فضول خرچی میں کیا حرج ہے؟

کچھ لوگ عزت دینے میں بہت فضول خرچ ہوتے ہیں، انہیں دراصل عزت ملی بہت ہوتی ہے، چنانچہ وہ اسے خرچ بھی بےدریغ کرتے ہیں حالانکہ عزت ملنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں عزت سے الرجی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کئی لوگوں کو پھولوں کی الرجی ہوتی ہے، چنانچہ اگر انہیں کوئی محبت سے پھول پیش کردے تو وہ چھینک چھینک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ساری عمر خوشبو کے لئے ترستے رہ جاتے ہیں۔ عزت سے الرجک لوگوں کی اگر کوئی عزت کرے تو وہ اسے عزت دینے سے روک تو نہیں سکتے، چنانچہ اپنی شخصیت کے ایسے پہلو سامنے لانے لگتے ہیں کہ عزت دینے والا سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ یار یہ میں کس کی عزت کرتا رہا ہوں؟

عزت ہضم نہ کرسکنے والوں کی ایک قسم اور بھی ہے، یہ کم ظرف لوگ ہیں۔ انہیں جب ان کے حصے سے زیادہ عزلت ملتی ہے تو انہیں’’اپھارہ‘‘ ہوجاتا ہے اور یوں عزت کی بدہضمی کی وجہ سے ان کا پیٹ غبارہ بننے لگتا ہے، چنانچہ وہ عزت دینے والے کی عزت گھٹانے میں لگ جاتے ہیں، جو لوگ عزت کے مستحق نہیں ہوتے اور آپ ان کی عزت کرتے ہیں تو ان میں سے کئی آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگ جاتے ہیں، اگر آپ بے وقوف ہیں اور ان سازشوں کے سدباب کے لئے ان کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔جب آپ کسی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ شاید وہ آپ کے ’’تھلے‘‘ لگ گیا ہے،چنانچہ وہ اپنی آستین سے طعنوں اور کمینگیوں کا خنجر نکال کر آپ پر حملہ آور ہوجاتا ہے، چنانچہ کسی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے سے پہلے اس کی سوچ کا الٹرا سائونڈ ضرور کرالینا چاہئے۔

یہ ساری باتیں میں یوں کررہا ہوں کہ میری ساری زندگی رنگ برنگے لوگوں کے درمیان گزری ہے۔ میں نے ہر طرح کی زندگی گزاری ہے، لیکچر ر سے لے کر سفیر پاکستان اور سفیر پاکستان سے متعدد علمی و ادبی اور ثقافتی اداروں کی سربراہی تک کا سفر بھی میں نے طے کیا ہے۔ بطور ادیب اور بطور کالم نگار مجھے کروڑں لوگوں کی بےپناہ محبت حاصل رہی ہے، چھ بہنوں کے اگر دو بھائی ہوں اور اللہ کی رضا کے تحت ان دو میں سے ایک ہی رہ جائے تو بہنوں کی محبت کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ والد اور والدہ کی بےپناہ محبت کا تو ذکر ہی کیا؟ اس کے علاوہ بھی بہت سی محبتیں ملی ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک محبت بھی ایسی نہیں یا میری کوئی ایک خوبی بھی ایسی نہیں جس میں میرا کوئی ذاتی کمال ہو۔

مجھے میرے دوست آگے لے کر آئے وہ میرے راستے کے کانٹے چنتے رہے، ان میں سےجو فوت ہوگئے ہیں، میں ان کی قبروں پر پھول چڑھانے جاتا ہوں اور جو زندہ ہیں، میں ہر لمحہ ان کی خوشبوئوں کے حصار میں رہتا ہوں۔ زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جن کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ہوتے ہیں، چنانچہ جب وہ کسی اعلیٰ منصب پر پہنچتے ہیں تو ان میں سے کچھ کم ظرف ہر نئے آنے والے کے راستے میں کانٹے بچھا کر اپنے ماضی کا انتقام لیتے ہیں اور دوسری طرح کے لوگ پسے ہوئے طبقوں کے لئے اسی طرح آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جیسے ان کے لئے دوسروں نے آسانیاں پیدا کی تھی۔

یہ وہ پس منظر ہے جس نے زندگی میں میرے رویے متعین کئے ہیں۔ میرے پاس ہر طرح کے لوگ آتے ہیں دوست بھی، دشمن بھی، منافق بھی، بہت کم عرصے میں ان کی سوچ اور عمل کے مختلف پہلو مجھ پر عیاں ہوجاتے ہیں، مگر میں دوستوں کے علاوہ دشمنوں ، حاسدوں، منافقوں اور نوع کے دوسرے لوگوں کے ساتھ یہ سوچ کر پورے خلوص سے ملتا ہوں کہ کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ میں انہی لوگوں میں سے ہوں جو عزت دینے میں بہت فضول خرچ واقع ہوئے ہوتے ہیں بلکہ جب کبھی کوئی’’دوست‘‘ چہرے سے نقاب اتار کر کھلم کھلا دشمنی پر اتر آتا ہے تو بھی میں اس کے مقابل نہیں آتا، بس اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کی منفی سوچ نے اسے آج تک کیا دیا ہے اور میں اگر مثبت نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں تو کیا زندگی میں مجھے اس سے کوئی نقصان پہنچا ہے؟ جواب یہی ملتا ہے کہ منفی سوچ آپ کو مسلسل پیچھے لے جائے گی اور اگر آپ کا کوئی دوست ہے بھی تو وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا جبکہ مثبت سوچ کے نتائج بھی مثبت ہی برآمد ہوں گے!

مجھے زندگی میں جن بےشمار کرداروں سے ملاقات کا موقع ملا ہے، ان میں آج سے30برس پیشتر میرا ایم اے او کالج کا ایک کولیگ تھا جس میں بہت خوبیاں تھیں۔ وہ ذہین تھا، خوش کلام تھا، شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتا تھا، اچھی نثر لکھنے کی بھی اس میں بھرپور صلاحیت تھی، وہ اپنی عملی زندگی کے آغاز ہی میں زندگی کی تمام آساشیں حاصل کرنا چاہتا تھا، جو ممکن نہیں ہوتا چنانچہ اس کی ذہنی پریشانیوں نے اسے زندگی میں اس مقام پر فائز نہ ہونے دیا جس مقام کا وہ مستحق تھا۔ وہ ایک روز مجھے ملنے آیا تو شدید ڈپریشن کا شکار دکھائی دیتا تھا، میں چونکہ خود بھی ڈپریشن کا ہلکا پھلکا مریض ہوں، چنانچہ میں اس کی کیفیت سمجھ گیا، میں نے اس روز اس کی ’’تحلیل نفسی‘‘ کی ٹھانی اور بالآخر اس کی ’’رپورٹ‘‘ اسے پیش کرتے ہوئے کہا’’تمہارے ذہن پر ایک خلش کا بہت ز یادہ بوجھ ہے جو تمہاری زندگی میں زہر گھول رہی ہے یا یہ خلش ذہن سے نکال دو یا اس خلش کے ساتھ زندہ رہنا سیکھو‘‘ اس نے پوچھا ’’یہ خلش کیا ہو سکتی ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’میں اس ضمن میں اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا، تم اگر جانتے ہو تو اس کا مداوا وہی ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے!‘‘

میں نہیں جانتا میرا یہ دوست آج کل کہاں ہے، وہ زندگی میں جو چاہتا تھا، وہ اسے مل گیا یا اس کی ذہنی الجھن نے اس کے عمل کی ڈوریں مزید الجھا دی ہیں؟ خدا کرے اس نے منزل تک پہنچنے کے لئے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے