کنےِ کنِے جاناں بلو دے گھر!

مولانا بےکنار گڑ گانوی اگرچہ مزاجاً بہت خشک واقع ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ایک طویل عرصے سے مجھے ان کی نیاز مندی کا شرف حاصل ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ جب وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے اپنے خول سے نکلنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک اضافی کرم یہ بھی ہے کہ وہ میری الٹی سیدھی باتیں بھی سن لیتے ہیں اور ان کا برا بھی نہیں مانتے۔ گزشتہ روز ان سے سرِراہ ملاقات ہوئی تو میں انہیں ایک کیفے میں لے گیا۔ میں نے چائے کے ساتھ پیٹیز وغیرہ کا آرڈر دینا چاہا تو مجھے منع فرما دیا اور کہا کہ مجھے کھانسی ہے اور ڈاکٹر نے چکنائی والی چیزوں سے پرہیز کا کہا ہے۔

میں نے پوچھا کس کا علاج کرا رہے ہیں؟ بولے ہمارے محلے کے ایک ڈاکٹر ہیں مجھ ناکارہ خلق کے عقیدت مند ہیں، انہی کے زیرِ علاج ہوں۔ وہ مجھے ایک کف سیرپ دیتے ہیں جس کی ایک خوراک ہی سے مجھے کافی افاقہ ہوتا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا حضرت کیف سیرپ کی ایک خوراک، خوراک کو خوراک نہیں پیگ کہتے ہیں۔ پوچھنے لگے یہ پیگ کیا ہوتا ہے۔ میں نے کہا وہی جس کے پینے سے آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ فرمایا آپ نے اچھا کیا بتا دیا ورنہ میں تو اکثر سونے سے پہلے کف سیرپ کے تین چار پیگ معاف کیجے خوراک لے لیا کرتا تھا۔

بیرا چائے لے کر آیا تو میں نے مولانا کو کہا حضرت بہت دنوں سے ایک سوال ذہن میں کلبلا رہا ہے، مگر مجھے اس کا مناسب جواب نہیں ملتا۔ بولے آپ بتائیں ممکن ہے میں آپ کا خلجان دور کر سکوں۔ میں نے عرض کی اسلام میں تفریح کے حوالے سے کچھ لوگ کنفیوژن پھیلاتے ہیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ سارے دن کی تھکاوٹ کے بعد اعصاب کو سکون دینے کے لئے کون سی تفریح اختیار کی جاسکتی ہے۔ بولے اعصاب کو سکون تو صرف اللہ کے ذکر ہی سے مل سکتا ہے، میں نے بجا فرمایا لیکن عبادت کو تفریح تو نہیں کہا جا سکتا، کہنے لگے آپ کی بات بھی صحیح ہے، چنانچہ اسلام نے ان تمام تفریحات کی اجازت دی ہے جو آپ کے اخلاق کو بگاڑنے والی یا اللہ کی یاد سے دور لے جانے والی نہ ہوں۔

میں نے پوچھا ایسی کون سی تفریحات ہیں۔ مولانا کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے آپ ماشاء اللہ عاقل و بالغ ہیں آپ اس ضمن میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا، چنانچہ میں نے پوچھا کیا ہم ہلکی پھلکی موسیقی سن سکتے ہیں، فرمایا ہرگز نہیں یہ اسلام میں حرام ہے۔ میں نے عرض کی جس موسیقی کی میں بات کررہا ہوں وہ نہ تو اخلاق بگاڑنے کا سبب بنتی ہے اور نہ اللہ کی یاد سے دور لے جانے والی ہے اور پھر مولانا جعفر شاہ پھلواروی اور کئی دوسرے علماء نے موسیقی کی حلت کے حوالے سے بےشمار اسناد پیش کی ہیں۔ اس پر حضرت نے خشگمیں نظروں سے مجھے دیکھا اور فرمایا تو پھر یہ سوال آپ مجھے سے کیوں کررہے ہیں انہی سے کریں جنہیں آپ فہم دین میں مجھ سے بہتر خیال کرتے ہیں۔

میں حضرت کو ناراض کرنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے دل میں ان کے لئے بےکنار احترام ہے، چنانچہ میں نے موسیقی کا باب وہیں بند کیا اور کہا چلیں چھوڑیں میں اگر فارغ اوقات میں فوٹوگرافی کا مشغلہ اختیار کروں تو کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ بولے اسلام میں فوٹو گرافی حرام ہے۔ میں نے کہا لیکن حضرت تمام علماء بڑے شوق سے تصویر اترواتے ہیں اور اگر اخبار میں ان کی تصویر شائع نہ ہو تو شکایت کرتے ہیں۔ فرمایا علماء اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ اس پر مایوس ہو کر میں نے ان سے پیٹنگ، فلم بینی، سنگ تراشی اور میلوں ٹھیلوں کی رونقوں اور دیگر مشاغل کے بارے میں دریافت کیا، مگر ان سب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام شیطانی کام ہیں۔

میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ قبلہ اگر انسانی جذبوں کی تہذیب کرنے والے تمام فنون لطیفہ حرام ہیں تو پھر کسی صالح قسم کی تفریح کی نشاندہی ہی کردیں تاکہ لوگ اپنے تمام دن کی تھکن اتار سکیں۔ اس پر حضرت نے فرمایا آپ عمدہ اور لذیذ کھانا کھا سکتے ہیں، کرکٹ کھیل سکتے ہیں اور اس طرح دوسری کھیلوں مثلاً فٹ بال، ٹینس اور ہاکی وغیرہ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اسلام ان میں سے کسی تفریح کو حرام قرار نہیں دیتا، میں نے پوچھا اگر کسی شخص کو ان میں سے کسی بھی تفریح کے ساتھ کوئی رغبت نہ ہو یا اس کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے مہیا نہ ہوں یا اس کی صحت اجازت نہ دیتی ہو تو وہ کیا کرے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اس سوال پر حضرت پہلی دفعہ بدمزہ ہوئےہیں چنانچہ بولے یہ تو آپ کٹ حجتی پر ا تر آئے ہیں۔چنانچہ میں نے مزید کٹ حجتی مناسب نہ سمجھی اور سوال کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا سازو آواز کے ساتھ منعقد ہونے والی محفل سماع کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔

فرمایا یہ جائز ہے لیکن اس کیلئے قوال حضرات کا نیک پارسا اور متقی ہونا ضروری ہے، نیز شرکاء بھی باوضو ہوں اور ان کے دل اللہ سے جڑے ہوئے ہوں۔ میں نے دل میں سوچا یہ تو اجازت نہ دینے والی باتیں ہیں ۔ میرے ذہن میں ابھی اور بھی بہت سے سوال تھے جو میں نے حضرت سے کرنا تھے لیکن اس درمیان اچانک ابرارالحق کا گانا ’’کنِے کنِے جانا اے بلو دے گھر‘‘ فضائوں میں گونجنے لگا۔ میں نے گھبرا کر بیرے سے کہا بند کرو یہ خرافات دیکھتے نہیں قبلہ و کعبہ یہاں تشریف فرما ہیں۔ اس پر یہ بدتمیز بیرا ہنسا اور بولا جناب یہ گانا خود حضرت صاحب کے موبائل سے سنائی دے رہا ہے۔ میں نے حضرت کی طرف دیکھا توانہوں نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا اللہ جانے کس بدبخت نے یہ رنگ ٹون میرے موبائل میں بھری ہے شاید میرے بچوں میں سے کسی کی حرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور پھر وہ مجھے خدا حافظ کئے بغیر ریسٹورنٹ سے باہر چلے گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے