تکالیف، نامناسب حالات اور اذیت کا ایک تسلسل ہیں جو وزیرستان میں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، پہلے دہشتگردی اور پھر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں وہاں کی عوام بےتحاشا مشکلات اور مصائب سے دوچار ہوئے یہاں تک کے اپنے علاقے چھوڑ کر متاثرین کیمپوں میں رہنے لگے،ابھی وہ اس ذہنی کرب میں مبتلا تھے ،کہ ان کو واپسی کی خبر ملی، یہ خبر ان کیلئے خوشی کا باعث اس لئے بھی تھا کیونکہ ان کا کاروبار مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور بندوبستی علاقوں میں گھروں کے کرایہ، بل، اور دیگر اخراجات برداشت کرنا ان کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔
متاثرین کی واپسی اور رجسٹریشن کے عمل سے پہلے غریب طبقے نے یہ سوچے بغیر ہی کیا کہ وزیرستان واپس جانا ان کیلئے سودمند ہے بھی کہ نہیں۔۔۔۔
بس اپنے علاقے جانے کی جلدی تھی اور اس بات کی خوشی کہ اب وہاں امن ہوگا اور وہ اپنے خاندان سمیت سکون کےساتھ زندگی گزاریں گے، لیکن جب واپس پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ آزادنہ نقل و حرکت پر یہ کہہ کر پابندی لگائی گئی ہیں، کہ یہ علاقہ کلئیر ہے، اور وہ علاقہ کلئیر نہیں ہے، خوف زدہ ذہنوں پر خوف کے چھائے بادل مزید گہرے ہو گئے اور واپس آنے والے متاثرین کی خوشی پریشانی میں تبدیل ہوئی۔۔
پھر لینڈ مائینز کے دھماکے شروع ہوئے، بچے جوان، عورتیں نشانہ بننے لگے، آئے روز وزیرستان کے کسی نہ کسی ماں کی گود اجڑتی ہے، کوئی نہ کوئی تاعمر معذور بنتا رہا، جس سے وہاں کی عوام کے ذہنی اذیت میں مزید اضافہ ہوا، ذہنوں میں سوالات اٹھنے لگے کہ کیا یہ وہی وزیرستان ہیں؟
کیا واپس آنے کا فیصلہ درست تھا ؟؟
اب وزیرستان سے لوگ دوبارہ یہ سوچ کر نکل رہے ہیں کہ یہاں امن نہیں ہے، پہلے آسمان سے آگ برستی تھی، توپوں کے گولے چلتے تھے، راکٹ لانچر کا آزادنہ استعمال ہوتا تھا، لیکن کم از کم زمین تو ہمارے اوربچوں کیلئے محفوظ تھی، اب تو وہ بھی نہیں رہی۔۔ہر قدم پہ یہ ڈر لگا رہتا ہے ، قدم قدم پر مائینز بچھے ہوئے ہیں، جس کے شکار زیادہ تر بچے ہو رہے ہیں،وہ کھیلتے ہیں اور آس پاس پڑے مائینز کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
وزیرستان کی عوام مائینز کی وجہ سے جانی اور ساتھ مالی نقصانات بھی اٹھا رہے ہیں، ان کی مال مویشی مائینز کے ضد میں آتے ہیں،
قبائلی اضلاع بالخصوص وزیرستان میں عورت کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے، وہاں عورت کو ایک اعلی مقام حاصل ہے، لیکن پھر بھی اس کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اس کو دینے چاہیئے ۔۔۔۔
قبائلی اضلاع میں بھی حالات کے ظلم و ستم کا شکار بھی سب سے زیادہ یہی مائیں اور بہنیں ہوئیں۔
لینڈ مائینز میں لڑکی کا معذور ہونا کسی ناسور سے کم نہیں ہوتا، وہ پوری عمر کیلئے دوسروں کی محتاج بن جاتی ہے، زندگی اس لئے ایک چیلنج بن جاتی ہے، ہزار مشکلات اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس کا پورا خاندان ذہنی کوفت کا شکار ہوتا ہے۔۔۔۔
اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ وہ وزیرستان میں مستقل امن کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں،عوام کی قربانیوں اور مشکلات کو مدنظر رکھ کر ایسی پالیسی تشکیل دے جس کے تحت یہ جنگ زدہ و زخم خور قوم اور ان کی آنے والے نسلیں پرسکون زندگی گزار سکیں۔۔
میں ٹرائبل یوتھ مومنٹ کے جنرل سیکرٹری کی حثیت سے حکومتی اداروں سمیت ان تمام لوگوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ جو وزیرستان میں کام کر رہے ہیں وہ وہاں سے مائینز کی صفائی کرائیں اور انہیں ایسی تربیت دی جائے کہ وہ ان کی شناخت کر کے احتیاطی تدابیر کر سکیں …..لینڈ مائینز کے متعلق ان میں شعور اُجاگر کیا جائے تا کہ مزید جانی اور مالی نقصانات سے بچا جا سکے۔