جب ایم این اے تھا اور ایک دفعہ اسلام آباد سے واپس آیا تو مجھے کاغذ پہ لکھی ہوئی ایک تحریر دکھائی گئی ۔ کوئی خیبر پختونخوا کے پٹواری صاحب تھے جو کسی کام کے سلسلے میں چکوال آئے تھے ۔ انہیں خیال آیا ہوگا کہ مقامی ایم این اے کا گھر دیکھتے جائیں ۔گھر دیکھ کے انہوں نے یہ لکھا ”آپ کا غریب خانہ تو واقعی غریب خانہ ہے ۔ میں تو سمجھا وسیع وعریض گھر ہوگا ، گارڈ وغیرہ گیٹ پہ ہوں گے۔ لیکن یہ چھوٹا سا گھر دیکھ کے اپنے آپ سے پشیمانی ہوئی ۔‘‘
اپنی سرائے عین تلہ گنگ روڈ پہ واقع ہے ۔ ایک طرف چھپڑ بازار کا راستہ ہے اوردوسری طرف بھون چوک جہاں سے سڑک قصبہ بھون سے ہوتی ہوئی سرگودھا کی طرف جاتی ہے ۔ سامنے مارکیٹ ہے اورپیچھے اوراوپر اپنی سرائے ہے۔ گلی سے آنا ہو تو دکانوں کے ایک سلسلے سے گزر کے دروازے پہ آنا ہوتاہے ۔ حیرانی صرف پٹواری صاحب کی نہ تھی بلکہ متعدد بارایسی حیرانی کااظہار کیاگیاہے کہ وسیع وعریض گھر یا مینشن کی توقع تھی لیکن کچھ اورہی دیکھا۔ ایسے ردعمل کا کیا کیاجائے ؟پاکستان کے حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ محل نما گھر نہ ہو تو گھر سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ خاص طور پر اگر آپ کا تعلق سیاست سے ہو۔ سیاست کا اب مطلب ہی یہ رہ گیاہے کہ گزوں سے ناپی جانے والی گاڑی نہ ہو اور کئی کنالوں پہ مشتمل مینشن نہ ہو تو سیاست دان سمجھا ہی نہیں جاتا۔ رائے صاحب ہمارے ایک ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ہوا کرتے تھے ۔نیا نیا میں ایم این اے منتخب ہوا تھا۔ وہ مجھے گھر ملنے آئے ۔لیکن جب دکانوں کے درمیان سے گزرنا پڑا توایک عجیب سی پریشانی اُن کے چہرے پہ نمایاں ہوگئی ۔ وہ پریشانی تب تک رہی جب تک وہ اپنی گاڑی میں واپس جانے کیلئے نہ بیٹھ گئے ۔
ہم بھی نکمّے ٹھہرے ۔ کچھ حالات سے سیکھ گئے ہوتے ، کچھ زرداریوں اورشریفوں سے سبق سیکھا ہوتا ۔ اورکچھ نہیں تو کسی پٹواری کو ہی اپنا پی اے رکھ لیتے ۔اگر ایسا ہوتا تو موجودہ سرائے سے کسی زیادہ کشادہ جگہ منتقل ہوچکے ہوتے۔ چھوڑئیے ایسی باتوں کو ۔ایک زمانہ تھا جب یہ حویلی مناسب سمجھی جاتی تھی ۔ لیکن وہ اورپاکستان تھا اورموجودہ حالات کا پاکستان بالکل مختلف ہے ۔ مناسب اس لیے بھی سمجھی جاتی تھی کہ کون سا پاکستان کا اپوزیشن لیڈر ہوگا جو ا س سرائے میں نہ آیا ہو۔ 1950ء کی دہائی میں حسین شہید سہروردی کا یہاں آنا ہو ا ۔1951ء کے پنجاب الیکشن مسلم لیگ نے سویپ کیے تھے اورمیاں ممتاز محمد خان دولتانہ چیف منسٹر منتخب ہوئے ۔ والد صاحب نے بھی وہ الیکشن لڑا لیکن سہروردی صاحب کی جناح عوامی لیگ کے ٹکٹ پراوربھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔ کچھ سال بعد والد صاحب مسلم لیگ میں شامل ہوگئے‘ جن دنوں مسلم لیگ حکومت میں نہ تھی ۔
مسلم لیگ کے بڑے لیڈر تب خان عبدالقیوم خان تھے اوروہ بھی والد صاحب کی دعوت پر چکوال آئے ۔
پھر ایوب خان کا مارشل لاء لگ گیا اورتین چار سال تک ملک بھر میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی رہی ۔
سخت پابندیاں اُٹھیں بھی تو یہ پابندی بہرحال برقرار رہی کہ جلسے اگر ہونے ہیں توچاردیواری کے اندر ۔ ایوب خان دور میں والد صاحب کی وابستگی کونسل مسلم لیگ سے رہی۔ تحصیل چکوال مسلم لیگ کے صدر وہ تھے اورضلع جہلم کے صدر مرحوم چوہدری الطاف حسین ( جو بہت سال بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی وساطت سے گورنر پنجاب بنے )۔
موٹروے تب تھی نہیں۔ پنڈی اور لاہور کا سفر جی ٹی روڈ سے ہوتااور اُس زمانے میں اکثر وبیشتر اپوزیشن لیڈروں کا دورانِ سفر قیام چوہدری الطاف حسین کی جہلم رہائش گاہ پہ ہوتا ۔ یہ بیتی ہوئی کہانیاں ہیں۔ آج ان میں کس کی دلچسپی ہوگی ؟
سابق وزیراعظم اور سپر بیورو کریٹ چوہدری محمد علی نے ایوب خان کے دور میں اپنی نظام ِ اسلام پارٹی بنا ئی تھی ۔ وہ بھی ٹھوکریں کھاتے وقفے وقفے سے مختلف مقامات کا دور ہ کرتے ۔ایک دو بار وہ چکوال بھی آئے ۔یاد پڑتاہے کہ سرائے میں تقریر کی اورایک دفعہ اُن کا قیام مقامی وکیل چوہدری امیر خان آف سرپاک کے گھر ہوا۔ مشرقی پاکستان کے لیڈر مولوی فرید احمد جوکہ ایوب خان اسمبلی میں ایم این اے تھے وہ بھی ایک دو مرتبہ چکوال آئے اوراپنی سرائے میں ہی چھوٹے مجمع کے سامنے انہوں نے تقریرکی۔ مقرر بہت اچھے تھے اورقومی اسمبلی میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ 1970-71ء کی شورش میں وہ اس بناپہ مارے گئے کہ بنگالی قوم پرست اُنہیں پاکستان دوست سمجھتے تھے۔
یا درکھنے والا جلسہ البتہ مادر ِ ملت کا تھا۔ ہمارے گھر کے عین سامنے شفیع کا کٹڑہ ہے جہاں پہ جلسہ منعقد ہوا۔ میں لارنس کالج میں تھا اورسالانہ امتحان عین سر پہ تھے ۔ دورانِ طالبعلمی والد صاحب نے کبھی کالج سے غیر معمولی چھٹی نہ دلوائی تھی ۔ لیکن اِس موقع پہ انہوں نے انگریز پرنسپل ایم ایل چالز ورتھ کو تار بھیجی کہ مادرِ ملت چکوال آرہی ہیں اورمیں چاہتاہوں کہ میرا بیٹا یہاں موجود ہو ۔ پرنسپل کا بھی کمال دیکھیے۔ مجھے بلایا اورکہا کہ امتحان عین قریب ہیں لیکن کوئی بات نہیں ، تمہارے والد اگر اتنا چاہتے ہیں تو ایک دن کی چھٹی پہ جاسکتے ہو۔ اِس طرح اُس تاریخی جلسے میں شرکت ہوئی ۔ حبیب جالب مرحوم تب اپنے جوبن پہ تھے۔ کیا رومانٹک انقلابی کااُن کا امیج تھا۔ لمبے بال پیچھے کو کیے ہوئے ۔ جوانی کے ایام تھے اورشاعری بھی عروج پہ تھی۔ اُس موقع پہ اُن کی مشہورِ زمانہ نظمیں سُنیں…”ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا‘‘ اور”بیس روپے ہے من آٹا اوراس پہ بھی ہے سناٹا‘‘۔ نظمیں سن کے پورا مجمع اش اش کر اُٹھا۔ بس جالب تھے اورمادر ِ ملت ۔ مس جناح نے ٹوٹے پھوٹے انداز میں مختصر سی تقریر کی لیکن مجمع پہ اُن کے الفاظ کا جادو سااثر تھا۔ کیا کہہ رہی ہیں اُس پہ دھیان لوگوں کا نہیں تھا‘ بس قائد اعظم کی بہن ہیں یہی اُن کیلئے کافی تھا۔ بڑی بڑی عمر کے لوگوں کو میں نے ا س دن آنسو بہاتے دیکھا ۔
نوابزادہ نصر اللہ خان بھی تھے‘ محمود علی قصوری بھی ۔ میاں افتخارالدین کے فرزند نوجوان عارف افتخار پہ بھی تب جوانی آئی ہوئی تھی ۔ شیروانی میں بڑے دبلے اورسمارٹ لگ رہے تھے ۔ بہت سال بعد میں نے انہیں شاہنواز بھٹو کی تدفین کے موقع پہ لاڑکانہ میں دیکھا۔ تب خاصے بھاری ہوچکے تھے اورجوانی کی بس یاد ہی رہ گئی تھی ۔ ایسا ہی ہوتاہے ،وقت کسی کیلئے کہا ں تھمتا ہے۔
مادرِ ملت کے الیکشن کا نتیجہ جمہوری قوتوں کیلئے بڑا بھاری ثابت ہوا۔ الیکشن کے روز، 2 جنوری 1965ء کو میں چکوال میں ہی تھا اور سارا الیکشن دیکھا۔ عمر اتنی نہ تھی لیکن سیاست میں دلچسپی بھر پور تھی ۔ اُس الیکشن میں دو ہی نمایاں کردار تھے ، ایک حبیب جالب کا ایک نوائے وقت کا۔ ان دونوں کے بغیر اُس الیکشن کا جوش وجذبہ ادھورا رہ جاتا۔ بہرحال الیکشن کے روز ہم جیسے ناسمجھوں کو قوی یقین تھا کہ کامیابی جمہوریت کی ہو گی۔ لیکن شام جب نتائج آنے لگے تو عجیب سی کیفیت دل پہ طاری ہوگئی ۔ سمجھداروں کو تو پتا ہوگا کہ الیکشن میں کیا حربے استعمال ہوں گے اورنتائج کیا ہوں گے‘ لیکن ہم جیسے اپنے رومانوی خیالات میں غرق تھے ۔ لہٰذا جب نتائج آئے تو اُسی لحاظ سے مایوسی پھیلتی گئی۔
چند ماہ بعد جب قومی وصوبائی الیکشن ہوئے تو وہ بالکل یکطرفہ تھے ۔ یوں لگتاتھا کہ جمہوریت کی چنگاری ہمیشہ کیلئے بجھ چکی ہے ۔ لیکن پیپلزپارٹی کی 1967ء میں بنیاد رکھی گئی تو بہت سے دلوں میں ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ۔والد صاحب جلد ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اوراِسی سرائے میں 1968ء میںبھٹو صاحب کی میزبانی کی ۔ 1970ء کی الیکشن مہم میں بھٹو صاحب ایک بار پھر چکوال آئے اورایک بڑے جلسۂ عام سے اُنہوں نے خطاب کیا۔
پشاو ر کے پٹواری صاحب نے تو دروبام کانظارہ کیاتھا اوراُس سے وہ زیادہ متاثر نہ ہوئے ۔ سرائے کی تاریخ اتنی درخشاں تو نہ تھی لیکن کچھ تو تھی۔ وہ تاریخ اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہی۔