فکری اختلافات اور ہمارا طرز عمل —!

گذشتہ چند دنوں سے مدرسہ ڈسکورس سے متعلق چند تحریرات گشت کر رہی ہیں، بہت سی مفید باتیں زیر گفتگو آئیں، اسی دوران بعض جگہ میرے نام کا بھی تذکرہ ہوا اور ضمنا اس سے جوڑ کر پیش کیا گیا، اس موقع پر بعض احباب ومخلصین کی جانب سے استفسار بھی ہوا، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی وضاحت کردی جاۓ، مجھے اس ضمن میں جو چند باتیں کرنی ہیں ان میں بنیادی چیز ہمارے طرز عمل سے متعلق ہے، اس سے قبل اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میرے متعلق لکھا گیا کہ اگست میں ہونے والے کسی پروگرام میں شرکت ہوگی، ایسے کسی پروگرام کی تفصیلات نہ میرے علم میں ہے نہ ہی منتظمین کی جانب سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے، رہی مدرسہ ڈسکورس سے وابستگی تو اس میں عرض کرتا چلوں کہ مولانا وارث مظہری صاحب ابھی دو ہفتے قبل دارالعلوم دیوبند کے بعض اساتذہ سے ملاقات کی غرض سے دیوبند تشریف لائے تھے،

اس موقع پر مولانا سے دوران ملاقات گفتگو میں اس نظام کے متعلق معلوم ہوا نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے بعض اہم اساتذہ مثلا: مولانا اشتیاق قاسمی صاحب وغیرہ اس میں شریک ہورہے ہیں، اور ۱۷ تاریخ کو ہونے والے انٹرویو میں شرکت کرینگے اور معلوم ہوا کہ شریک بھی ہوئے ، چنانچہ ایسے میں میری دلچسبی بھی ہوئی کہ اس کو دیکھا جائے ، کیونکہ ایک عرصے سے اس کے متعلق احباب سے سنا تھا، تفصیلات کا کوئی بہت زیادہ علم نہ تھا، اس احساس کو مزید تقویت اس سے ملی کہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے بعض اساتذہ بھی اس میں شامل ہیں تو اس کو دیکھا جا سکتا ہے، کوئی مضائقہ نہیں ہے، میرے لئے اس ڈسکورس کی حیثیت ایک اوپن ڈائلاگ سے زیادہ نہیں تھی، جس میں بعض اہل علم جمع ہونگے اور مختلف فکری موضوعات پر حوار اور تبادلہ خیال کرینگے،

میں نے مولانا وارث صاحب سے اپنا عندیہ ظاہر کیا تو انہوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا، اس کے بعد سے مسلسل جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ یقینا فکر مندی میں مبتلا کرنے والی ہیں، ایسے میں قبل اس کے کوئی بات کی جائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان خدشات کے ہوتے ہوۓ ظاہر بات ہےاس میں بہت سے تحفظات ہمارے سامنے ہیں، ہمارے بڑوں کا منہج ہماری اساس ہے، قبل اس کے کہ پورے نظام کا گہرائی سے مطالعہ نہ کیا جائے اور اس کو نہ سمجھا جائے توقف ہی مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ بعض باتیں ہیں جو ہمارے طرز عمل سے متعلق ہیں وہ یقیناً قابل غور ہیں بالخصوص ہمارے فضلاء کے عمومی مزاج میں تحقیقی ذوق کا فقدان، بات کسی نظام کی تائید یا مخالفت کی نہیں البتہ اس طرز عمل کی ضرور ہے جو ہمارے درمیان پنپ رہا ہے، کسی بھی بات پر اس کی اساس اور جڑ تک پہنچے بغیر یقین اور دعوے کی حد تک فیصلہ کرنا خود اسلام کے تحقیق کے لیے وضع کردہ اصولوں کے خلاف ہے، اس میں چند اہم امور ہیں جن کی طرف خصوصی توجہ مطلوب ہے:

