موضوع ایسا سنگین ہے کہ فیض صاحب کے دل آویز، نرم خو، ملال انگیز لہجے سے بات نہیں بنے گی۔ فیض صاحب نے گردش لیل و نہار کی کٹھنائیوں کے لئے ضبط حال کا جو نسخہ اختیار کیا تھا، اس کا خمیر علم، ایقان، ریاضت اور نگہ دور رس سے اٹھا تھا۔ دھوپ اور سویرے کی ایسی راس رچانا فقط آرزو کی بات نہیں، اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ پس منظر پر غور فرمائیے۔ بغاوت کا مقدمہ ہے، غداری کا الزام ہے، قید تنہائی ہے، ایذا رسانی کی آزمائش ہے، تابع فرمان اخبارات میں اداریے پر اداریہ نکل رہا ہے کہ غداروں کے اس ٹولے کو جلد از جلد پھانسی دی جائے۔
روایت کی جاتی ہے کہ ایک روز عدالت میں منصف نے بھی حیرانی سے کہا، فیض، اٹارنی جنرل عدالت میں تمہارے لئے سزائے موت کا مطالبہ کرتا ہے اور سرشام اپنے کمرے میں بیٹھ کر کف افسوس ملتا ہے کہ ایسا شاعر کہاں سے لاؤں گا جو موت کے سائے میں بھی لیلائے وطن کی چاہت سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں اور کہتا ہے، نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ بات سادہ تھی۔ فیض اور ان کے رفیق اپنے نقوش قدم سے پاکستان میں دو قومی نظریے کی نئی تشریح رقم کر رہے تھے۔
بابائے قوم کی قیادت میں تقسیم ہند کے مطالبے پر سیاسی کشاکش میں دو قومی نظریے کے جو خدوخال متشکل ہوئے وہ 14اور 15اگست 1947کی درمیانی شب غیر متعلق ہو گئے۔ قائد اعظم کا موقف تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں، دو اقوام بستی ہیں، چنانچہ برٹش ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ تین جون 1947کو تسلیم کر لیا گیا۔
ہندوستان اور پاکستان دو الگ الگ قومی ریاستیں قرار پائیں۔ دونوں ریاستوں میں مشترکہ تاریخ، جغرافیائی ہمسائیگی اور مسلمہ بین الاقوامی قوانین کے سوا کوئی آئینی، سیاسی اور انتظامی تعلق باقی نہ رہا۔ اب پاکستان ایک نئی اور غیر ملکی حکمرانی سے آزاد قومی ریاست تھی جہاں کے عوام کو اپنی زمیں پر اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکمرانی کا حق مل گیا تھا۔ دو قوموں کا خرخشہ ختم ہوا اور پاکستان میں ایک قوم کی تعمیر کا مرحلہ سامنے آیا۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947کو ریاست پاکستان کے خدوخال بیان کئے تھے کہ پاکستان میں سب شہریوں کو ایک جیسے آئینی، سیاسی اور معاشی حقوق حاصل ہوں گے۔ ہر شہری کو یکساں مذہبی آزادی ملے گی۔ ریاست کا منصب شہریوں کی حفاظت اور ترقی کو یقینی بنانا ہو گا۔ قائد اعظم کی اس تقریر کو سنسر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس سانحے کی واقعاتی تفصیل تو ایک سے زائد مستند کتابوں میں مل جائے گی۔ اس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
18ویں صدی میں یورپی اقوام کے قدم ہندوستان میں پہنچے تو انسانی تاریخ سلطنت کے عہد سے گزر رہی تھی۔ سیلابی دلدل کی طرح پھیلتی اور سکڑتی سلطنتوں کا جواز فوجی قوت سے اخذ کیا جاتا تھا۔ جنوبی یورپ کی چھوٹی سی ریاست اسپین نے لاطینی امریکا پر قبضہ کر رکھا تھا۔ باسفورس کے ساحلوں سے نکل کر سلطنت عثمانیہ نے مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ تک قدم پھیلا رکھے تھے۔ وسط ایشیا پر زار روس کا سکہ چلتا تھا۔ وسط ایشیا میں شکست کھانے والے افغانستان کے راستے ہندوستان پر چڑھ دوڑتے تھے۔ براعظم افریقہ فرانس اور برطانیہ کی محروسہ اقلیم تھی۔ جنوبی امریکا کے کھیتوں میں افریقہ سے پکڑ کر لائے گئے غلام مشقت کرتے تھے۔ نشاۃ ثانیہ میں دریافت اور ایجاد کے انقلاب نے جہاں انسانی ترقی کے نئے در وا کئے، وہاں انسانیت کے بڑے حصے کو غلاموں کی منڈی میں بھی تبدیل کر دیا۔ ان حالات میں برطانیہ کے طالع آزماؤں نے پرتگیزی اور فرانسیسی حریفوں کو شکست دے کر ہندوستان میں قدم جمائے۔
ہندوستان پر برطانوی قبضے کی دو صدیوں میں قومی ریاست کے تصور نے سلطنت کی جگہ لے لی۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے جدوجہد قومی ریاست اصولی ڈھانچے کی بنیاد ہی پر کی گئی۔ ہندوستان میں برطانوی حکمرانوں کا تسلط تین اداروں کا مرہون منت تھا؛ فوج، سول انتظامیہ اور عدلیہ۔ مٹھی بھر برطانوی شہریوں اور بھاڑے پر لئے مقامی ملازموں کی اس ریاستی مشینری کے لئے بنیادی سیاسی فیصلے لندن میں ہوتے تھے۔ ہندوستان کے 30کروڑ باشندوں کا جنگ، محصولات اور قانون سازی میں دخل نہیں تھا۔ حاکم اور محکوم کے اس بندوبست میں دھرتی کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنی قسمت پر اختیار نہیں تھا۔ ریاست اور باشندوں میں یہ دوئی ہی معاشی اور سیاسی استحصال کا میکنزم تھی۔ آزادی کا مقصد ریاست کے انتظام کو شہریوں کے تابع کرنا تھا۔
غیرملکی تسلط سے ورثے میں ملنے والے عسکری، انتظامی اور عدالتی اداروں کی مراعات یافتہ حیثیت ختم کر کے انہیں سیاسی، تمدنی اور علمی قیادت کے تابع کرنا تھا۔ قائد اعظم کی تقریر سنسر کرنا انتظامی افسروں کی ابتدائی مزاحمت تھی۔ اکتوبر 1947میں فرینک میسروی کی طرف سے قائد اعظم کی حکم عدولی ریاستی زورآوری کا دوسرا اظہار تھا۔ قرارداد مقاصد کی منظوری اس لے پالک سیاسی قیادت کے جمہوری انحراف کا شاخسانہ تھی جو غیرسیاسی راستوں سے اقتدار تک رسائی چاہتی تھی۔ عدلیہ نے غلام محمد کے فیصلوں کی توثیق کر کے یہ صف بندی مکمل کر دی۔ پاکستان کی سیاسی قیادت منہ زور ریاستی اداروں پر کاٹھی ڈالنے میں ناکام رہی۔ یہ پاکستان میں دو قومی نظریے کی نئی تشکیل تھی۔
پاکستان میں سیاسی کشمکش کے دو فریق ہیں، ایک طرف جمہور کے حق حکمرانی کی تکذیب کرنے والے اہلکار اور ان کے حواری ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے بے دست و پا عوام ہیں۔ ریاست ظالم اور غیر منصفانہ ہے، عوام ناخواندہ اور غریب ہیں۔ اس غیرمتناسب صف بندی کے باوجود عوام سیاسی جماعتوں، صحافت اور تمدنی اداروں کی صورت میں مدافعت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ پاکستان ایک قوم کے طور پر آزاد ہوا تھا مگر آج یہاں دو قومیں بستی ہیں، قوم کی یہ تقسیم عمودی بھی ہے اور افقی بھی۔ صحافت ہی کو لیجئے۔صحافی کے ہر لفظ پر اس کی قومیت کی مہر ہے۔
اس کے موضوعات بتاتے ہیں کہ وہ خط تقسیم کے کس طرف کھڑا ہے۔ ادیب کا قلم گواہی دیتا ہے کہ وہ قیدی پرندوں کا رجز لکھتا ہے یا سرکاری اشاعت گھر سے مثبت خبریں ارسال کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا نوحہ صاف کہے دیتا ہے کہ سیاسی بالغ نظری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یا غیر سیاسی مداخلت کا جواز تراشا جا رہا ہے۔ معیشت کا تجزیہ بتاتا ہے کہ قوم کے پیداواری امکان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یا عوام کی ہڈیوں سے توانائی کی آخری رمق نچوڑنا مقصود ہے۔ پاکستان میں دو قومی نظریہ کی کشاکش ابھی زندہ ہے۔ ہر شہری کو اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے کہ اسے بابائے قوم کے موعودہ فلاحی جمہوری بندوبست کے لئے کھڑے ہونا ہے یا اپنے حصے کی رسد محفوظ رکھنے کے لئے شائی لاک کی تائید کرنا ہے۔