میں اور بھائی مجید ہفتے میں تین دن لمبی واک کرتے ہیں‘ ہم دو سے تین گھنٹے مسلسل چلتے ہیں اور 16سے 20ہزار قدم اٹھا کر‘ آدھا شہر گھوم کر واپس آ جاتے ہیں‘ میں سارا راستہ خاموشی سے بھائی مجید کی باتیں سنتا رہتا ہوں۔
مجید صاحب میرے 19 سال پرانے دوست ہیں‘ سابق بزنس مین ہیں‘ آج سے دس سال قبل بلڈ پریشر اور اینگزائٹی کا شکار ہوئے‘ کاروبار ملازمین کے حوالے کیا اور خود کو مسجد اور جم تک محدود کردیا‘ یہ دن میں دو بار واک کرتے ہیں‘ شام کو ڈیڑھ دو گھنٹے ایکسرسائز کرتے ہیں‘ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے لگاتے ہیں‘ یہ ’’سیلف ریٹائرمنٹ‘‘ انھیں سوٹ کر گئی‘ یہ ساٹھ سال کی عمر میں چالیس سال کے دکھائی دیتے ہیں‘ گھٹنے بیس سال سے جواب دے چکے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود پندرہ پندرہ کلو میٹر پیدل چل لیتے ہیں‘ بے لوث اور بے فکرے ہیں۔
لالچ اور طمع دونوں کو زندگی سے خارج ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں‘ پرانی فلمیں‘ پرانے گانے‘ واک‘ ایکسرسائز اور قہقہے یہ سب مل کر بھائی مجید بن جاتے ہیں‘ ہم نے اس جمعہ کی شام بھی واک شروع کی‘ ہم پیدل ای سیون گئے‘ کافی لی اور ایف الیون کی طرف پیدل چلنے لگے‘ کافی ختم ہو گئی تو ہم نے گتے کے کپ پھینکنے کے لیے ’’ڈسٹ بن‘‘ تلاش کرنا شروع کر دی‘ آپ یقین کیجیے ہمیں مارگلہ روڈ پر پانچ کلو میٹر تک کوئی ڈسٹ بن نہیں ملی‘ ہم فٹ پاتھ پر چلتے چلتے ایف ٹین مرکز پہنچ گئے لیکن راستے میں کوئی ڈسٹ بن نہیں تھی تاہم ہر چند قدم کے بعد کوڑے کے ڈھیر ضرور موجود تھے۔
ہم دونوں کیونکہ پاگل ہیں چنانچہ ہم کپ اٹھا کر ایف ٹین آ گئے‘ بھائی مجید سارا راستہ سی ڈی اے اور حکومت دونوں کی دل کھول کر ’’تعریف‘‘ کرتے رہے‘ ہم آخر میں ایف ٹین مرکز پہنچے اور وہ دونوں خالی کپ پٹرول پمپ کی ڈسٹ بن میں پھینکے اور یہ پاکستان کے مہنگے‘ جدید اور مہذب ترین شہر کی صورت حال ہے‘ مارگلہ روڈ وفاقی دارالحکومت کی مہنگی ترین سڑک بھی کہلاتی ہے‘ پارلیمنٹ ہائوس سے لے کر ایف نائن تک سڑک کے ساتھ ساتھ چار کنال کے بڑے گھر ہیں لیکن کسی گھر کے مالک کو ڈسٹ بن لگانے کی توفیق ہوئی اور نہ ہی سی ڈی اے اور حکومت نے اس طرف توجہ دی‘ آپ اس سے بڑی آسانی سے باقی شہر کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ پورے شہر کے فٹ پاتھ ناہموار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ آپ ان پر چل نہیں سکتے‘ آپ شہر میں کسی سمت نکل جائیں آپ کو سڑک درمیان سے پار کرنا پڑ جائے گی‘ اوورہیڈ برج نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بلیو ایریا ملک کا مہنگا ترین علاقہ ہے‘ آپ کسی پلازے یا پلاٹ کی قیمت پوچھ لیجیے مالیت سات آٹھ ارب روپے نکلے گی لیکن پورے بلیو ایریا میں عام لوگوں کے گزرنے کے لیے کوئی اوورہیڈ پل نہیں‘ آپ کو لوگ سڑکوں کے درمیان اور میٹرو کے ٹریک سے گزرتے ملیں گے‘ شہر میں پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ غلاظت اور بدبو کا خوفناک جوہڑ ہیں‘ آپ ان کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے‘ ایف نائن پارک کبھی ایشیا کا سب سے بڑا پارک ہوتا تھا‘ اس میں بھی صرف ایک جگہ ٹوائلٹس ہیں اور یہ بھی انتہائی ناگفتہ بہ اور اذیت ناک ہیںچناںچہ لوگ دائیں بائیں دیکھ کر جھاڑیوں میں گھس جاتے ہیں‘ میں روز کچرا گھروں کے قریب سے گزرتا ہوں‘ آپ یقین کیجیے کھربوں روپے کے سیکٹرز کے چاروں کونوں پر گندگی اور غلاظت کے انبار لگے ہوتے ہیں اور یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔
عمران خان نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں‘ یہ بڑی حد تک کام یاب بھی ہو چکے ہیں‘ بس تھوڑی سی کسر باقی ہے‘ میری ان سے درخواست ہے اسلام آباد پاکستان کا چہرہ ہے‘ حکومت اگر اپنا چہرہ ٹھیک نہیں کر سکتی تو پھر باقی جسم کا اللہ حافظ ہے‘ وزیراعظم اگر ہفتے میں صرف ایک گھنٹہ اسلام آباد کو دے دیں‘ یہ چیف کمشنر‘ چیئرمین سی ڈی اے اور علی اعوان کو بلا کر بریفنگ لے لیا کریں تو کم از کم ملک کا چہرہ ضرور ٹھیک ہو جائے گا‘ وفاقی دارالحکومت کے10لاکھ14 ہزار شہری بھی سکھ کا سانس لے لیں گے‘ سفارت خانوں کے لوگ بھی پاکستان کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں گے اور غیر ملکی مہمان بھی ملک کے بارے میں اچھا تاثر لے کر جائیں گے‘ میں یہاں دو مثالیں دوں گا‘ پہلی مثال بھارت ہے‘ پوری دنیا نریندر مودی کی دوسری کام یابی پر حیران ہے‘ نریندر مودی نے پانچ برسوں میں بے شمار ’’بلنڈرز‘‘ کیے‘ کرپشن کے میگا اسکینڈل بھی آئے‘ چرچوں‘ مسجدوں اور بودھ ٹمپلز پر حملے بھی ہوئے‘ اقلیتوں پر ظلم بھی ہوئے‘ منہگائی میں بھی اضافہ ہوا اور مودی نے آخر میں پورے خطے کو جنگ کی بھٹی میں بھی جھونک دیا لیکن یہ اس کے باوجود چھ فیصد ووٹ زیادہ اور21اضافی نشستوں کے ساتھ دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔
کیوں؟ یہ ایک دل چسپ کیوں ہے؟ نریندر مودی کی کام یابی کے پیچھے ٹوائلٹس ہیں‘ بھارت میں 2014ء تک ایک ارب دس کروڑ لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں اور کھلے مقامات پر جاتے تھے‘ مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد پورے ہندوستان میں ٹوائلٹس بنوانے کا اعلان کر دیا‘ یہ 20 ارب ڈالر کا منصوبہ تھا اور حکومت نے پانچ برسوں میں دس کروڑ گیارہ لاکھ ٹوائلٹس بنانے تھے‘ یہ پراجیکٹ انگریزی میں نیشنل ہائی جین ڈرائیو اور کلین انڈیا کہلایا جب کہ ہندی میں اسے سواچ بھارت ابھیان کا نام دیا گیا‘ مودی کے اس ایک منصوبے نے نہ صرف پورے ہندوستان کا ذہن تبدیل کر دیا بلکہ اس نے بھارت کا پورا معاشی پہیہ بھی چلا دیا۔
ٹوائلٹس کی وجہ سے کنکریٹ مٹیریل کی فروخت میں 81 فیصد جب کہ باتھ روم فٹنگز اور سینٹی ویئرز کی سیل میں 48 فیصد اضافہ ہو گیا‘ باتھ رومز کلینزنگ کی نئی انڈسٹری بنی اور یہ انڈسٹری 2021ء تک 62 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی‘ یہ ٹیکس دینے والی ملک کی تین بڑی انڈسٹریز میں بھی شامل ہو جائے گی‘ بھارتی حکومت اکتوبر 2019ء تک 8 کروڑ گھروں میں ٹوائلٹس مکمل کر لے گی اور یہ نریندر مودی کی طرف سے مہاتما گاندھی کے 150 ویںیوم پیدائش پر قوم کے لیے تحفہ ہو گا‘ برطانیہ اور امریکا کے اداروں نے اس مہم کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور کام یاب ’’ہیومن بی ہیور چینج کمپیئن‘‘ بھی قرار دیا اور نسل انسانی کا صفائی کا سب سے بڑا منصوبہ بھی۔
ہم پانچ سال تک نریندر مودی کا مذاق اڑاتے رہے‘ ہم اسے طعنے دیتے رہے تم پہلے اپنے ملک میں ٹوائلٹ تو بنا لو ہم سے پھر ٹکرا لینا لیکن ہم میں سے کسی شخص نے اس منصوبے کی اسٹڈی کی اور نہ ہی اس کے معاشی ثمرات کی تحقیق ‘ بھارت ہر سال اپنے جی ڈی پی کا چھ اعشاریہ چار فیصد پیٹ کی بیماریوں اور گندگی سے پیدا ہونے والے مسائل پر خرچ کرتا تھا‘ یہ رقم ڈالرز میں 166 بلین بنتی ہے اور یہ بھارت کی سالانہ معاشی گروتھ کے برابر ہے‘ بھارت نے ٹوائلٹس اور کلین انڈیا کمپیئن کے ذریعے یہ رقم بھی بچا لی‘ 62 ارب ڈالر کی نئی انڈسٹری بھی متعارف کرا دی اور وزارت صحت پر دبائو بھی کم کر دیا‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کلین انڈیا کمپیئن کا مطالعہ بھی کر رہی ہے اور یہ اسے غریب ملکوں میں متعارف کرانے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے‘ آپ اب ایک پاکستانی مثال بھی ملاحظہ کیجیے۔
مجھے چند ماہ قبل سکھر جانے کا اتفاق ہوا‘ میں موہن جو داڑو اور جیکب آباد دیکھنا چاہتا تھا‘ میرے ایک دوست نے کانٹیننٹل بسکٹ کمپنی کے ریسٹ ہائوس میں میری رہائش کا بندوبست کرا دیا‘ آپ یقین کیجیے میں نے پورے ملک میں ایسی خوب صورت اور صاف ستھری جگہ نہیں دیکھی‘ فیکٹری ایریا بھی انتہائی صاف تھا اور ملازمین کی کالونی بھی‘ ملک کا کوئی فائیو اسٹار ہوٹل‘ کسی کمپنی کا رہائشی ایریا حتیٰ کہ وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ مجھے پورے ایریا میں سڑک‘ لان یا کسی گلی میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نہیں ملا‘ کانٹیننٹل بسکٹ کے مالک نواب زادہ حسن علی خان ہیں‘ یہ نواب آف رام پور کے خاندان سے ہیں۔
بزنس مین ہیں اور یہ کمپنی انھوں نے 1984ء میں قائم کی تھی‘ یہ ملک کی سب سے بڑی بسکٹ ساز فیکٹری ہے‘ میں نے ان کے اسٹاف سے ان کا فون نمبر لیا اور انھیں کال کی‘ میں نے ان کی صفائی پسندی‘ جمالیاتی حس اور ماحولیات پسندی کی تعریف بھی کی اور یہ بھی عرض کیا ’’لوگ آپ کی فیکٹری کی تعریف کرتے ہوںگے لیکن مجھے آپ کی فن نوازی نے حیران کر دیا‘ آپ نے ریسٹ ہائوس میں کروڑوں روپے کی پینٹنگز لگا رکھی ہیں اور یہ ’’حرکت‘‘ ملک کے کھرب پتی بھی نہیں کرتے‘‘ نواب صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے بتایا ’’میں فیکٹری میں صرف ایک مہینے کے لیے آتا ہوں لیکن میں نے اپنے ورکرز کو وہ سارا ماحول اور سہولتیں دے رکھی ہیں جو میں اور میری فیملی کراچی میں انجوائے کرتی ہے‘‘ وہ رک کر بولے ’’میرا تجربہ ہے آپ جب تک ورکرز کو صاف ستھرا ماحول نہیں دیں گے آپ کو اس وقت تک ان سے اچھی آئوٹ پٹ نہیں ملی گی‘‘۔
میری عمران خان سے درخواست ہے یہ کلین انڈیا کا مطالعہ کرائیں‘ پاکستان میں اس سے ملتا جلتا پراجیکٹ بنائیں اور نواب زادہ حسن علی خان جیسی کسی شخصیت کو اس کا انچارج بنا دیں‘ ملک بھی صاف ستھرا ہو جائے گا‘ لوگ بھی صحت مند ہو جائیں گے‘ اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا اور ملک میں نئی معاشی سرگرمی بھی شروع ہو جائے گی‘ پاکستان صرف نعروں سے کلین اور گرین نہیں ہو گا‘ ہمیں اس کے لیے کوشش کرنی پڑے گی اور یہ کوشش ہمارے ہمسائے میں کام یاب ہو چکی ہے‘ وزیراعظم پراجیکٹ بنوائیں اور اسلام آباد سے اس کا آغاز کریں‘ پورے شہر میں ڈسٹ بن لگوائی جائیں‘ سڑکوں‘ فٹ پاتھوں اور گرین ایریاز کی صفائی کا بندوبست کیا جائے‘ کچرا اٹھانے کی نئی گاڑیاں خریدی جائیں۔
گند کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا جائے اور پورے شہر میں ہر دو کلو میٹر بعد جدید ٹوائلٹس بنائے جائیں‘ ہم نے اگر وفاقی دارالحکومت صاف کر لیا تو یقین کریں پورا ملک گرین بھی ہو جائے گا اور کلین بھی ورنہ دوسری صورت میں یہ شہر بھی لاہور اور کراچی بن جائے گا‘ لوگوں کے لیے اس کی فضا میں سانس تک لینا مشکل ہو جائے گا‘اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ کی ذات جانتی تھی ہم کس قدر گندے اور غلاظت پسند ہوں گے چناں چہ اس نے صفائی کو آدھا ایمان ڈکلیئر کر دیا‘ قدرت نے سوچا ہم شاید اس لالچ میں ہی صفائی پسند ہو جائیںلیکن آپ ہمارا کمال دیکھیے ہم نے آج تک قدرت کو خوش نہیں ہونے دیا۔