پاکستان کو بنانا ریاست بنا دیا گیا ہے ۔ عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے اور پاکستانی عدلیہ کا حال جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک پوری دنیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کیلئے رسوائی کا باعث بنا چکا ہے ۔ عہدیداروں کے ناقص فیصلوں پر تنقید کو ملک دشمنی قرار دے دیا جاتا ہے ، لاہور ،فیصل آباد ،کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں کاروبار ختم ہو رہے ہیں ،کارخانے بند ہو رہے ہیں ۔روپیہ کی قدر میں دس ماہ کے دوران ساٹھ فیصد کمی کر کے قرضوں کے حجم میں ساٹھ فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔ریاست ماں اسی ہوتی ہے اور یہاں ریاست میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں راتوں رات غربت کی بھاری چکی تلے پھنس کر سسک رہے ہیں ۔ریاست کی تمام تر توجہ مخالف آوازوں کو بند کرنے پر ہے۔
کیا ملک کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے مریم نواز شریف کے جلسے کی کوریج ٌپر پابندی لگا دی جائے کیوں ؟ کیا یہ کسی کے والد صاحب کا ملک ہے ۔یہ 22 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے اور یہ آئین اور قانون کے تحت ہی چلے گا ستر سال کے دوران جو غلطیاں کیں انہیں سدھارنے کا وقت ہے ۔ ۔ جو نجی چینلز پر چماٹ بٹھائے ہوئے ہیں کہتے ہیں جج ارشد ملک کی ویڈیو جعلی ہے ۔ ٹھیک ہے یہ ویڈیو جعلی ہے تو کیا جو جسٹس شوکت صدیقی نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں دباو دال کر مرضی کے فیصلوں پر مجبور کیا جا رہا ہے وہ بھی جعلی تھی ۔عدلیہ ایک آئنی ادارہ ہے لعنت ہے ان چھوٹے لوگوں پر جنہوں نے بلیک میل ہو کر یا دباو میں آ کر ایک آئنی ادارہ کو برباد کر دیا ۔بجائے اس کے جسٹس شوکت صدیقی کے معاملہ پر تفیصلی جانچ ہوتی الزامات کی اعلی سطحی تحقیقات ہوتی آوار بلند کرنے پر شوکت صدیقی کو ہی فارغ کر دیا اور نظر ثانی درخواست تعطل میں ڈال دی ۔اس طرح ملک چلایا جائے گا ۔کیا بہترین عدلیہ اور کسی دباو کو قبول نہ کرنے والے جج قبول نہ کرنا ملک دشمی ہے یا حب الوطنی ؟ ہم سمجھتے ہیں یہ ملک اور قوم کے ساتھ غداری ہے کہ عدلیہ میں ایسے جج ہوں جنہیں بلیک میل کیا جا سکے۔
کیا یہ کسی مہذب ملک میں ممکن ہے کہ ایک اعلی عہدیدار کی سر سے پاوں تک چومنے کی ویڈیو آ جائے اور وہ عہدیدار اپنے عہدے پر قائم رہے ۔کیوں ملک کو اقوام عالم میں تماشا بناتے ہیں ،کیوں اس ملک کو بنانا ریاست بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے فیض آباد دھرنے کے متعلق فیصلہ دیا انہیں بھی نشانے پر رکھ لیا کیا اس ملک میں عدلیہ ،مقننہ اور انتطامیہ ریاست کے تین ستون نہیں ، صرف انتطامیہ ہی ریاست کے سارے ستون بن کر چھت کو گرنے سے بچائے گی ؟ ایسے ملک نہیں چلتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ معاشی بحران سے سوویت یونین ایسی سپر پاور ٹوٹ گئی تھی ۔اسلحہ اور ایٹم بم ریاست کے تحفظ کے ضامن نہیں ریاست کے عوام اور معیشت ریاست کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ جس ملک میں آئین اور قانون کا تحفظ ہو وہ ملک دنیا میں عزت کماتے ہیں ،جن ملکوں کی معیشت مستحکم ہو انہیں عزت ملتی ہے ۔
ہوش کے ناخن لیں ۔جعل سازی نہ کریں اگر جج ارشد ملک پر کوئی دباو نہیں تھا تو احتساب عدالت کے ایک جج سے ملاقات کے بعد بھاگتے ہوئے میڈیا کے کمیروں کی ذد میں آنے والا کون تھا ۔ جج تسلیم کرتا ہے ناصر بٹ اس کا دوست تھا اور ملاقات بھی ہوئی تو کیا یہ ثبوت کافی نہیں ۔ کس چیز کا فرانزک اڈٹ کرائیں گے ،جسٹس شوکت صدیقی نے جو کہا اس کی ادارہ جاتی تحقیقات نہیں ہوئیں الٹا جس افسر کا نام لیا تھا اس کو اسے ادارے کا سربراہ بنا دیا جس سے ایک دنیا خوف کھاتی ہے۔ ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر ادارہ جاتی تھقیقات کیوں نہں ہوئیں ۔ بھٹو کو پھانسی دینے والے جج نسیم حسن شاہ نے اعتراف کر لیا کہ بھٹو کو دباو کے تحت پھانسی دی گئی تھی اس کی ادارہ جاتی تحقیقات کیوں نہیں کرائی گئیں ۔
اس ملک کا آج جو حال ہی وہ ناقص فیصلوں اور مفادات کے تحفظ کی وجہ سے ہے۔ پونے چھ فیصد کی شرح سے ترقی کرتی معیشت کو ،53 ہزار کے انڈکس کے حصص بازار کو ،تین فیصد شرح سود اور چار فیصد افراط زر اور 105 روپیہ ڈالر والے ملک کو 14 فیصد شرح سود پر پہنچا دیا ،ڈالر 158 پر پہنچا دیا ۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے حجم میں ساٹھ فیصد اضافہ کر دیا ،حصص بازار کو 33 ہزار کے انڈکس پر پہنچا دیا ۔کون اس کا حساب لے گا کون پوچھے گا یہ حب الوطنی تھی یا ملک دشمنی ۔
ظلم کی انتہا یہ ہے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ،تمام تر توجہ اپوزیشن کو دبانے ،اور اراکین کی منڈی لگانےاورانہیں توڑنےپر ہے ۔ کیا اس طرح ملک چلائیں گے کیا اس طرح سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریں گے ۔عالمی برادری میں کس طرح سر اٹھا کر جئیں گے ۔اب بھارتی وزیراعظم کے پیچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں اور وہ لفٹ نہیں کراتا ،فون نہیں سنتا ،عالمی فورم پر ملاقات کیلئے راضی نہیں ہوتا اور جس وزیراعظم کے گھر آتا تھا اس کو غدار بنا دیا اور ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ۔ناقص فیصلے جن سے ملک و قوم کو نقصان پہنچتا ہے اور اداروں کا تاثر مسخ ہوتا ہے کون ان فیصلوں کا زمہ دار ہے کیا ان کی جوابدہی نہیں بنتی ۔
میڈیا عوام کی آنکھ اورکان ہوتے ہیں معاشرے میں آزاد اور طاقتور میڈیا احتساب انصاف اور قانون کی پاسداری کیلئے ضروری ہوتا ہے ریاست کا چوتھا ستون کہلاتاہے یہاں میڈیا کو چماٹ اور پالتو اینکرز سے بھر دیا ہے جو کچھ ملک میں چل رہا ہے اس سے خانہ جنگی تو ممکن ہے خیر ممکن نہیں ۔اب بھی وقت ہے حالات کو سدھار لیں ،انا چھوڑ دیں ۔قومی یکجہتی کیلئے درکار اقدامات کریں اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر نیا معاشی معاہدہ کریں اور بیرکس میں واپس جائیں ۔سب ٹھیک ہو جائے گا