جب ہم کسی شخص کو تپتی گرمی میں سیاہ کوٹ میں ملبوس دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ وکیل ہے، کسی شخص کو کلاس روم میں بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی استاد ہے، کسی شخص کو لیبارٹری میں خورد بین سے معائنہ کرتے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی سائنسدان ہے، کسی شخص کے ہاتھ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ محقق ہے، کسی شخص کو تھانے میں پولیس کی وردی میں دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ قانون کا محافظ ہے، کسی شخص کو ٹی وی پر خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ صحافی ہے اور کسی شخص کو مدبرانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ دانشور ہے۔ ہمارا یہ مشاہدہ بظاہر درست ہوتا ہے مگر اکثر اوقات حقیقت اس کے برعکس نکلتی ہے۔
دراصل یہ مختلف روپ ہیں جو ہم انسانوں نے دھار رکھے ہیں، سیاہ کوٹ میں ملبوس شخص اگر اپنے کلائنٹ سے کیے گئے معاہدے کا پاس نہیں کرتا تو وہ وکیل نہیں بلکہ دغا باز ہے، استاد اگر بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے انہیں امتحان میں نمبر لگوانے میں مدد دیتا ہے تو پھر وہ استاد نہیں بلکہ جعل ساز ہے، لیبارٹری میں خورد بین سے لپٹا شخص اگر تخلیق کرنے کے بجائے فقط گرانٹ سمیٹنے میں ہی لگا رہتا ہے تو پھر وہ سائنس دان نہیں نوسرباز ہے، تھانیدار اگر پولیس کی وردی میں جعلی مقابلوں میں بندے مارتا ہے تو پھر وہ قانون کا محافظ نہیں بلکہ قاتل ہے اور اسی طرح اگر کوئی ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ افروز ہو کر جھوٹا پروپیگنڈا کرتا ہے تو وہ دانشور نہیں بلکہ جوزف گوئبلز ہے۔ جس طرح ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ اسکول کالج میں داخل ہونے والا ہر بچہ تعلیم حاصل کر رہا ہے بالکل اسی طرح ہمیں یہ بھی خوش فہمی ہے کہ ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر خوبصورت باتوں کے موتی بکھیرنے والے سب لوگ دانشور ہیں۔
گیان، عقل یا دانش کسی کی میراث نہیں، کوئی بھی شخص چاہے امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، درویش ہو یا دنیا دار، بادشاہ ہو یا غلام، دانشور ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسا مکان ہے جس میں ہر کوئی داخل ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ چند شرائط پوری کرے۔ آج دنیا جہان کی معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، تاریخ، فلسفہ، طب، فلکیات، ہر قسم کے علم کا سمندر محض ایک کلک کی دوری پر ہے، اگر آپ بارہ سال کے بچے سے بھی کوئی سوال پوچھیں گے تو وہ جھٹ سے گوگل کرکے اس کا جواب آپ کے منہ پر دے مار ے گا، ایسے ایسے ذہین لوگ ہیں دنیا میں جن کے پاس معلومات کا خزانہ ہے، آپ ان سے کسی بھی موضوع پر بات کرکے دیکھیں وہ آپ کے سامنے اعداد و شمار کا ڈھیر لگا دیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا معلومات کے یہ خزانچی دانشور ہیں؟ کیا بارہ سال کا بچہ جو گوگل کی مدد سے سب کچھ جانتا ہے، دانشور کہلائے گا؟
کیا خود کو عقل کُل سمجھ کر بھاشن دینے والے کو ہم دانشور مان سکتے ہیں؟ دنیا کے سب سے بڑے دانشور سقراط نے ڈھائی ہزار سال پہلے اِس سوال کا جواب دیا تھا کہ میں ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ یہاں مگر حال یہ ہے کہ اپنے ہی منہ میاں مٹھو بن کر لوگ ہر سوال کا جواب ایسی قطعیت سے دیتے ہیں جیسے ان سے پہلے کوئی دانشور آیا اور نہ ان کے بعد کوئی آئے گا۔ سو، اصل دانشور کا لٹمس ٹیسٹ یہی ہے کہ وہ اپنے اظہار میں عاجز ہوگا، ہمیشہ سچ کی تلاش میں رہے گا، اپنے نظریات کی پڑتال کرتا رہے گا، اپنا ناقد ہوگا اور اِس کا مقصد علم کا حصول ہوگا۔ ایسا شخص دانشور کہلائے جانے کا مستحق نہیں جس کی سوچ جامد ہو جائے، جو اپنے متعین کر دہ نظریات کے بر خلاف کوئی دلیل سننے پر آمادہ نہ ہو یا اس دلیل کو عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھنا چاہے۔
دنیا کے ہر بڑے آدمی اور دانشور کے خیالات میں وقت کے ساتھ بدلاؤ آتا ہے مگر یہ بدلاؤ آگے کی سمت میں ہوتا ہے نہ کہ دائرے میں۔ اگر کوئی شخص دس برس پہلے خواتین کے بارے میں تنگ نظر تھا اور وقت کے ساتھ اُس نے یہ جانا کہ ُاس کے خیالات درست نہیں تھے تو ایسے شخص نے اپنے نظریات تبدیل کرکے کوئی غلطی نہیں، لیکن اگر کوئی شخص تیس برس پہلے آمریت کا حامی تھا، اگلے دس برس میں اُس کے خیالات تبدیل ہوئے اور وہ آمریت کا مخالف ہو گیا مگر آج وہ پھر آمریت کے گُن گانے لگ جائے تو ایسے شخص کو ہم دانشوری کا مارجن نہیں دے سکتے۔
دانشور دائروں میں سفر نہیں کرتے، بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ گیان کی تلاش کرنے والے لوگ بند ذہن کے نہیں ہو سکتے، وہ کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ان کی کوئی انا نہیں ہوتی، وہ صرف سچائی کے متلاشی ہوتے ہیں، آپ انہیں دلیل دیں، اپنی رائے ٹھوس ثبوت کے ساتھ پیش کریں، اگر یہ سچے گیانی ہوئے تو انہیں ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا، لیکن اگر ان کا ذہن بند ہوا، دلیل سننے کی تاب نہ ہوئی تو سمجھ لیں کہ ان کا گیان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے نظریات کا اسی طرح کڑا احتساب کرے جس طرح وہ اپنے مخالف کا کرتا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا عقل و دانش سے کوئی تعلق نہیں۔
بدقسمتی سے ہم صرف جعلی دانشور ہی نہیں بھگت رہے بلکہ جعلی استاد، جعلی سائنس دان، جعلی یونیورسٹیاں، جعلی تھانیدار، جعلی وکیل اور جعلی محقق بھی بھگت رہے ہیں۔ سقراط کو یونان کی ریاست نے باقاعدہ مقدمے کی سماعت کے بعد موت کی سزا سنائی تھی، جن اصحاب نے یہ سزا سنائی تھی یونان کے لوگ اُن کی وضع قطع اور عہدوں کے باعث انہیں سچ مچ معزز سمجھتے تھے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا، وہ جعلی اشرافیہ تھی۔ کسی زمانے میں ٹی وی پر اگربتی کا ایک اشتہار چلا کرتا تھا جس کی ٹیگ لائن تھی ’’نقالوں سے ہوشیار رہیں‘‘۔
آج ہمیں ہر قسم کے نقالوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، طریقہ اس کا یہ ہے کہ دانشوری کی طرح ہر چیز کا لٹمس ٹیسٹ کرکے دیکھ لیں، اصل ہے یا نقل، فوراً معلوم ہو جائے گا۔ اگر کوئی شخص آئی وی لیگ سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود گالیاں بکتا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ وہ ڈگری یافتہ تو ہے، تعلیم یافتہ نہیں اور اگر کوئی شخص بظاہر دانشمندی کی باتیں کرتا نظر آئے مگر اپنے نظریات میں جامد ہو تو سمجھ لیں کہ وہ اتائی ہے، گیانی نہیں۔ لوگوں کے علاوہ ریاست کا لٹمس ٹیسٹ بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ جانا جا سکتا ہے کہ آیا کسی ریاست میں جمہوریت کا راج ہے یا نہیں۔ اگر آپ یہ لٹمس ٹیسٹ کر سکتے ہیں تو سمجھ لیں جمہوریت ہے اور اگر یہ ٹیسٹ کرنے ہی کی آزادی نہیں تو سمجھ جائیں پھر…..!