رانا ثناء اللہ کی گرفتاری نہیں ان کی کار سے مبینہ طورپر منشیات کی برآمدگی والی خبر نے حیران کیا۔ معاملہ اب عدالت میں ہے۔ مقبولیت اور Ratingsکی خواہش وضرورت کو خودکش انداز میں بھلاتے ہوئے میں نے اپنی تحریروں اور ٹی وی شوز میں متوازی عدالت لگانے سے ہمیشہ اجتناب برتا ہے۔ فقط یہ کہتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا کہ رانا صاحب کے لئے ’’رات‘‘ اب پنجابی گیت والی ’’نالے لمبی تے نالے کالی‘‘ ہو گئی ہے۔ حنیف عباسی کی صحت، کاروبار اور سیاسی کیرئیر کو ’’ایفی ڈرین کیس‘‘ نے ایک سیاست دان کے لئے نسبتاََ جواں عمری میں تباہ کر دیا۔ ایک جہاندیدہ سیاسی کارکن ہوتے ہوئے رانا صاحب کو ممکنہ مشکلات کا حنیف عباسی سے کہیں زیادہ اندازہ ہوگا۔ غالباََ وہ فیض کے مصرعہ میں بتائی ’’دھج‘‘ کے ساتھ ’’مقتل‘‘ گئے ہیں۔ منشیات کی مبینہ برآمدگی کے حوالے سے ہوئی حیرانی کے بارے میں غور کیا تو بالآخر خود کو یاد دلانا پڑا کہ وطنِ عزیز میں استاد دامن نامی ایک شاعر بھی ہوا کرتے تھے۔
1970کی دہائی میں ان کی کھولی سے، جو لاہور کے پرانے بزرگوں میں معروف روایات کے مطابق کسی زمانے میں اس شہر کے پہلے اور آخری ملامتی صوفی اور شاعر شاہ حسین کے زیر استعمال ہوا کرتی تھی، ایک ’’بم‘‘ برآمدہوا تھا۔ استاد دامن درویش منش آدمی تھے۔ بدترین حالات میں بھی اپنا مذاق اُڑاتے ہوئے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا تھا۔ شاید اسی باعث انہوں نے شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کا ’’روگ‘‘ نہیں پالا تھا۔ ضمانت کے بعد رہا ہوئے تو ایک شعر لکھا۔ میرا خیال ہے کہ ان دنوں ماحول پر چھائی ’’پارسائی‘‘ کے دور میں اس شعر کا پہلا مصرعہ لکھنا قارئین کے ’’اخلاق کو خراب‘‘ کرنے کی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مصرعہ پر اُکتفا کرنا ہوگا جو انتہائی سادگی سے حیرانی کا اظہار کرتا ہے کہ: ’’تے شاعر دے گھر(و)چوں بم نکلے‘‘۔
شاعر کے گھر سے بم نکلنے کی بات سے یاد یہ بھی آگیا کہ ایک زمانے میں چودھری ظہور الٰہی جیسے نامور اور خوش حال شمار ہوتے سیاست دان کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بھی درج ہوا تھا۔ جوانی میں ایسی خبروں پر ہم ہنسا کرتے تھے۔ منشیات کی ’’بھاری مقدار‘‘ میں ’’برآمدگی‘‘ مگر ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس کا تعلق اگر کالعدم تنظیموں کو ’’فنانس‘‘ کرنے سے جڑگیا تو FATFکی زد میں آئے پاکستان کے ایک قدآور سیاست دان کی عالمی تناظر میں کافی بدنامی ہوگی۔ ان کی جماعت بھی اس دھبے کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے لئے یہ وقت یقینا بہت کڑا ہے۔ حیرت مگر اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اس کا اندازہ نہ لگا پائے۔ اس گماں میں مبتلا رہے کہ 80سے زائد اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی سے عمران حکومت کے لئے بے ثباتی کا وہی ماحول بنا دیں گے جو تحریک انصاف میں دھرنوں کے ذریعے 2014سے ان کی حکومت پر نازل رکھا تھا۔ خوش فہمی انہیں یہ بھی لاحق رہی کہ شہباز شریف کا تجربہ اور Pragmatismانہیں آفتوں سے بچائے رکھے گا۔ پیپلز پارٹی بھی طویل المدتی تناظر میں ’’جمہوری ماحول‘‘ سے اپنے لئے خیروعافیت کی توقع باندھے ہوئے ہے۔
’’نیا پاکستان‘‘ کی ترجیحات کا پاکستان کی دونوں بڑی جماعتوں کو منطقی ذہن استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اندازہ ہی نہیں ہوپایا۔ اس حقیقت کا انہیں احساس نہیں کہ مسلسل دھرنوں اور ریگولر اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے شہری متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد کے دلوں میں اشرافیہ کے خلاف موجود نفرت اور تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے کئی برسوں کی محنت سے ایک ایسا ماحول بنایا ہے جہاں معافی ودرگزر کی گنجائش نہیں۔انگریزی زبان میں بیان کردہ Either/Orوالا معاملہ ہوچکا ہے۔
تحریک انصاف نے سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لئے جو روش اختیار کی وہ ان دنوں عالمی سطح پر چھائی Waveکی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔اس روش کو اختیار کرنے والے سیاست کے جس انداز کو اپناتے ہیں اسے محققین "Politics of Rage”کہتے ہیں۔ سیاست کی اس روش میں لوگوں کے دلوں میں موجود نفرت، احساسِ محرومی اور مایوسی کو ان جذبات کا باعث ہوئے افراد کی ’’نشاندہی‘‘ مرکوز کیا جاتا ہے۔ نشان دہ ہوئے اشخاص یا ادارے ’’دشمن‘‘ (The Other) قرار دئیے جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے واشنگٹن کو Swamp(جوہڑ) ٹھہراتے ہوئے وہاں بیٹھی اشرافیہ کو نفرت کا نشانہ بنایا۔ اپنے ملک کی نام نہاد Rust Beltمیں بند ہوئے کارخانوں اور اس کی وجہ سے پھیلتی بے روزگاری کا سبب اس نے Globalization کو ٹھہرایا۔
حقائق سے رجوع کئے بغیر ٹرمپ نے امریکہ کی سفیدفام اکثریت کو قائل کیا کہ ’’گلوبلائزیشن کی وجہ سے امریکہ نے تارکینِ وطن کے لئے اپنی سرحدیں ’’نرم‘‘ کر دیں۔ امریکی سرمایہ کاروں نے چین جیسے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے وہاں کی سستی لیبرکی بدولت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی جو ہوس اختیار کی اس نے چین کو بالآخر امریکہ کے مقابلے میں زیادہ توانا صنعتی ملک میں تبدیل کردیا۔ وہاں بنی اشیاء صرف امریکی منڈی پر چھا گئیں۔ امریکہ کو اب America Firstکی جانب لوٹنا ہو گا۔
Brexitکے حامیوں نے ایسا ہی رویہ یورپی یونین کے بارے میں اختیار کیا۔ اٹلی اور ہنگری جیسے ممالک میں تارکین وطن اصل دشمن قرار دئیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کا "The Other”گزشتہ دس برسوں سے اقتدار میں ’’باریاں لینے والی‘‘ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ان جماعتوں کے نمائندے تحریک انصاف کی نظر میں ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔
اگست 2018میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر تحریک انصاف ابھی تک معاشی میدان میں کوئی رونق نہیں لگاپائی ہے۔ IMFکا دروازہ کھٹکھٹانے کو مجبور ہوئی۔ وہ چھ بلین ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج منظور کرنے سے قبل پاکستان کو ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے جن سے مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ بازار پر چھائی مندی مایوس تر ہوتی چلی جائے گی۔ مایوس کن ماحول کے تناظر میں عمران حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’’باریاں لینے والی‘‘ جماعتوں کو موجودہ مشکلات کا ذمہ دار قرار دئے رکھے۔ ان میں شامل ’’چور اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشان بنائے۔ تحریک انصاف کی Baseوگرنہ اس سے خفا ہو جائے گی۔
وزیراعظم نے بجٹ پاس ہوجانے کے بعدقومی اسمبلی میں جو تقریر کی تھی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے The Nationمیں چھپے اپنے گیلری کالم میں یہ عرض کرنے کی جسارت کی تھی کہ بجٹ اجلاس ختم ہوتے ہی عمران حکومت ’’باریاں لینے والے چوروں اور لٹیروں‘‘ کو بطور سیاست دا ن نہیں بلکہ سنگین اور سفاک جرائم کے مرتکب ’’عادمی مجرموں‘‘ کے طور پر ثابت کرنے کو ڈٹ جائے گی۔مجھے شبہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی عمران حکومت کی اپنائی اس حکمت عملی کا کماحقہ اندازہ نہیں لگا پائیں۔ فی الحال وہ دونوں آفتوں کی زد میں ہیں۔ ان سے جانبر ہونے کے بعد ہی کوئی نئی حکمت عملی تلاش کرپائیں گی۔