوں کے لاشوں، دکھوں، اور زخموں کی نمائش لگا کر اپنے لئیے نام اور پیسہ نا بنا پاتا۔

سول سوسائٹی میں این-جی-اوز اور دیگر بااثر شخصیات کی بالادستی قائم ہوئی نظر آتی ہے۔ ہمیں یاد کرنا چاہیئے کہ جب شہید خرم ذکی نے لال مسجد کے مولانا عبدالرشید کے خلاف احتجاج کی کال دی تو کئی لوگوں نے اسکو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا کیونکہ اس وقت وہ اسلام آبادجانے سے قاصر تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ شہید خرم کو کسی قسم کی ذیادہ پزیرائی ملے۔ (یہ بات راقم کو شہید نے بذاتِ خود بتائی)

انکو اکیلا چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ لال مسجد کے باہر احتجاج کرنے پر گرفتار کرلئے گئے۔ اس کے بعد انکا سوشل بائیکاٹ کیا گیا یہاں تک کہ شہید کو ایک آدھ سال بعد گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔

این-جی-اوز سول سوسائٹی کا نام استعمال کیوں کرتی ہیں؟

اس لئیے تاکہ کوئی لیفٹ یا ترقی پسند مزدوروں کی سیاسی جماعت لوگوں کے ساتھ اپنا نام لے کر نہ جڑ جائے کیونکہ ایسا ہوا تو انکے پیٹ پر لاتھ لگ جائے گی اور وہ کام جو یہ نام نہاد با اثر شخصیات لاکھوں اور کچھ تو کڑوروں روپے لے کر سامراجی کمپنیوں اور گروہوں کے کہنے پر کرتی ہیں وہ نوجوان کرنے لگیں گے جن میں یکجہتی کا جذبہ ابھی باقی ہے، جن کے اندر انسانیت زندہ ہے، جن میں یہ شعور زندہ ہے کہ اپنے حقوق کی جنگ ہم کسی منافع کی آس لگائے بغیر اور ایک دوسرے کا سہارا بن کر ہی کرسکتے ہیں۔
اس استحصال سے بچے بغیر جو چند این-جی-اوز کے افراد تحریکی نوجوانوں کا کرتے ہیں ہم کیسے دنیا و معاشرے کو استحصال سے پاک کر پائیں گے؟ ابھی بھی اگر چاق و چوبند رہا جائے اور سول سوسائٹی کے ڈھکوسلے کے بجائے سیاسی جماعتیں خاص کر بائیں بازو کی پارٹیاں اگر اپنے نام سے کام کرین تو ان مکار استحصالی لوگوں کا اپنی صفوں سے نکال باہر کیا جاسکتا ہے جس میں ہر صورت عوام کی اور ان کے طبقاتی مفادات کی کامیابی ہے۔

فواد حسن کراچی میں صحافت سے وابستہ ہیں. آج کل سوچ ویڈیوز کے ساتھ بطور نامہ نگار منسلک ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے