ہر ایک کو سلام کرنا ضروری نہیں!

میں نے محفل میں موجود چالیس سال سے زیادہ عمر کے کسی ایسے شخص کو سلام کرنا ترک کر دیا ہے جو عینک نہ لگاتا ہو کیونکہ اس سے خاصی ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ذرا فاصلے پر بیٹھے ہوئے کسی جاننے والے شخص سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو چار و ناچار ہاتھ ماتھے تک لے جانا پڑتا ہے تاکہ اسے بیگانگی کا گلہ نہ ہو لیکن موصوف کے چہرے پر بیگانگی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دیکھ کر سلام کیلئے ماتھے تک لے جانے والے ہاتھ سے خواہ مخواہ خارش کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد موقع پاتے ہی یہ ہاتھ ایک دفعہ پھر حرکت میں آ جاتا ہے کہ ممکن ہے پہلی بار اس نے دیکھا نہ ہو لیکن پتا چلتا ہے کہ وہ ہونقوں کی طرح مسلسل میری طرف دیکھے جا رہے ہیں لیکن سلام کا جواب نہیں دیتے چنانچہ ایک دفعہ پھر اپنی خفت مٹانے کے لئے اس ہاتھ سے خارش کا کام لینا پڑتا ہے۔

زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعد میں موصوف الٹا گلہ کرتے ہیں کہ میں نے تمہیں تین چار دفعہ سلام کیا لیکن تم نے جواب نہیں دیا ظاہر ہے یہ حضرت ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بعد میں تھک ہار کر میں نے عینک اتار دی ہوتی ہے میں محفلوں میں فلسفی قسم کے حضرات کو بھی سلام نہیں کرتا کہ یہ خصوصاً بہت شرمندہ کراتے ہیں یہ نہ صرف آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ باقاعدہ مسکراتے نظر آتے ہیں جو ایک طرح کی علیک سلیک ہی ہوتی ہے۔ خیر سگالی کے اس اظہار کا جواب نہ دینا خاصی بداخلاقی ہے چنانچہ میں جوابی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جاتا ہوں، ان کی مسکراہٹ بدستور قائم رہتی ہے لیکن اس سے یہ اشارہ کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے سلام وصول کیا ہے اور قبول بھی کیا ہے کہ نہیں؟ جس کے نتیجے میں یہ مسکراہٹ خاصی احمقانہ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ موصوف اپنے دھیان میں اپنی ہی کسی بات پر مسکرا رہے تھے مگر بعد میں پتہ چلنے کا کیا فائدہ جب اس عرصے میں سینکڑوں لوگ آپ پر مسکرا چکے ہوتے ہیں۔

میں نے ایک عرصے سے پریشان حال لوگوں کو بھی سلام کرنا ترک کر دیا ہے خواہ یہ میرے بالکل پاس کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ انہیں سلام کریں تو یہ ایک دم دبک جاتے ہیں جیسے ان کے کان کے قریب سے کوئی گولی سن سے گزرتی ہو، ایسے لوگوں کو سلام کر کے خاصی خفت اٹھانا پڑتی ہے کیونکہ بہت دیر تک ان کا دل دھک دھک کرتا رہتا ہے ویسے بھی ان پریشان حال لوگوں کے کان سلام یا سلامتی کے لفظ سے آشنا نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے انہیں اجنبی پن کا احساس ہوتا ہے۔

دوچار دفعہ تلخ تجربے کے بعد میں نے غریب غرباء کو بھی سلام کرنا چھوڑ دیا ہے کہ اگلے ہی روز ادھار مانگنے آ جاتے ہیں۔ انہیں ادھار دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن سود چونکہ اسلام میں حرام ہے اسلئے انہیں ادھار دینے میں فائدہ بھی کوئی نہیں۔ ابن انشاء نے ایک اپنے ممدوح کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بہت مخیر تھے چنانچہ انکے پاس ضرورت سے زیادہ جو روپیہ ہوتا تھا وہ ایسے اللہ کی راہ میں سود پر دے دیتے تھے۔ ویسے ایک عرصے سے میں نے امیروں کو بھی سلام کرنا ترک کر دیا ہے۔ انہیں سلام کریں تو وہ سلام اس طرح وصول کرتے ہیں جیسے خراج وصول کر رہے ہیں۔ چنانچہ سر کی ہلکی سی جنبش سلام کی رسید ہوتی ہے۔ بعض تو یہ رسید بھی نہیں دیتے ہیں ہلکا سا مسکرا دیتے ہیں۔ بعض جواباً ہنس پڑتے ہیں اور انکی یہ ہنسی خندئہ استہزاء کی ذیل میں آتی ہے۔ منیر نیازی نے ایک دفعہ ایک اُسی طرح کے بزرگ صورت شخص کے گھٹنوں کو احتراماً چھوا تو نہ صرف یہ کہ انہوں نے سرپرستانہ انداز میں منیر نیازی کو تھپکی دی بلکہ جب اگلی دفعہ منیر نیازی کوئی چیز اٹھانے کیلئے ذرا سے جھکے تو اسی بزرگ نے اپنا گھٹنا اوپر اٹھا لیا تاکہ منیر نیازی کو ان کے گھنٹوں کو ہاتھ لگانے کے لئے زیادہ زحمت نہ اٹھانا پڑے۔

بس ایک سلام ایسا ہے جو میں نے ابھی تک ترک نہیں کیا اور وہ صاحبِ اقتدار لوگوں کو سلام ہے۔ امیر آدمی کو سلام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ وہ آگے سے کچھ نہیں دیتا جواب تک نہیں دیتا جبکہ صاحبِ اقتدار کے سلام کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس کے لئے صاحب کے پی اے سے جو کیسا ہی بے ہودہ کیوں نہ ہو، اس کا فون نمبر لے کر اس سے روابط بڑھائے جاتے ہیں اور پھر ٹائم لے کر صاحب کی کوٹھی کے برآمدے میں پوری کرسی پر آدھا بیٹھا جاتا ہے چپڑاسی جب اندر بلاتا ہے تو کلیجہ باہر کو آنے لگتا ہے اگر آپ اسے مسلسل اسی عاجزی سے ملنے میں کامیاب رہتے ہیں تو وہ صاحبِ اقتدار شخص آپ کو نوازتا بھی ہے، وزارت دیتا ہے، مشاورت دیتا ہے، ٹکٹ دیتا ہے مگر آپ کے ساتھ سلوک نوکروں جیسا ہی کرتا ہے مگر یہ سلوک برا نہیں لگتا کہ اگر نوالہ سونے کا ہو تو شیر کی آنکھ سے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟

صاحبانِ اقتدار کو نہ صرف یہ کہ سلام کرنے میں مزا ہے بلکہ جب وہ اقتدار میں نہ رہیں تو انہیں سلام نہ کرنے کا بھی اپنا ہی مزا ہے حقیقت پسند صاحبانِ اقتدار اس کا بُرا نہیں مانتے، وہ جانتے ہیں کہ جب وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو سامنے بیٹھے بے شمار عوام انہیں سلام کر رہے ہوتے ہیں جن کا جواب دینا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا چنانچہ وہ اس کرسی پر عینک اتار کر بیٹھتے ہیں اور جب یہ کرسی ان کے نیچے سے کھسکتی ہے تو پھرعوام اپنی عینک اتار کر بیٹھ جاتے ہیں جس سابق صاحبِ اقتدار کے ساتھ لوگ یہ سلوک نہ کریں تو سمجھ لیں اس پر اللہ کی رحمت ہے ہمارے ہاں اللہ کی رحمت حاصل کرنے والے لوگ اتنے کم کیوں ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے