سوشل میڈیا ایک طوفان بدتمیزی اور توہین مذہب کا مسئلہ

ہم نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی ہے جہاں سب میں نہ سہی لیکن اکثریت گھروں میں بچے یہ سنتے ہوئے جوان ہوتے ہیں کہ فلاں وہابیوں کی مسجد ہے ، فلاں کا تعلق دیو بندی فرقے سے ہے ، یہ بریلوی ہیں ، فلاں شیعہ ہے ، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں اپنے بچوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہو کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ہاں سب کے عقائد میں فرق ہو سکتا ہے ۔ ہم سب انسان ہیں ، پاکستانی ہیں ، ہم نے ہمیشہ فرقہ واریت کو پہلے ، مسلمانیت کو دوسرے اور قومیت کو تیسرے درجے پر رکھا ، انسانیت کا درجہ تو شاید سب سے آخر میں رکھ چھوڑا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو قبول کرنے میں حد درجہ مشکلات درپیش ہیں ،پھر ہم بات کرتے ہیں انتہا پسندی ختم نہیں ہو رہی ، ارے جب اس انتہا پسندی کو بچپن سے ہی معصوم ذہنوں میں انڈیل دیا جائے گا کہ شیعہ کے گھر کا کھانا نہیں کھانا ، کسی مسیحی کے ساتھ دوستی نہیں رکھنی ، وہابی کو انتہا پسند اور گستاخ کہنا ہے تو کہاں سے ختم ہو گی یہ انتہا پسندی ، کہاں سے لائیں گے ہم وہ مذہبی ہم آہنگی جہاں ہمیں اپنے بچوں کے لئے ایک پر امن ماحول میسر آئے گا ، جہاں سب ایک دوسرے کو انسان سمجھ کر حسن سلوک کریں ۔ ہم غیر ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں سب مل جل کر رہتے ہیں ، لیکن کوشش تک نہیں کرتے کہ ہم ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی مل جل کر رہ سکیں ، اپنے اپنے عقیدے پر رہیں لیکن اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں ۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں ۔

بحث مباحثہ کریں لیکن ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے تحمل برداشت اور رواداری جیسے عناصر کہیں کھو چکے ہیں ۔ رہی سہی کسر آن لائن میڈیا نے پوری کر دی ۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے ۔ ہر کوئی فلاسفر بنا ہوا دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ سب سے زیادہ مذہبی منافرت بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر کے پھیلائی جا رہی ہے۔ اور اس کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات بھی کہیں نظر نہیں آ رہے ۔ سب سے اہم چیز اور کردار ہمارے مذہبی پیشواؤں کا تھا جو درست طریقے سے ادا نہیں کیا گیا۔ مذہبی ہم آہنگی کے لئے علماء کرام کسی بھی معاشرے میں بنیادی اکائی ہوتے ہیں ۔

مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کی اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرنے والے علماء کرام ہی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں علماء نے یہ ذمہ داری نہیں نبھائی۔ سیاسی مقاصد کے لئے تو مذہب کو ڈھال بنا لیا جاتا ہے لیکن انسانی فلاح کے لئے مذہب کو استعمال نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں کسی پر توہین رسالت ص کا الزام تو فوری لگا دیا جاتا ہے اور 295 سی قانون کی بھرپور مدد لی جاتی ہے اور اگر کوئی جھوٹے الزام پر کسی غیر مسلم کی مدد کے لئے کھڑا ہوتا ہےتو جان سے ہی چلا جاتا ہے، لیکن اسلام کی رواداری ، اخوت ، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، والدین ، اساتذہ ، بیوی ، شوہر کے حقوق سمیت انسانی حقوق پر کبھی بات نہیں کرتے ۔ پاکستان میں مذاہب تو دور ،دوسرے فرقہ والے بھی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ یہ فاصلے مساجد سے شروع ہو کر مدارس تک جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے یا ایک دوسرے سے استفادہ کرنے پر بھی گمراہی کا فتوی لگ سکتا ہے.

توہین مذہب اور توہین رسالت تو یہ بھی ہے کہ ہم قرآن اور حدیث پر عمل ہی نہ کریں ۔ یہ بھی توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے کہ جن حقوق کے پورا کرنے کا حکم ہمارے مذہب نے دیا، ہمارے نبی ﷺ نے دیا اسے پورا نہ کیا جائے ۔ پھر کسی مسلمان پر توہین رسالت کا قانون آج تک کیوں لاگو نہ ہو سکا۔ علماء کرام کو چاہئیے کہ وہ اپنا فریضہ نبھاتے ہوئے معاشرے میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں ۔ والدین کو بھی چاہئیے کہ اپنے بچوں کی پرورش میں انہیں نفرتوں کی بجائے محبتیں بانٹنے والا بنائیں ۔ جب آپ کا عقیدہ مضبوط دلیل پر کھڑا ہو گا تو کوئی احمدی ، بریلوی ، وہابی ،شیعہ کا عقیدہ آپ کو اپنے عقیدے سے نہیں ہٹا سکتا۔ بچوں کے دماغ میں نفرت کی بجائے محبت اور رواد داری پیدا کریں ۔

آئیے ، اپنے اپنے گھروں سے شروعات کریں. ایک ایسے معاشرے کی جو آپ اپنے بچے کے لئے چاہتے ہیں ۔ اساتذہ ، والدین اور علمائے دین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے بچوں کی رہنمائی کریں ، منافرت کی بجائے مذہبی رواداری کو فروغ دیں ۔ تھوڑی سی کوشش سے ایک پر امن معاشرہ ہماری آئندہ نسلوں کو خوش آمدید کہہ سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو وہ اخلاقی قدریں سکھائیں جو آپ کو معاشرے میں دکھائی نہیں دیتی اور آپ چاہتے ہیں کہ آئندہ نسلیں بہترین اخلاقی اقدار کے ساتھ پاکستان کا حصہ بنیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے