کاش ڈاکٹر ظفرالطاف زندہ ہوتے!

طاقت اور اقتدار ایسی چیز ہے جب تک آپ کے ہاتھ سے پھسل نہ جائے یقین نہیں آتا ۔ انسان کو لگتا ہے وہ غیرمعمولی انسان ہے جسے خدانے بادشاہت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے اور اسے کبھی زوال نہیں آئے گا ۔ ماضی میں بادشاہ بارے یہ تصور تھا کہ وہ کوئی غلطی نہیں کرسکتا لہٰذا اسے سزا نہیں دی جاسکتی۔ غلطیاں رعایا کرتی ہے اور سزا بھی رعایا کو ملے گی ۔ بعض بادشاہ تواتنے ظالم تھے کہ جب ان کے ہاتھوں سزا پانے والوں کا گلا کاٹنے کا وقت آتا تو وہ اپنا سر کٹوانے سے پہلے بادشاہ کی شان میں قصیدہ پڑھتا تھا ‘ انہیںبادشاہ زندہ باد کا نعرہ لگانا پڑتا تھا اور مجمع کو بتانا پڑتا تھا کہ بادشاہ سلامت کتنے رحم دل ہیں کہ تلوار یا کلہاڑی کے ایک وار سے ان کا سر تن سے جدا کیا جارہا ہے ورنہ وہ چاہتے تو اُبلتے ہوئے پانی میں ڈال دیتے یا جسم کے ایک ایک حصے کو الگ الگ کاٹ کر ٹکڑوں میں تبدیل کردیتے۔

یہ بادشاہ سلامت کی رحم دلی اور اعلیٰ ظرفی سمجھی جاتی کہ تلوار کا ایک وار کیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ کہانی لگے لیکن یہ کام بادشاہ کرتے آئے ہیں اور رعایا ان کا یہ حق تسلیم کرتی آ ئی ہے۔ یہ وہ انسانی نفسیاتی اپروچ ہے جس کے بعد بندے کو طیش میں خدا یاد نہیں رہتا ‘جب تک وہ خود اس ظلم کا شکار نہیں ہوتا جس کا نشانہ اس کے ہاتھوں دوسرے بنتے رہتے ہیں۔ انگریز بادشاہوں میں کنگ ہنری ششم سب سے زیادہ ظالم سمجھا جاتا ہے جس نے اپنی چھ بیویوں کو قتل کرایا۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو اس کے جسم سے اتنی بو آتی تھی کہ کوئی قریب نہیں جاسکتا تھا ۔

انسان لاکھ کہے کہ وہ ترقی کر کے جدید دور میں بہتر زندگی گزار رہا ہے‘ قاعدے قانون بن گئے ہیں‘ اب بادشاہ کو بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے‘ لیکن کچھ بھی کر لیں انسان کے اندر کا وحشی اب بھی پوری قوت سے کبھی کبھار ابھر آتا ہے۔جو آج احتساب کو ظلم سمجھتے ہیں ان کے اپنے دور میں ایسے ایسے ظلم ہوئے کہ بندہ کانپ اٹھے۔ وہی پی پی پی جسے آج کل شریف خاندان کا درد نہیں بیٹھنے دے رہا ‘ نواز شریف کے دوسرے دور میں سیف الرحمن نے ان کے خلاف جو حشر برپا کیا ہوا تھا وہ آج کسی کو یاد نہیں ۔ سیف الرحمن احتساب سیل کو ایک نازی کیمپ کی طرح چلا رہے تھے۔

قیدیوں پر تشدد کرنا‘ سگریٹ سے بدن جلانا‘ سب کچھ اس کیمپ میں ہوتا تھا۔ اس وقت سیف الرحمن کی کوشش تھی کہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف سرکاری افسران گواہی دیں۔ کوئی فائلیں ڈھونڈ کر دیں۔ ایک دن ڈاکٹر ظفر الطاف کو سیف الرحمن نے دفتر بلایا اور کہاکہ وہ زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف ٹریکٹر سکینڈل میں مدد دیں۔ ڈاکٹر صاحب نڈر آدمی تھے‘ انہوں نے کہا :اگر ٹریکٹر امپورٹ میں پیسہ کھایا گیا تو پھر زرداری نہیں بلکہ انہوں نے خود سیکرٹری زراعت کے طور پر کھایا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ایک ٹریکٹر جوروسی ریاست سے امپورٹ کر کے تمام ڈیوٹی ٹیکس‘ سفری خرچ ڈال کر کسان کے گھر تک ڈیڑھ لاکھ روپے میں پہنچ رہا تھا اور اس میں سے بھی زرداری نے اگر کچھ کمیشن کمالیا تھا تو پھر زرداری کو سزا نہیں بلکہ داد اور انعام ملنا چاہیے۔

سیف الرحمن انہیں دھمکاتے رہے مگر وہ اس بات پر ڈٹے رہے۔ جب زرداری صدر بنے اور کچھ عرصے بعد اسی مقدمے میں انہیں گواہی کے لیے بلایا گیا تو یہی گواہی دی‘ حالانکہ چند دن پہلے صدر زرداری انہیں چیئر مین پی اے آر سی کے عہدے سے برطرف کرچکے تھے کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ان کے چند درباریوں کے کہنے پر پی اے آر سی میں افسران کے تبادلے نہیں کیے تھے ‘لیکن عدالت میں وہی گواہی دی کہ زرداری اس سکینڈل میں ملوث نہ تھے۔ وہ زرداری کا ظرف تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو برطرف کر دیا کہ ان کے ایک خوشامدی کے کہنے پر تبادلہ کیوں نہیں کیا اور یہ ڈاکٹر ظفر الطاف کا ظرف تھا کہ برطرف ہونے کے باوجود تیسرے دن زرداری کے حق میں گواہی دے آئے۔

بینظیر بھٹو ڈاکٹر ظفر الطاف پر برستی تھیں کہ وہ شریفوں کے قریب ہیں اور شریف انہیں بینظیر بھٹو کے قریب سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف انیس سو ننانوے کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر تھے۔ ٹیم فائنل ہار گئی تو سیف الرحمن نے ورلڈکپ کرکٹ میں ہار کی انکوائری شروع کر دی۔ خوفزدہ کھلاڑی پاکستان آنے سے انکاری تھے۔ سیف الرحمن نواز شریف کے حکم پر ڈنڈا لے کر بیٹھے تھے ۔ ایک ایک کھلاڑی کو بلا کر تفتیش کے مرحلے سے گزارا گیا‘ حکم نواز شریف کا تھا۔

میں جب بھی شریف خاندان کو مصیبتوں میں گھرا پاتا ہوں تو پتہ نہیں مجھے کیوں ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آتے ہیں جن کے ساتھ اس خاندان نے اقتدار کے دنوں میں ظلم کیا تھا ۔ جنرل مشرف کو اذیت میں دیکھتا ہوں تو بھی وہی یاد آتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف پر جنرل مشرف دور میں احتساب کے ادارہ دبائو ڈال رہا تھا کہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف گواہی دیں ۔ وہی پرانا کیس جس میں سیف الرحمن انہیں دھمکاتے رہے تھے۔ وہ ایک ہی جواب دیتے کہ بیلارس سے ٹریکٹر امپورٹ میں کرپشن ممکن ہی نہیں تھی۔ ان پر دبائو بڑھانے کے لیے نیب نے ان کے گھر ان کی بیگم کو فون کر کے ڈرانا شروع کر دیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب اکثر پریشان رہتے کہ یار میری حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ادارہ میری بیوی کو فون کر کے ڈراتا ہے کہ وہ مجھے مجبور کریں کہ میں بینظیر بھٹو کے خلاف گواہی دوں۔ اور پھر ایک دن اس ادارے کا فون ان کی بیگم کو گیا جو آخری ثابت ہوا۔ انہیں آخری دھمکی دی گئی اور ان کا وہیں دم نکل گیا ۔ ڈاکٹر صاحب اکثر مجھے کہتے تھے کہ میری بیوی کو احتساب ادارے نے مارا تھا ۔ یہ جنرل مشرف کا دور تھا۔ آج وہی جنرل مشرف عدالتوں کو مطلوب ہیں اور منتیں کررہے ہیں کہ ان کی جان بخشی کی جائے۔

شہباز شریف نے اپنے پچھلے اقتدار میں ڈاکٹر ظفر الطاف پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ شہباز شریف کے صاحبزادوں کو دودھ‘ دہی‘ انڈوں اور مرغیوں کا شوق پڑ گیا ۔ مقابلے میں ادارہ کسان کا ہلہ دودھ تھا جس کے اعزازی چیئرمین ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ صاحب کے بچوں کا کاروبار کامیاب کرانے کے لیے ہلہ دودھ کو بند کرانا ضروری تھا۔ ادارہ بند کیا گیا ‘ ملازمین پر جھوٹے پرچے دے کر تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ان کی ضمانتیں کرانے گئے تو دھمکی دی گئی کہ آپ ان کی مدد سے باز نہ آئے تو آپ کو بھی دھر لیا جائے گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کب ڈرنے والے تھے‘ ان پر شہباز شریف نے اینٹی کرپشن میں مقدمہ درج کرادیا اور دن رات ان کے گھروں پر چھاپے شروع کر دئیے جہاں وہ اپنی اکیلی بیٹی اور نواسے کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ خواجہ سعد رفیق کو بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ ایک دن بہت دکھی ہوئے اور کہنے لگے: شریف خاندان کے ساتھ پاکستان بننے کے وقت سے تعلقات تھے ‘وہ ان کی اتفاق مل کے قانونی مشیر تھے۔

ان بھائیوں نے والد کے تعلقات کا بھی لحاظ نہ کیا اور بہتر سال کی عمر میں ان پر مقدمے درج کرا کے گھروں پر چھاپے مروا رہے تھے۔ آج انہی شہباز شریف کا بیٹا حمزہ جیل میں ہے جبکہ دوسرا بیٹا سلمان مفرور ہے‘ جس نے ڈاکٹر ظفر الطاف کا جینا حرام کرایا ہوا تھا ۔ خواجہ سعد رفیق بھی جیل میں ہیں۔ یہ سب کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کس دکھ کے ساتھ اس زندگی سے رخصت ہوئے۔ کاش آج وہ زندہ ہوتے‘ سب کچھ دیکھتے کہ جن لوگوں نے انہیں تکلیفیں دیں‘ آج خدا نے کیسے ان سب طاقتور لوگوں کو سزائیں دی ہیں ۔

شریف خاندان کسی دن ڈاکٹر ظفر الطاف کی اکلوتی بیٹی فریحہ الطاف اور ان کے نواسے رعایان کے پاس جائے اور ماں بیٹے سے اس ظلم کی معافی مانگے جو اس خاندان نے ان کے باپ اور نانا پر کیے تھے ‘جن کا میں گواہ ہوں ۔خدا بھی کیا کیا نظارے دکھاتا ہے۔ صرف چار سال پہلے شہباز شریف نے ڈاکٹر ظفر الطاف کا جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ دن رات ان کے گھر پولیس سے چھاپے مروا رہے تھے۔ آج انہی شہباز شریف کو بیٹوں‘ داماد اور ساتھیوں سمیت چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ یہ اور بات ہے کہ اگر ڈاکٹر ظفر الطاف زندہ ہوتے تو شریف خاندان کی یہ حالت دیکھ کر خوش نہ ہوتے‘ افسردہ ہوتے۔ جی ہاں! ڈاکٹر ظفر الطاف ایسے ہی تھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے