قومی اسمبلی میں جانا ہو تو اندر کی خبریں پتا چلتی ہیں‘ جو ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتیں۔
جب سے اسمبلی کارروائی ٹی وی پر لائیو دکھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ اگرچہ بہت سارے صحافیوں کی وہ دلچسپی نہیں رہی جو پہلے تھی‘ کیونکہ سب کچھ گھر بیٹھ کر دیکھنے کو مل جاتا ہے؛ تاہم اب بھی ہال میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے‘ وہ سب کچھ عوام نہیں دیکھ پاتے۔ داد دینا پڑتی ہے کالم نگار اور سینئر صحافی نصرت جاوید کو جو اب بھی پارلیمنٹ میں موجود ہوتے ہیں‘ اور پریس گیلری لکھتے ہیں۔ شاہین صہبائی، عامر متین، ضیاالدین اور محمد مالک پریس گیلری لکھتے تھے‘ لیکن وہ پریس گیلری لکھنا چھوڑ چکے ہیں؛ تاہم داد دینا پڑتی ہے نصرت جاوید کو جنہوں نے اکیلے محاذ سنبھالا ہوا ہے۔
قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں جو کچھ پہلے دو تین کیا گیا‘ وہ نئی بات نہیں تھی۔ جب شہباز شریف گرفتار تھے تو ان کے لیے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ یہی شور شرابہ کر رہے تھے۔ جن کا شہباز شریف نے پیٹ پھاڑنا تھا‘ وہ شہباز شریف کے لیے جنگ لڑ رہے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کل کلاں کو انہیں بھی نواز لیگ کی حمایت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب وہ انہی شہباز شریف کو ہر حال میں اسمبلی لانا چاہتے تھے تاکہ روایت بنی رہے۔ اور وہی ہوا‘ جب زرداری صاحب گرفتار ہوئے تو فوراً رولا ڈالا گیا کہ انہیں بھی پارلیمنٹ لایا جائے۔
اس دفعہ وزیر اعظم عمران خان نے سخت مؤقف اپنایا تھا کہ وہ ماضی میں بھی ایسی سیاسی رعایتیں دیتے رہے ہیں‘ جن کا اپوزیشن نے غلط فائدہ اٹھایا‘ اور اس عمل کو حکومت کی کمزوری سمجھ لیا گیا۔ عمران خان صاحب کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ ایسے نہیں چلے گی۔ اگر اپوزیشن انہیں تقریر نہیں کرنے دے گی‘ تو پھر حکومتی ارکان بھی اپوزیشن لیڈروں کو تقریر نہیں کرنے دیں گے۔ دو تین دن تک یہی ہنگامہ ہوتا رہا۔ اس پر چیف جسٹس‘ جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے: ‘کہیں سے اچھی خبر نہیں آ رہی کہ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو بات نہیں کرنے دے رہے‘۔ لگتا ہے‘ چیف جسٹس صاحب کے ان ریمارکس کا اثر حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں پر ہوا اور فوری طور پر اندر کھاتے معاملات طے کیے گئے۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جائیں تو وہ ہائوس میں بیٹھ کر بجٹ اجلاس کو آرام سے چلنے دیں گے۔
یوں غالباً وہ ڈیل ہوئی جس کے بعد ہائوس میں کچھ بہتری نظر آئی‘ اور دونوں اطراف نے بہتر رویے کا مظاہرہ کیا؛ تاہم اپوزیشن نے ایک پتّا کھیلا‘ جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری ان کے ٹریپ میں آ گئے‘ جب اپوزیشن کی بار بار کی تکرار پر انہوں نے اسمبلی میں وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگا دی۔ میرے خیال میں ڈپٹی سپیکر کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ اپوزیشن ہمیشہ کئی ناموں سے حکومت اور حکومتی عہدے داروں کو پکارتی رہتی ہے۔ عمران خان خود بھی کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس سے زیادہ سخت لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ یوں ڈپٹی سپیکر نے لوز بال کرائی جب انہوں نے اس لفظ کو بین کیا اور اس پر اپوزیشن نے اسے پوائنٹ بنا لیا‘ لہٰذا اب اپوزیشن کا ہر بندہ جب بھی تقریر کرنے کھڑا ہوتا ہے تو بار بار مختلف طریقوں سے وہ سلیکٹڈ کی بات کرتا ہے۔ یوں لفظ ‘سلیکٹڈ‘ ایک چڑ بن گیا ہے اور اب اس سے جان چھڑانا حکومت کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔
اگرچہ وقتی طور پر اپوزیشن اور حکومت کی سیزفائر لگ رہی تھی لیکن اندر کھاتے ابھی بھی چنگاریاں سلگ رہی تھیں‘ لہٰذا ہم نے دیکھا کہ بلاول نے جہاں فائر ورک سے کام لیا‘ وہیں مراد سعید نے بھی بڑھ کر جوابات دیے۔
بلاول اور مراد سعید کی یہ لفظی جنگ بڑی پرانی ہے۔ جب بھی بلاول حکومت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کا جواب دینے کے لیے حکومتی بینچوں سے جو انتخاب کیا جاتا ہے‘ وہ مراد سعید ہیں۔ وہ جس طرح سے ہائوس میں تیاری سے آتے ہیں‘ اس نے انہیں ہائوس کے اندر بہت lethal کر دیا ہے۔ اس لیے اپوزیشن کے پاس ان کو روکنے کے لیے ایک ہی آپشن رہ گیا ہے کہ وہ ان پر ذاتی حملے کریں۔ ایسے حملے جن کا شکار کبھی بینظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور بلاول بھٹو خود بھی رہے ہیں۔
اب اس بیک گرائونڈ میں سوموار کا دن اس لیے اہم تھا کہ اس دن بلاول بھٹو نے بجٹ پر تقریر کرنا تھی؛ تاہم پیپلز پارٹی کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جس کا نام ہے مراد سعید۔ کوشش کی جا رہی تھی کہ کسی طرح بلاول اس دن تقریر کریں یا وہ لمحہ چن لیں جب مراد صاحب ہائوس میں موجود نہ ہوں؛ تاہم تحریک انصاف نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ بلاول بھٹو جب بھی تقریر کریں گے‘ جواب مراد سعید ہی دیں گے۔
اب سوموار کے روز زرداری صاحب پارلیمنٹ کی عمارت میں پروڈکشن آرڈرز پر موجود تھے۔ بلاول بھی ساتھ تھے۔ تحریک انصاف کو یہ اندازہ تھا کہ بلاول آج تقریر کریں گے۔ سپیکر کو بھی بتا دیا گیا تھا۔ اب سپیکر صاحب کو پتا ہے کہ اگر بلاول نے تقریر کرنا ہے تو پھر مراد سعید کا ہونا ضروری ہے۔ پہلے سپیکر کو بتایا گیا کہ بلاول ڈھائی بجے تقریر کریں گے۔ اس کے لیے مراد سعید کو بھی بتایا گیا؛ تاہم اچانک سپیکر کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ بلاول آج تقریر نہیں کریں گے۔ مراد سعید اپنے گھر چلے گئے۔ اچانک پیپلز پارٹی نے اپنی حکمتِ عملی بدلی اور سپیکر کو بتایا گیا: بلاول ساڑھے چار بجے تقریر کریں گے۔ مراد سعید کو بھی پتا چل گیا کہ تقریر ہونی ہے تو وہ ہائوس میں لوٹ آئے۔
اب مراد سعید کو ہال میں دیکھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت شش و پنج میں تھی کہ کیا کیا جائے۔ اس پر پیپلز پارٹی نے بیک ڈور چینلز پالیسی پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ اندر کی خبر یہ ہے ایم این اے شازیہ مری کو مراد سعید کے پاس بھیجا گیا۔ شازیہ مری سمجھدار ایم این اے سمجھی جاتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے ان لوگوں میں سے ہیں جو اچھی گفتگو کرتے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ شازیہ کی ہائوس میں بھی عزت کی جاتی ہے‘ لہٰذا انہیں پیغام دے کر مراد سعید کے پاس بھیجا گیا۔ مراد سعید سے کہا گیا کہ اگر وہ تقریر نہ کریں تو جواباً ان کے ایک ایم این اے ان کے خلاف تقریر نہیں کریں گے۔
مطلب یہ تھا کہ اگر آپ نے سخت تقریر کی تو اس کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی نے ایک ایم این اے تیار کیا ہوا تھا۔ پتا چلا کراچی سے پیپلز پارٹی کا یہ ایم این اے دراصل پختون ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے بہت سارے ایم این اے اور وزرا کے قریب تھا اور وہاں پشتون کارڈ کھیلا جا رہا تھا؛ تاہم مراد سعید آمادہ نہ ہوئے۔ شازیہ مری نے کوشش کی کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے لیکن مراد سعید کا کہنا تھا کہ محض حقائق پر بات کرتے ہیں‘ کسی کو ذاتی حملے کا نشانہ نہیں بناتے۔ اگر عمران خان کو سلیکٹڈ نہیں کہا جائے گا تو وہ بھی جواباً پارلیمانی زبان میں جواب دیں گے‘ کوئی گری ہوئی بات نہیں کریں گے۔
اس کے باوجود بلاول شش و پنج کا شکار تھے کہ مراد سعید کی موجودگی میں کیا تقریر کرنی چاہیے؟ اس لیے جب بلاول اور زرداری کو بتایا گیا کہ مراد سعید کسی ڈیل پر تیار نہیں‘ تو پھر دو فیصلے کیے گئے۔ ایک یہ کہ جونہی بلاول کی تقریر کے بعد مراد سعید تقریر کے لیے کھڑے ہوں گے‘ بلاول‘ زرداری اور پیپلز پارٹی چلی جائے گی۔ دوسرے‘ کراچی سے پختون ایم این اے کو کہا گیا کہ وہ مراد سعید پر ذاتی حملے کریں تاکہ کونڈولیزا رائس اور دیگر کتابوں کے ریفرنس جو مراد سعید نے دیے تھے‘ ان کا اثر زائل کیا جائے۔
پیپلز پارٹی جس طرح مراد سعید پر ذاتی حملوں پر اتر آئی ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر یہ جنگ ہار چکی ہے‘ بلکہ ایسے حملے کرکے دراصل وہ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو پر ہونے والے حملوں کا جواز پیش کر رہے ہیں کہ جب آپ کسی کو سیاسی طور پر شکست نہیں دے سکتے تو پھر اس پر ذاتی حملے کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے مراد سعید پر جو ذاتی حملے کیے‘ وہ دراصل بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی ذات پر گھٹیا اور غلیظ حملے کرنے والوں کی جیت ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کی اخلاقی شکست ہے، مراد سعید کی نہیں!