جاگا ہوا چین اور ہم

ایک صدی قبل جب ساری دنیا ہماری طرح بیجنگ کو پیکنگ کہہ کر بلاتی تھی اور چینیوں کو ایک افیمی قوم کے طور پر پیش کیا جاتاتھا جس کا کوئی مستقبل اُس وقت کے دانشوروں کو دکھائی بھی نہیں دیتا تھا۔ یہ ایک شاعر کے وژن کا کمال ہے کہ علامہ اقبال نے اُس وقت یہ اعلان کیا کہ

ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

مگر گزشتہ تین دہائیوں میں بیجنگ کی جو شکل بدلی ہے اور چینی قوم جس طرح سے دنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت کی حامل بن کر اُبھری اُس کی یہ صُورت شائد عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے وقت خود چینیوں کے گمان میں بھی نہیں تھی کہ ماؤ اور چُو این لائی کے چین میں تمام تر ترقی اور انقلاب کے باوجود ستر کی دہائی کے آغاز تک اس کی ساٹھ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور اسے مغربی دنیا تو کیا خود اُس کا اپنا کمیونزم نظام کا ساتھی ملک سوویت رُوس بھی اُس کے مستقبل کے بارے میں کوئی زیادہ پُرامید نہیں تھا۔

یہ اور اس طرح کے کئی خیالات ٹینجن سے بیجنگ جاتے ہوئے فاسٹ ٹرین کے سفر کے دوران آس پاس کے مناظر کی طرح طوفانی رفتار سے میرے ذہن میں آجارہے تھے اور وقفے وقفے سے راستے میں آنے والے شہروں اور انڈسٹریل ایریازکی بلند و بانگ اور وسیع و عریض تعمیرات نیند میں دیکھے ہوئے کسی منظر کی طرح لگ رہی تھیں کہ جس میں حقیقت اور گمان ایک دوسرے میں ضم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

مقامی میزبان صبح سات بجے ہمیں الوداع کہنے کے لیے ہوٹل کی لابی میں موجود تھے۔ وانگ نے بتایا کہ وہ اور اس کا شوہر اگلے ہفتے اپنی بیٹی سے ملنے لندن جارہے ہیں جو وہاں اپنی تعلیم مکمل کررہی ہے اور یہ کہ وہ اس قیام کے دوران اپنی انگریزی کو بہتر بنانے کی پُرزور کوشش کرے گی تاکہ جب اگلی بار ہم لوگ اس کے شہر میں آئیں تو وہ زیادہ آسانی سے بات چیت کر سکے۔ ڈاکٹر ادل سومرو نے میرے کان میں کہا ’’سائیں یہ تو ابھی خود کالج کی لڑکی لگتی ہے اس کی اتنی بڑی بیٹی کیسے ہوگئی ‘‘ میں نے بھی سرگوشی کا جواب سرگوشی میں دیتے ہوئے کہا کہ بیس سے ساٹھ برس کے دوران کی عمر کے کسی چینی چہرے کی صحیح عمر کا اندازہ کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے کہ نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ جو نتیجہ نکلے اُس میں پندرہ بیس سال کا فرق آسانی سے نہ نکل آئے۔

بیجنگ میں ہمارا پہلا پروگرام کرنسی تبدیل کروانا تھا کیونکہ اس کے بغیر شاپنگ ممکن ہی نہیں تھی ۔ مجھے کچھ دھندلا دھندلا سا یاد تھا کہ گزشتہ دورے کے موقع پر نہ صرف ہمارے ڈالرز کو ہوٹل ہی میںمقامی کرنسی میں تبدیل کردیا گیا تھا بلکہ مختلف سیاحتی مقامات پر بھی انھیں زیادہ قیمت پر تبدیل کروانے کے غیرقانونی طریقے آسانی سے دستیاب تھے۔

سو، میں نے سوئی سے کہا کہ وہ ہمیں کسی منی ایکسچینج میں لے جائے تاکہ یہ معاملہ خوش اسلوبی اور قانونی طریقے سے نمٹ جائے جب کہ وہ بار بار بینک جانے پر اصرار کر رہی تھی، مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ اب وہاں بینک کے علاوہ کرنسی تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جب کہ زیادہ افسوس اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ بینک کے ذریعے سے جن کرنسیوں کو تبدیل کیا جاسکتا تھا اُن میں پاکستانی کرنسی سرے سے شامل ہی نہیں یعنی یہاں بھی امریکا بہادر کا ڈالر ہی قابل قبول تھا۔ بینک آف چائنا والوں نے طریقہ کار سمجھانے کے بعد ہمیں نو نمبر ٹوکن دے دیا اور یہ تسلی بھی دی کہ اس وقت آٹھ نمبر گاہک متعلقہ کاؤنٹر پر ہے سو ہمیں زیادہ دیر انتظارنہیں کرنا پڑے گا۔ مگر ہوا یہ کہ اُس آٹھ نمبر والے کا کیس کچھ زیادہ ہی ٹیڑھا تھا جس کی سمجھ اُسے اور بینک کے عملے دونوں کونہیں ہورہی تھی۔

سو دونوں ہی ایک دوسرے کو بار بار کچھ کاغذات دکھانے اور بحث کرتے چلے جارہے تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی پاکستانی بینک میں کبھی مجھے یا میرے سامنے کسی اور کو اس قدر انتظار کرنا پڑا ہو۔کُل ملا کر اس کام میں تقریباً ڈیرھ گھنٹہ لگ گیا کوسٹر میں بیٹھتے ہی سوئی اور دھاکے میں ایک طویل مکالمہ شروع ہوگیا، معلوم ہوا کہ ہماری شاپنگ اور لنچ کے دورانیئے میں اس ضایع شدہ وقت کو ضرب جمع تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، کچھ دیر بعد ہماری کوسٹر ایک درمیانے درجے کے شاپنگ مال کے سامنے رکی اور سوئی نے اعلان کیا کہ ہمارے پاس شاپنگ کے لیے تقریباً چالیس منٹ بچتے ہیں۔

میں خریداری کے سلسلے میں بے حد اناڑی واقع ہوا ہوں۔ اس لیے جو چیز مطلوب ہو اُسے جلد از جلد پسند کرنے پر زور دیتا ہوں اورچونکہ قیمتیں فکس ہوتی ہیں اس لیے مول تول کا مرحلہ درمیان میں آتا بھی نہیں مگر یہاں معاملہ ناقابلِ یقین حد تک مختلف تھا۔ لی عرف دھاکے کی انگریزی ،گنتی کے چند لفظوں تک محدود تھی مگر اس کے باوجود وہ مجھے یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ یہ لوگ شروع میں بہت زیادہ قیمت بتاتے ہیں مگر ساتھ ساتھ کم بھی کرتے جاتے ہیں کہ کہیں گاہک ہاتھ سے نکل ہی نہیں جائے۔

دوسری منزل پر واقع بچوں کے اسٹال پر پہنچے تو وہاں پر موجود اسٹاف نے بچوں کی عمریں سننے سے قبل ہی کپڑوں کے ڈھیر لگانا شروع کردیے اور ساتھ ہی کپڑے کی قیمت میں کیلکولیٹر پر خصوصی رعایت بھی خود بخود دینا شروع کر دی ۔ میں نے ایک نظر کپڑوں کو دیکھا جو بہت معمولی سے لگ رہے تھے اور پھر وہ کام کیا جس سے میں ہمیشہ بیرونِ ملک اپنی بیگم کو منع کرتا ہوں کہ وہاں خریداری کرتے وقت کبھی مقامی کرنسی کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرکے نہیں دیکھنا چاہیے اُس وقت ایک چینی یوآن تیئس (23) پاکستانی روپوں کے برابر تھا اور ان سیلز گرلز کے مطابق ایک معمولی سے کپڑے کی قیمت ہی پانچ چھ ہزار کے لگ بھگ بن رہی تھی۔

میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ایک طرف تو کیلکولیٹر والی لڑکی نے تیزی سے قیمت گھٹانا شروع کردی اور دوسری نے جو قدرے سینئر نظر آرہی تھی باقاعدہ منت ترلا شروع کر دیا کہ اگر میں نے یہ خریداری نہیں کی تو متعلقہ لڑکی کی نوکری خطرے میں پڑ جائے گی اور مالک اُس سے ناراض ہوجائے گا۔ یہ صورتِ حال اتنی غیر متوقع اور پریشان کن تھی کہ میں نے گِرا کر 580 یوان سے شروع ہونے والے بچوں کے ایک سُوٹ کی قیمت ایک سو یوآن لگا دی تاکہ وہاں سے نکلنے کا موقع مل سکے مگر ایک لمحے میں وہ سُوٹ ایک لفافے سے ہوتا ہوا میرے ہاتھوں میں تھا۔

چند لمحے تو میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے کہ میں نے آج تک زندگی میں کوئی چیز اس طرح تقریباً چھ گنا کم قیمت میں نہیں خریدی تھی لیکن یہ حیرت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کہ اگلے ہی اسٹال پر مجھے شہرہ آفاقی Gocci برانڈ کا ایک چینی ساختہ ہینڈ بیگ آٹھ گنا کم قیمت پر مل گیا اور کم و بیش یہی معاملہ چینی سبز اور یاسمین چائے کی خریداری میں بھی جاری رہا۔ میرے خیال میں اس طرح کی سودے بازی میں چینی دوستوں کا مقابلہ ہمارے یہاں کے وہ قالین فروش ہی کرسکتے ہیں جوہزاروں سے شروع ہوکر سیکڑوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں اور اس کے باوجودمنافع انھی کی طرف رہتا ہے۔

ائیرپورٹ پر پی آئی اے کے کاؤنٹرز کے سامنے پرواز کے ٹائم سے تقریباً چار گھنٹے قبل ہی لائن لگ چکی تھی جب کہ سارا اسٹاف لولکل تھا ہماری واپسی کی ٹکٹیں نہ صرف بزنس کے بجائے اکانومی کلاس کی تھیں بلکہ ہمارے سیٹ نمبر بھی جہاز کے آخری حصے میں تھے۔

خیال تھا کہ اسٹیشن منیجر یا پاکستانی عملے سے مل کر قدرے بہتر سیٹیں لے لیں گے مگر وہاں کوئی اپنا نظر بھی نہیں آرہا تھا اچانک ایک طرف سے اپنے اُردو ڈائجسٹ والے عزیزی طیب اعجاز آتے دکھائی دیے جو اپنے بزنس کے سلسلے میں اکثر چین آتے جاتے رہتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہفتے میں صرف دو فلائٹوں کی وجہ سے یہاں پاکستانی عملہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وہی تھوڑی دیر میں اسٹیشن منیجر صاحب ضرور آئیں گے وہ تو ہمارے چیک ان ہونے تک نظر نہیں آئے لیکن ڈیپارچر لاؤنج میں یہ اطلاع ہماری منتظر تھی کہ چونکہ اس وقت چینی صدر کوریا کے دورے سے واپس آرہے ہیں چنانچہ ائیرپورٹ تمام پروازوں کے لیے بند کردیا گیا ہے یعنی ہماری ٹوکیو سے آنے والی پرواز اب دو گھنٹے بعد روانہ ہوگی یہ دو گھنٹے چار میں تبدیل ہوگئے اور مزید دو گھنٹے جہاز کی صفائی اور چینی انجینئرز کی کارروائیوں میں لگ گئے۔ جہاز کا ویڈیوسسٹم تو حسبِ توقع خراب تھا مگر قیامت یہ ہوئی کہ واش رومز کا پانی بھی کسی وجہ سے بند ہوگیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے