متروکہ املاک اور وزیر مذہبی امور کا احسن اقدام

وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری نے ابتداء سے ہی اپنی روش الگ رکھی ہے۔وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور بے جا شور وغوغا سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی وزارت کے معاملات کو بہتری کی طرف لے کے جا رہے ہیں۔پیر صاحب اگرچہ خانقاہی نظام سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میں نے تمام مسالک کے زعماء کو ان کا گرویدہ دیکھا ہے حاضر میں بھی اور غیاب میں بھی، مولانا حنیف جالندھری ہوں یا مولانا علی محمد ابو تراب، مفتی منیب الرحمن ہوں یا علامہ عارف واحدی اور علامہ امین شہیدی ، سارے مسالک کو انھوں نے اپنے بھرپور رابطے میں رکھا ہے۔اور سب کے لیے یکساں دروازے کھلے رکھے ہیں۔

پیر مغاں مرد خلیق ہو تو مہ خاروں کا ہجوم تو ہونا ہے۔تکفیر اور تشدد کے اس دور میں یہ ضروری بھی ہے کہ امت کو ایک لڑی میں پرویا جائے۔پیر نور الحق قادری صاحب کے ساتھ حال ہی میں مکہ کانفرنس میں بھی شرکت کا موقع ملا اور یہاں بھی گاہے بگاہے اکھٹے ہوتے رہتے ہیں۔انتہائی خوبصورت انداز میں بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔اور اس فارمولے پر عمل پیرا ہیں کہ جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ، بردارم عدنان قادری اور ریحان طاہر قادری ایسے دو بہترین ساتھی ہیں جن سے رابطہ رہتا ہے اور وہ ہمہ وقت وزیر صاحب کی نیک نامی کے لیے متحرک رہتے ہیں اور ہم جیسوں کو بھی بیدار رکھتے ہیں۔

اگرچہ اس وقت حج کاموسم ہے لیکن اس پر بات پھر کسی وقت، سر دست پیر نورالحق قادری صاحب کے ایک اہم اقدام کی تحسین کرنی ہے کہ انھوں نے متروکہ وقف املاک بورڈ کو گنگوں اور بہروں سے کسی قدر نجات دلائی ہے۔

اور اس میں ذندہ و بیدار لوگوں کو لے کر آئے ہیں۔جن میں سوات کے مردم خیز خطے سے ڈاکٹر شمس الحمن شمس اور پنجاب سے صاحب زادہ ضیاء النور شاہ شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق متروکہ وقف املاک بورڈ کے گذشتہ افتتاحی اجلاس میں اس وقت دلچسپ صورت حال پیش آئی جب نئے چئیرمین صاحب نے اجلاس کا ایجنڈا پیش کیا اور کہا کہ بریفنگ ہو گی۔اور میں ادارے کا تعارف کرواوں گا۔چند سوالات ہوں گے اور اس کے بعد میری ذاتی طرف سے چائے ہو گی کہ وزیراعظم صاحب نے انٹرٹینمنٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے ۔تب نئے ممبر ڈاکٹر شمس الرحمن شمس نے نکتہ اٹھایا کہ آپ اس اجلاس کو جمہوری انداز میں چلانا چاہتے ہیں یا بیوروکریٹک انداز میں، چئیرمین صاحب کے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی۔ڈاکٹر شمس نے کہا کہ جب تک غیر قانونی الاٹمنٹ اور آکشن پر اجلاس کو مطمئن نہیں کریں گے۔اجلاس جاری رہے گا ۔

اب تک جو لوگ میچ فکس کر کے کام کر تے تھے ۔ان کو یہ صورت حال زیادہ اچھی نہیں لگی۔ڈاکٹر شمس کی توجہ پر لاہور میں ہونے والی الاٹمنٹ منسوخ کی گئی اور بہت سارے دوسرے اقدام اٹھائے گئے۔جو بیورو کریٹس کو کسی بھی صورت میں پسند نہیں ہیں۔اس طرح ان کی ساری عیاشیاں خطرے میں پڑ نے کا خطرہ ہے۔

نئے ممبران سے خائف ہو کر بورڈ انتظامیہ نے وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری کا اپنا نمائندہ بنایا اور وزیر مذہبی امور کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ جو نئے ممبران ہیں یہ بورڈ کے کاموں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔اب کو روکیں۔

لیکن وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب نے ظاہر ہے کہ ان نمائندوں کو گونگے بننے کے لیے نہیں بھیجا تھا بلکہ قومی ادارے کو بچانے اور قومی املاک کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا۔اور وہ یقینا یہی کام کر رہے ہیں۔

میں ذاتی طور پر وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے اس کام کے لیے اچھی اور لائق ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔خصوصا ڈاکٹر شمس الرحمن شمس اور ضیاء النور شاہ نہ صرف اس ادارے بلکہ پیر صاحب کے لیے نیک نامی کا باعث بنیں گے۔

لیکن اس ٹیم اور وزیر صاحب کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس آکٹوپس سے اس ادارے کو نجات دلائیں جو اس ادارے کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔اور وہ اس ادارے کے پرانے ملازمین ہیں۔احتساب کا عمل سیاستدانوں تک نہ محدود رکھا جائے۔بلکہ ایسے ادارے جن کے ملازمین کی تنخواہ ہزاروں میں ہے وہ کروڑوں تک کیسے پہنچے، اس کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر صاحب جس طرح یہاں ایک اچھی ٹیم لائے ہیں۔امید ہے کہ باقی شعبوں میں بھی اسی کی پیروی کریں گے اور اگر ایسا ہی رہا تو پھر ایک بڑا فرق واضح نظر آئے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے