بڑی طاقتوں میں خوراک کے مسائل

رواں ہفتے جی 20سربراہی اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ۔چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی سرد جنگ میں برف پگھلتے ہوئے دکھائی دی۔گزشتہ دنوں امریکہ اور چین کی جانب سے تجارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیاگیا۔

دونوں ممالک کے درمیان طویل مدت سے جاری تنازعات ‘ عالمی معاشی بحران میں بہتری کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا گیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ نے جاپان میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ان معاہدوں پر اتفاق ہوا؛امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو ہوائی(چینی ٹیکنالوجی کمپنی) کے ساتھ کام کرنے اجازت کا اعلان بھی کیا۔ اس اعلان کو ایک اہم مراعت کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔اس سے قبل ٹرمپ نے چین کے خلاف مزید تجارتی پابندیوں کی دھمکی دی تھی‘ تاہم اوساکا میں جی 20 سربراہ کانفرنس کے دوران چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد حالات مختلف دکھائی دئیے۔امریکہ کی جانب سے کہا گیا کہ 300 ارب سے زیادہ کی مالیت کی چینی درآمدات پر اضافی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ان اعلانات کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ فی الحال امریکہ ‘بیجنگ کے ساتھ بعض معاملات پربات چیت کرے گا۔

دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکہ اور چین عرصہ دراز سے نقصان دہ تجارتی جنگ لڑ رہی ہیں۔اس زمانے میں بڑی آبادی کے باوجود‘ چین زمین اور پانی کے وسائل سے اس طرح استفادہ نہیں کر رہا‘ جیسا کہ امریکہ جیسے امیر اور افریقہ جیسے زرعی ملک لطف اندوز ہو رہے ہیں۔جتنے بھی بحران آئے ان کی زراعت میں واضح کمی نہیں دیکھی گئی ۔ایسا نہیں کہ چین نے زراعت کے شعبے میں ترقی نہیں کی ؛ کھانے کی چیزوںمیںکمی کاخوف‘ زمینی اور سمندری طوفانوں کے خدشات کے باوجود‘ بیجنگ نے ضروریات کومدنظررکھتے ہوئے ‘سٹاک اور اناجوں کو بہتربنایا ہے۔ حالیہ عشروں میں‘ چاول‘ گندم اور مکئی جیسے اہم اناج اور گھریلو پودوں نے چین کی آبادی کی ترقی کے ساتھ وسیع پیمانے پرکاشت میں اضافہ ہوا ہے۔واضح رہے کہ زراعت اور زمین کی اصلاحات کا سلسلہ1980 ء کے عشرے سے شروع ہوا؛ اگرچہ چین نے ان تین اہم اناجوں کی درآمدات میںاضافہ کیا‘ لیکن ملک نے خود مختاری کی تقریباً 95 فی صد شرح برقرار رکھی۔یہی وجہ ہے کہ کئی سوالات ابھی بھی جواب طلب ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کس طرح 2004ء کے بعد سے بیجنگ مجموعی خالص اناج درآمد کرنے والا ملک بنا؟ سویا بین ہی کو لے لیں‘ ایک پروٹین غذا‘جو چین کی خوراک میں غیر ضروری جز بن سمجھا جاتا تھا‘ چین کے فوڈ سیکورٹی کے لیے ملک کے سویا بین کی کھپت کو دوسرے کھانے کی اشیاء کے مقابلے میں ہلکا اور کم ہی استعمال کیا جاتا تھا۔

سویابین کی فصل کوبھی غیرضروری سمجھا جاتا تھا‘ لیکن پچھلے دوعشروں میں ڈیری اور گوشت کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی طلب کے بعد(خاص طور پر‘ انڈے‘ پولٹری اوردیگر گوشت کے لیے) سستے اور پروٹین کے لیے ‘سویا بین کی کھپت میں اضافہ ہوا۔ ڈرامائی طور پر جانوروں کو کھانا کھلانے کے لیے استعمال کیاجانے لگا اور چین کی سویا بین کی کھپت میں‘ 1997 سے 15 لاکھ سے 105 ملین میٹرک ٹن سویا بین کی کاشت میں اضافہ ہوا۔

1990ء کے عشرے میں‘ بیجنگ نے سویا بین کی پیداوار میں کمی لانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بجائے دوسرے اناج کی پیداوار پر توجہ دی گئی اور زیادہ تر زمین کوصنعتی معنوں میں استعمال کیا گیا‘ جس سے شہری علاقوں میں آلودگی بھی پھیلی‘ چینی مارکیٹ میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوئی ‘ امریکہ‘ برازیل اور ارجنٹینا سے سستی درآمد سویا بین کا راستہ کھلا۔حالیہ برسوں میں بیجنگ نے گھریلو پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ ترتیب دیاہے‘ لیکن پچھلے سال کے دوران امریکہ کے ساتھ اس کی تجارتی جنگ نے چین کو دو گنا بڑھا دیا ‘تاکہ اس کی ” سویا بین کا اعزاز‘‘ کی حکمت عملی میں پر عمل کرتے ہوئے اضافہ ہو سکے۔

اس کا مجموعی سویابین کی کھپت کو کم کرنے اور اس کی غیر ملکی سپلائر کی فہرست کو بڑھانے پر زور دیا۔ اکتوبر میںچین نے دیگر پروٹین کے متبادل کے استعمال کے ذریعے 20 فیصد سے 12 فی صد سے سویابین ‘فیڈ کے لیے استعمال کیا۔اس کے ساتھ ساتھ سویا بین کے کھانے میں کمی کا حکم دیاگیا۔ یہ فیصلہ اکیلے 10 ملین میٹرک ٹن (موجودہ کل 10 فیصد) کی طرف سے چین کی سویا بین کی کھپت کو کم کر سکتا ہے۔دریں اثناء چین میں افریقی سوائن فلو(بخار) کے مہلک پھیلاؤ غیر معمولی طور پر اس کی کھپت میں بھی کمی کی گئی‘چین کی خام تیل کی صنعت کو جدوجہد کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

سوائن کی بیماری کے پھیلاؤ‘ حکومت کے وسیع پیمانے پر اس کے گھریلو پیداوار کو کچلنے کے ساتھ بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ مختصر مدت میں چین کا سویا بین مطالبہ بڑھ چکا‘ جبکہ چین کی مجموعی سویا بین درآمد 2018 میں 7.9 فی صد سے 88 ملین میٹرک ٹن گر گئی‘ یہ سب سے کم کمی دیکھی گئی ۔ اس سال 10 ملین میٹرک ٹن ہونے کی امید کی جارہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چین اورامریکہ آنے والے مہینوں میں تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ‘ توامریکی سویا بین ‘ چین کی حقیقی کھپت دونوں ملکوں کے جاری مذاکرات میں مرکزی نقطہ نظر ہوسکتی ہے‘ تاہم طویل عرصے سے‘ چین کی بڑھتی ہوئی پروٹین ‘ غذائیت اور بڑے پیمانے پر آبادی دوسری جگہوں سے سستے سویا بین کی ضرورت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب بیجنگ سویا بین درآمدات کو متنوع کرنے کے اقدامات بھی کر رہا ہے۔ رواں ماہ میں حکومت نے بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت‘ پڑوسی ممالک کے لیے سویا بین ترسیلوں پر ٹیرف کو ختم کر دیا۔پروٹین اور دیگر اشیاء خرونوش پر امریکی ٹیرف کے حوالے سے بھی کئی سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں‘ تاہم امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں کس قدر کمی آتی ہے وقت ہی ثابت کرے گا ‘کیونکہ دونوں جانب سے ابھی صرف اعلانات ہی سننے کو ملے ‘باقاعدہ حکم نامہ جاری ہونا باقی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے