گزشتہ ہفتے ایک نیوز چینل کے ٹاک شو کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس میں نظر آ رہا ہے کہ ایک معزز مہمان دوسرے معزز مہمان کو تو تو میں میں کے بعد مکے مار رہا ہے اور مکہ زدہ مہمان مکے باز کو لپٹ گیا ہے اور گالیوں کے تبادلے اور ’’ میں تجھے دیکھ لوں گا ’’ٹائپ جملوں کے بعد جب ضارب اور مضروب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تب ٹاک شو کا میزبان آگے بڑھتا ہے اور دونوں کو شانتی بنا کے رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔یہ تلقین اتنی پر تاثیر ہے کہ مکے باز اور مکہ زدہ دونوں ایک بار پھر ہنسی خوشی ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور پھر تجزیہ شروع ہو جاتا ہے۔گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
ٹاک شوز میں گالم گلوچ ، گریبان پر ہاتھ اور دھکے بازی اب روزمرہ کا معمول ہے۔اینکر کو بھی حالات سنبھالنے کی جلدی نہیں ہوتی کیونکہ ایسے مناظر وائرل ہو کر اینکر، ٹاک شو اور چینل کی ریٹنگ کو بخار کی طرح بڑھانے کے کام آتے ہیں۔مگر جس تازہ واقعہ کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ اس لحاظ سے دیگر سے مختلف ہے کہ اس میں پٹنے اور پیٹنے والا کوئی سیاستداں نہیں تھا۔بلکہ تحریکِ انصاف کا ایک صوبائی رہنما مسرور سیال ملک کے سب سے بڑے پریس کلب کے صدر امتیاز فاران کو پیٹ رہا تھا۔ایسے مواقع پر کوئی معمولی اعصاب کا شخص ہوتا تو شو کا بائیکاٹ کر کے واک آؤٹ کر جاتا۔ مگر آفرین ہے کراچی پریس کلب کے صدر پر کہ وہ پٹنے کے باوجود اس شو میں آخر تک ڈٹے رہے ۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ایک صحافی کے کردار کی عظمت ، فراخ دلی اور درگزر کی انتہا ہے تو آپ بالکل ٹھیک نہیں سمجھ رہے۔درگزر کی انتہا دراصل یہ ہے کہ وڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہونے سے پہلے کسی کو خبر ہی نہیں تھی کہ پریس کلب کے صدر کے ساتھ ایسا کوئی افسوسناک واقعہ ہوا ہے۔صدرِ ذی وقار اس واقعے کو یوں پی گئے کہ پریس کلب کی منتخب باڈی تک کو نہیں بتایا۔
وہ تو کسی ستم ظریف نے تین چار دن بعد جب وڈیو لیک کر دی تب صدر صاحب نے بھی اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا بادلِ نخواستہ نوٹس لے لیا اور بازو پر سیاہ پٹی باندھ لی۔چنانچہ دیگر صحافیوں نے بھی امتیاز فاران پر حملے کو پریس کلب کے عہدہِ صدارت پر حملہ سمجھ کر کلب کے گیٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سندھ اسمبلی کا بائیکاٹ بھی ہوا۔صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور ایک قرار داد بھی منظور کی جس میں پی ٹی آئی سے اس واقعہ کا سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔پی ٹی آئی کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خصوصی معاون برائے سیاسی امور نعیم الحق نے شدید مذمت کی۔حملہ آور مسرور سیال کی پارٹی رکنیت عارضی طور پر معطل ہو گئی اور اسے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔
نعیم الحق چونکہ خود بھی ایک ٹاک شو میں پیپلز پارٹی کے رہنما جمیل سومرو کو گلاس کھینچ کے مار چکے ہیں اور ایک اور ٹاک شو میں مسلم لیگ نواز کے رہنما دانیال عزیز کو تھپڑ رسید کر چکے ہیں لہٰذا نعیم الحق سے زیادہ کون ایسے معاملات کی حساسیت سمجھ سکتا ہے۔وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری جنھوں نے دو ہفتے پہلے ہی فیصل آباد میں ایک شادی کی تقریب میں برقی میڈیا کے صحافی سمیع ابراہیم کی برق رفتارانہ پینٹھی لگائی تھی انھوں نے بھی پریس کلب کے صدر پر پی ٹی آئی کے مقامی رہنما کے حملے پر افسوس کا اظہار کیا۔
کراچی پریس کلب اکسٹھ برس سے قائم ہے۔ اس کا ایک شاندار ماضی ہے۔سن ساٹھ ، ستر ، اسی کی دہائی میں صحافیوں کی ہر تحریک یہاں سے اٹھتی تھی۔ ضیا الحق کے دور میں کراچی پریس کلب پورے ملک میں واحد جگہ تھی جہاں دھڑلے سے سیاسی جلسے اور پریس کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ مگر کسی حکومت کو جرات نہیں ہوئی کہ بلا اجازت اس کے کارندے گیٹ سے اندر داخل ہو سکیں۔ایوب خان ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کہ ضیا الحق کہ پرویز مشرف، ان سب کی بڑی خواہش تھی کہ پریس کلب میں مدعو کیے جائیں مگر یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔یہ وہ کلب تھا جس کی اعزازی رکنیت کا ملنا کسی اعزازی پی ایچ ڈی سے کم عزت افزا نہیں تھا۔مگر یہ سب ماضی ہے۔کچھ بزرگوں سے سنا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔اب تو یوں ہے کہ ،
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
ووٹ بینک برقرار رکھنے کی لالچ میں رکنیت حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کی طرح بانٹی گئی۔پچھلے ایک ماہ سے صدر دروازے پر ایک شفاف ڈبہ رکھا ہے تاکہ اگر کسی کو کسی کی رکنیت پر اعتراض ہو تو وہ اس ڈبے میں پرچی ڈال دے۔آج تک یہ ڈبہ خالی ہے۔ایک آدھ مبینہ دہشت گرد بھی ماضیِ قریب میں یہاں کی رکنیت کے کارڈ سمیت پکڑا گیا۔انٹیلی جینس ایجنسیاں دیدہ دلیری سے عمارت کے اندر تلاشی لینے کے لیے گھستی رہیں اور پھر اسے غلط فہمی سمجھ کر درگزر کیا جاتا رہا۔
جب تک صحافی کنگلا تھا دبنگ تھا اب صحافی خوشحال ہے۔لہٰذا اپنے حقوق کے مطالبات کے بینرز بھی پریس کلب کے باہر لگانے کے بجائے اندر کچھ اس طرح لگائے جاتے ہیں کہ جس کی مذمت میں لگے ہیں اس کی کہیں نظر نہ پڑ جائے۔
جب صحافتی تنظیمیں اور عہدیدار زبانی جمع خرچ کے ایکسپرٹ ہو جائیں۔جب ہر ایک کو ہر ایک کے بارے میں پتہ ہو کہ اس کے مفادات اور ڈانڈے کہاں کہاں جڑے ہیں تو پھر نعرے خالی برتن کی طرح بجتے ہیں اور تقاریر الفاظ کا لایعنی ملغوبہ ہو جاتی ہیں اور مکے صرف ہوا میں ہی چلتے ہیں۔
اگر اب سے تیس برس پہلے اسی پریس کلب کے صدر چھوڑ کونسل ممبر کو بھی چانٹا پڑ جاتا تو ملک گیر سطح پر ہڑتال ، دھرنے اور گھیراؤ برپا ہو جاتے۔مگر تیس برس پہلے کسی کی ایسی جرات ہی کیوں ہوتی۔سب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ صحافی اہلِ زر نہیں مگر کوئی زر اس کے ضمیر کے برابر بھی نہیں۔
آج صورت یہ ہے کہ پریس کلب کی کابینہ نے تین دن کے لیے تحریکِ انصاف کی قیادت کا احاطے میں داخلہ بند کر دیا ہے۔جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو یہ تین دن بھی گذر چکے ہوں گے۔مزید یہ کیا گیا کہ ایک دن کے لیے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احاطے کے اندر ہی کلب کی منتخب باڈی کے تحت احتجاجی نشست ہوئی۔اس میں صدر سمیت مختلف عمائدین ایسے باچھیں کھول کے وی کا نشان بنا رہے تھے گویا سری نگر فتح ہو گیا ہو۔
’’ جتنا وزن اتنی عزت ’’۔ ( ایک مراٹھی ضرب المثل )۔