چینی زبان کچھ ایسی ہے کہ اس کا رسم الخط اور صوتی نظام دونوں ہی مشکل سے پّلے پڑتے ہیں اور اگر انھیں انگریزی کی معرفت سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بالکل ہی سمجھ سے باہر ہوجاتے ہیں ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ٹینجن والے ہوٹل کا تھا کہ اس کا انگریزی حروف میں نام Tian Cai Hotel تھا جب کہ چینی میزبان اسے تھیان شائی بولتے تھے، یہ زبان دائیں یا بائیں کے بجائے کسی تیسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ ایک علامتی تصویری زبان کا سا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق بیسویں صدی میں بہت سی تبدیلیا ں کی گئی ہیں تاکہ یہ مزید آسان ، قابل فہم اور لائقِ ترجمہ ہوسکے البتہ جہاں تک اس میں تحریر و اشاعت کا تعلق ہے یہ ایک باقاعدہ مضبوط اور امیرزبان کے طور پر دنیا کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں رکھی جاسکتی ہے ۔
بیجنگ کی طرح ٹینجن میں بھی رائٹرز کے لیے ایک وسیع عمارت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہمارے میزبانوں میں وانگ نامی خاتون پیش پیش تھی کہ صرف وہ گزارے لائق انگریزی بول سکتی تھی، یہ اور بات ہے کہ اُس کی مسکراہٹ اور گرم جوشی زیادہ لیکن زبان پر دسترس اُسی قدر کم تھی اگرچہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے چین میں انگریزی پڑھنے اور سیکھنے کا رجحاں بوجوہ تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو چینی کے علاوہ انگریزی یا کسی اور زبان میں آسانی سے بات چیت کرسکتے ہوں۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ انھوں نے انگریزی کو نظریہ ضرورت کے تحت تو مطلوبہ اہمیت دی ہے مگر ہماری طرح اسے اسٹیٹس سمبل نہیں بنایا۔ یہ لوگ اپنی زبان بولنے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیںجو بلاشبہ ایک بہت قابل تعریف بات ہے۔
میٹنگ ہال میں رائٹرز ہائوس سے براہ راست متعلق میزبانوں کے علاوہ سینئر اور جونیئر ہر محفل کے ادیب جمع تھے البتہ ایک قدرے نوجوان نظر آنے والے یونیورسٹی پروفیسر کے علاوہ کسی کو بھی پاکستانی ادب کے بارے میں سِرے سے کچھ پتہ نہیں تھا۔ جو اپنی جگہ پر ایک تکلیف دہ اور قابلِ غور بات ہے کہ سات دہائیوں پر محیط طویل اور گہری دوستی کے دعووں کے پس منظرمیں اس صورتِ حال کو بہت بہتر ہوناچاہیے تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بھارتی فلموں کے لیے چین اب ایک باقاعدہ منڈی کی شکل اختیار کر چکا ہے جب کہ نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک (فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ اور ٹی وی سیریل ’’وارث‘‘ سے قطع نظر) چینی عوام کو کوئی پاکستانی فلم یا ڈرامہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
سفیر صاحب اور ان کے ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ اب وہاں ائیرفورس کے پس منظر میں بنائی جانے والی ایک حالیہ فلم ’’پرواز ہے جنون‘‘ کی ریلیز پر کام ہو رہا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ تعلق مسلسل اور پائیدار ہوتا چلاجائے گا۔ اس میٹنگ کی سب سے زیادہ یاد رہ جانے والی بات میزبانوں کی گرمجوشی تھی کہ زبان و ادب کے حوالے سے دونوں طرف تقریباً ایک جیسی ناواقفیت چل رہی تھی۔
ہماری ساتھی شاعرہ بشریٰ فرخ نے حسبِ معمول چین میں خواتین لکھنے والیوں کی تعداد ،معیار اور پسندیدہ موضوعات پر سوال کیا جس کے جواب میں میٹنگ میں موجود چھ سات خواتین نے جو جواب دیا، اُس کا عمومی مفہوم یہی تھا کہ ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘ ڈاکٹر ادل سومرو کی سیلفیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ میزبانوں کی گرمجوشی کے باعث اس میں مزید شدّت پیدا ہوگئی کہ مقامی مترجم میزبان بار بار یاد آرہا تھا کہ ’’یہ تبسم ّ یہ تکّلم مِّری عادت ہی نہ ہو‘‘ اس پر مستزاد اُس کا عمر چور اور خوش باش چہرہ تھا جو کسی بھی اجنبی کو مختلف قسم کے مخمصوں میں ڈال سکتا تھا۔
ہوٹل میں پہنچ کر واٹس ایپ کا رابطہ تو بحال ہوگیا مگر باقی کے سارے سسٹم یہاں بھی تقریباً معطل رہے ۔ جہلم سے بُک کارنروالے برادرم امر شاہد نے میری زیرِ طبع کتاب ’’ذرا سی بات‘‘ کا ٹائٹل اور ابتدائی صفحات رائے کے لیے بار بار بھجوائے مگر ہر بار وہ راستے ہی میں رہ گئے کہ تحریری پیغام اور تصاویر دونوں کا ٹیکنالوجی سے کوئی سمجھوتہ ممکن نہ ہو سکا۔ گھر والوں سے خیروعافیت معلوم کرنے کے بعد عائشہ بلال سے رابطہ کیا کہ جس کا شوہر اور میرا بہت عزیزی ڈاکٹر احمد بلال کسی مشکل سی بیماری میں مبتلا ہوکر میو اسپتال کے نیوروسرجری وارڈ میں زیرِ علاج تھا اور اُسے پانچ بارخون کی مکمل صفائی کے عمل سے گزرنا تھا۔
معلوم ہوا کہ ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق علاج کی سمت بھی صحیح ہے اوراُس کے مثبت اثرات بھی حسبِ توقع ہیں۔ رب کریم اُسے جلد صحت یاب فرمائے۔ اسی دوران میں کوریا میں مقیم ایک ادب دوست پاکستانی نسیم سے بھی رابطہ بحال ہوا اور ایک بار پھر دل اللہ کی رحمت کے بے پاباں احساس سے بھر گیا کہ اُس نے ہمیں کیسی کیسی نعمتوں اور محبتوں سے سرفراز کیا ہے کہ لاکھوں لوگ ہمیں اپنی دعائوں میں یاد رکھتے ہیں۔
اگلا دن یعنی 20 جون شہر کی سیر اور نامور چینی ادیب کا ویو کے میوزیم کی سیر کے لیے مختص تھا۔ یہ پہلی جگہ تھی جہاں تمام معلومات انگریزی زبان میں بھی فراہم کی گئی تھیں جس سے یہ فائدہ ہوا کہ کاویو کے ساتھ ساتھ جدید چینی ادب کی تاریخ اور اس کے اہم معماروں کی تحریروں اور تصویروں کو بھی دیکھنے اور جاننے کا موقع مل گیا۔ کاویوکا یہ آبائی مکان اس کے خاندان کی خوشحالی کا بھی غماز تھا کہ اس کا رقبہ، طرز تعمیر اور ظاہری وضع قطع بمع لوکیشن اس بات پر شاہد تھے کہ موصوف کا تعلق اپنے عہد کے متمول افراد کی برادری سے تھا، یہ اور بات ہے کہ اس کا ادب عوام اور نچلے طبقوں سے محبت اور ان کے حقوق کی جدوجہد کی حمائت سے بھرپور تھا۔ بیرونی دروازے پر نصب اس کی تصویر کے ساتھ یہ عبارت درج تھی (ترجمہ)
’’کاویو (1910-1996)کا اصل نام وان جیا بائو عرف شائوشی تھا۔ وہ اپنے آبائی گھر ٹینجن شہر کے ایک علاقے کیاں جیانگ میں پیدا ہوئے جو صوبہ ہوبائی کا حصہ تھا۔ اُس نے بہت سے تاریخ ساز ڈرامے لکھے یا اُن کا ترجمہ کیا جن میں سے ’’طوفانِ بادوباران‘‘ ، ’’طلوعِ آفتاب‘‘،’بیجنگ کے عوامی گیت‘‘،’’وانگ زیائوجن‘‘ اور ’’رومیو جیولیٹ ‘‘ زیادہ مشہور ہوئے۔ کاویو نے اپنا بچپن اور نوجوانی کے دن اسی عمارت میں گزارے جس کا ماحول، محبت، جذبات، خلوص اور مسرت سے معمور تھا اور جس کے دوران اُس نے عوام اور معاشرے سے گہرا تعلق استوار کیا اور ابتدائی عمر سے ہی اس رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ اس کے بیشتر کردار کم و بیش اس زمانے اور ماحول کی دین ہیں۔ یہ عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے جو کہ اٹالین انداز میں تعمیر کی گئی ہیں۔ عمارت کے اندر مختلف کمروں میں اس کی یادگاروں ، تصویروں اور کتابوں کو بہت عمدہ طریقے سے محفوظ کرکے رکھا گیا ہے ۔ہم سب نے یہاں تصویریں بنوائیں لیکن پہلا نمبر یہاں بھی ڈاکٹر ادل سومرو کی سیلفیوں ہی کا رہا۔
میزبان سے گفتگو کے د وران معلوم ہوا کہ اس شہر میں نہ صرف مسلمانوں کی دو مسجدیں ہیں بلکہ ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں اُن کی کثر ت ہے اور وہاں حلال کھانا فراہم کرنے والے ریستوران بھی موجودہیں ۔ اب ظاہر ہے اس کے بعد ہمارا وہاں جانا ہر اعتبار سے بنتا تھا سو ہم میوزیم کے بعد پہلے مسجد اور پھر مسلم ریستوران میں گئے۔ مسجد اُس وقت بند تھی سو اُسے تو صرف باہر سے ہی دیکھ سکے مگر مسلم ریستوران کا تجربہ خاصا مایوس کن رہا کہ ایک تو وہاں صفائی کا انتظام خاصا ناقص تھا اور دوسرے یہ بھی آخر تک پتہ نہ چل سکا کہ جو کچھ ہم نے کھایا وہ ذبیحہ تھا بھی یا نہیں؟۔
کھانے کے بعدہمیں ایک بار پھر بہت سی سڑکوں پر بار بار گھمانے کے بعد شاپنگ کے لیے ایک اربن مارکیٹ نما جگہ پر لے جایا گیا جہاں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ دھوپ زیادہ تیز ہے یا اشیاء کے نرخ۔میں نے ایک قہوہ دانی خریدی جو بلاشبہ بہت خوبصورت تھی مگر جس کی قیمت پاکستانی روپیوں میں تقریباً سات ہزار بتائی گئی جب کہ سودا سوا چار ہزار پر طے ہوا ۔ سودے بازی میں اس قدر گنجائش پر بہت حیران بھی ہوئے لیکن یہ حیرت اگلے روز ایک بڑے شاپنگ مال میں خریداری پر بہت کم رہ گئی، اس کی تفصیل انشاء اللہ اگلے اور اس سلسلے کے آخری کالم میں ۔