1- ان جیسے کورسز/ڈائلاگ کے متعلق جن خدشات اور امکانات کا اظہار کیا گیا ہے تو یقیناً وہ خدشات اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ باہر عصری جامعات میں پڑھنے کی صورت میں موجود ہیں جہاں آپ دن رات چوبیس گھنٹے اس ماحول کا حصہ ہیں، ایسے میں کیا ہمارے فضلاء کے لئے ان جامعات سے براہ راست استفادہ کرنا درست ہے۔؟

اور ہے تو کس حد تک۔؟ کیونکہ ظاہر ہے وہاں بھی کوئی آپ کو بڑے راست فکر اسکالرس نہیں پڑھا رہے ہیں، بلکہ بعض مرتبہ بڑے منحرف الخیال حضرات سے بھی سابقہ پڑتا ہے، جس کے ہم خود بھی شاہد ہیں، لیکن اللہ کا بڑا فضل اور ہمارے اساتذہ اور اکابرین کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ کبھی اس جیسی کسی فکر سے متاثر نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ کوشش کی کہ اسلام کے صحیح معتدل پیغام کو اپنے سلف صالحین کے منہج کے عین مطابق ان حضرات کے سامنے رکھا جائے اور اپنے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، ہدایت دینا نہ دینا اللہ کا کام ہے، اپنی سی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں، بحمد اللہ بسا اوقات بڑی مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں، اوپن ڈائلاگ کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ ہے کہ آپ اگر مدلل انداز سے اپنا موقف پیش کردیں تو لامحالہ ایک طبقہ آپ کا قائل ضرور ہوتا ہے، ہاں شرط ہے اپنے موقف کو مدلل ومستحکم اسلوب کے ساتھ پیش کریں، اور جدید ذہن کو سامنے رکھ کر گفتگو کی جاۓ، ظاہر ہے اس کے لئے با صلاحیت نوجوان فضلاء درکار ہیں، جو اس کام کو باحسن وجوہ انجام دے سکتے ہیں، ایسے میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ایسے پلیٹ فارم پر عمومی نوعیت کی اجازت یقیناً نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے، البتہ عمومی سطح پر حصار بندی بھی کوئی بہت مفید معلوم نہیں ہوتی۔

2 ۔ آج کا دور جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تحقیق اور اختصاص کا دور ہے اور اسی کا غلبہ ہےایسے میں ایک عرصے سے ہماری جانب سے یہ طرز عمل دیکھنے میں آرہا ہے کہ جہاں کبھی کسی فکری موضوع پر گفتگو کی بات ہوگی تو وہاں فوری طور پر ہمارے سامنے تحفظات آڑے آنے لگتے ہیں، اگر یہ تحفظات واقعی اس نوعیت کے ہیں تو پھر ہمیں اپنے طلبہ کی فکری تربیت پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئیے کہ آخر کیسے دسوں سال کی محنت کو کوئی چندماہ یا سال بھر میں ضائع کررہا ہے، ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم اس مسئلہ پر اس ناحیہ سے بھی غور کریں، میں عرض کرتا چلوں بات ذی استعداد فضلائے مدارس کی ہو رہی ہے عمومی نوعیت کے طلبائے مدارس کی نہیں کہ یقیناً وہاں اس کا اندیشہ بہر حال کسی درجہ موجود ہے کیونکہ وہ ابھی تربیتی مرحلے سے گزر ہی رہے ہیں، بلکہ عام فضلاء کو بھی ہم اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں البتہ پختہ فکر و استعداد کے فضلائے مدارس بہرحال ان کے لئے گنجائش ہونی چاہیئے ، ہم سبھی کے لئے ایک قسم کا پیمانہ نہیں رکھ سکتے۔

3۔ آج ہمارے بے شمار فضلاء ملکی، وغیر ملکی جامعات سے استفادہ کر رہے ہیں، تو کیا وہاں پڑھانے والے سارے مشائخ ہیں۔؟ ظاہر ہے ایسا تو ہرگز نہیں، بلکہ یہ جامعات ملحدین، مستشرقین اور مختلف افکار و نظریات سے وابستہ شخصیات سے بھری پڑی ہیں، جب صورتحال ایسی ہے تو پھر اس کے لۓ بھی پابندیاں عائد کردی جائیں، نہ آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ، حتی کہ جامعہ ازہر کی بھی کوئی تخصیص نہ ہو (کیونکہ بعض نظریات وہاں کے مشائخ کے بھی ایسے ہیں جن کا آپ سے شدید اختلاف رہا ہے، خود ماضی قریب میں سابق شیخ الازہر شیخ طنطاوی رحمہ اللہ کے شذوذ سب کے سامنے ہیں)، بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خدشات وہاں اس سے کہیں زیادہ ہیں بمقابلہ اپنے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے بڑوں کی زیر نگرانی کسی چیز کا مطالعہ یا اس سے استفادہ کرنے سے۔

4۔ ہم لوگوں نے حصار بندی کرکے اپنے آپ کو انتہائی درجہ محدود کرلیا ہے کہ اب ہم نہ کسی کو اپنی سنانا چاہتے ہیں نہ کسی کی سننا چاہتے ہیں، محض چند شخصیات کی افکار ونظریات کی بنیاد پر کسی پروگرام کو مشکوک کرنا زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لۓ ہر ناحیہ سے غور وخوض کرکے مکمل تحقیق پیش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا کہ آج کونسی عصری درسگاہ ایسی ہے جہاں کے پڑھانے والوں کے نظریات سے آپ سو فیصد متفق ہونگے، یہ نہ کل ممکن تھا اور نہ آج ہے۔

رہی بات نوٹرے ڈیم یونیورسیٹی کی کہ وہ ایک خاص فکرہ کی ترجمان رہی ہے، تو کیا ہارورڈ اور آکسفورڈ کی بنیاد اساسیات دین پر ہے۔؟ ظاہر ہے پوری مغربی دنیا ایک عرصے سے اسلام کے خلاف میدان میں کام کر رہی ہے، کسی خاص یونیورسیٹی کی تخصیص میرے خیال سے بے جا ہے، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ یوروپ کی اکثروبیشتر جامعات کا آغاز ڈیوینیٹی کالج (‪Divinity College‬) کے طور پر ہوا ہے پھر مرور زمانہ کے ساتھ عمومی نوعیت کی جامعات کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں، اس ضمن میں یوریپین جامعات کی ایک طویل فہرست ہے، تو کیا ہم اپنے ان نوجوان علماء کو جن کو مواقع فراہم ہوں وہاں جاکر اسلام کا راست پیغام عام کرنے سے روکیں، اور صحیح اور معتدل فکر کو ان تک نہ پہنچایا جائے۔؟

5۔ اسی طرح ایک بات کہی گئی کہ فنڈنگ مشکوک ہے، میں باوثوق ذرائع سے تو ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ یہ موضوع ابھی مزید تحقیق کا متقاضی ہے، البتہ اتنا ہمیں معلوم ہے اور دیکھا بھی ہے کہ باہر بہت سی جامعات میں ریسرچ کے لئے فنڈ ایلوکیٹ کیے جاتے ہیں، اساتذہ کو دعوت دی جاتی ہے کہ آپ پروپوزل بنائیں، مذکورہ فنڈز اویلیبل ہیں، اساتذہ اپنے ذوق اور فنڈ کو سامنے رکھ کر مختلف پروپوزل پیش کرتے ہیں، بسا اوقات منظوری ملتی ہے اور بسا اوقات نہیں، رہا یہ سوال کہ ان پروجیکٹ پر کام کرنے سےان کا کیا فائدہ ہوتا ہے، تو اس تعلق سے بھی یہ ذہن میں رہنا چاہیئے کہ آج جامعات کا باہمی تنافس بہت زیادہ ہے ان کی رینکنگ اور درجہ بندی ان جیسی تحقیقات پرموقوف ہوتی ہے کہ کس جامعہ نے اس سال یا اس دورانیہ میں کتنے موضوعات پر کتنی ریسرچ کرائی ہیں، اس سے عالمی پیمانے پر ان جامعات کا بحث وتحقیق کے میدان میں مقام طے ہوتا ہے،

عمومی طور پر ان درسگاہوں میں فنڈنگ کی صورتحال کچھ اسی طرح کی ہوتی ہے، یقیناً بہت سے حضرات اس طریقہ کار سے واقف ہونگے، اساتذہ کے لئے بھی یہ چیزیں ان کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں، کہ کون کتنے یا کس پروجیکٹ میں شریک ہیں، اس سے وہ اپنی ترقیات کے مراحل طے کرتے ہیں، ظاہر ہے یہ اس کا مادی پہلو ہے، اس کی بنیاد پر بعض مرتبہ بڑی نئی واہم تحقیقات ہمارے سامنے آتی ہیں، بڑے بڑے انسائکلوپیڈیا ان جیسے پروجیکٹ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئے ہیں، اس میں جامعہ اور اساتذہ دونوں ہی کا کہیں نہ کہیں فائدہ جڑا ہوتا ہے، جامعات میں یہ عام روٹین کا حصہ ہے، اس طرح کے پروجیکٹس آئے دن منظور ہوتے رہتے ہیں، اب سوال ہے کہ مدارس ہی موضوع کیوں ۔؟

تو اس میں باحثین کے ذوق کا بھی دخل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذوق کو سامنے رکھ کر پروجیکٹ منتخب کرتے ہیں، ہوسکتا ہے (جب تک کوئی بات یقین اور تحقیق سے معلوم نہ ہو تو کوئی حتمی راۓ کا قائم کرنا مناسب نہیں) یہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہو، ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب ( ان کی شخصیت کے ساتھ اختلاف و اتفاق کی بھر پورگنجائش کے باوجود ) بہرحال انہی مدارس کے فیض یافتگان میں ہیں، ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں اس طرح کا کوئی خاکہ رہا ہو، جس کے لئے انہونے پروپوزل پیش کیا ہو۔

جہاں تک فنڈنگ آرگنائزیشن کا تعلق ہے ان کے در پردہ کیا عزائم ہیں وہ تو بالضبط نہیں معلوم البتہ جو مواد ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈسکورس کے لئے خاص مذہب اسلام ہی کو نہیں بلکہ تمام مذاہب عالم کو اس کی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور اس کا حصہ بنیں، چنانچہ ریلیجس ڈسکورس (‪Religious Discourse‬) ان کا ایک اہم موضوع ہے، اس کے لۓ وہ پروجیکٹ بھی ایپروو کر رہے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ بعض پراجیکٹ عیسائی سیمینریوں (مذہبی درسگاہوں ) سے متعلق ہیں جو اسی نوعیت کے ہیں، تو گویا کہ ان کے منجملہ اغراض ومقاصد میں چونکہ اسلام بھی زیر گفتگو ہے تو ممکن ہے کہ اس کے لئے انہونے یہ پروجیکٹ اسپانسر کیا ہو، البتہ میں پھر یہ عرض کرونگا کہ یہ موضوع ابھی قابل تحقیق ہے، اس کی مزید معلومات فراہم کی جانی چاہیئے ، محض توہمات اور خدشات کی بنیاد پر یقینی رائے تک پہنچنا مشکل ہے۔

6۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یوروپی دنیا میں تحقیق کے نام پر بڑی بڑی رقومات خرچ کی جاتی ہیں، یہ مزاج تو ہمارے یہاں بڑی سے بڑی سرکاری جامعات میں بھی نہیں ہے، اصل میں اس کا تعلق بنیادی طور پر عوامی نفسیات سے ہوتا ہے، یہ بات ہر کس و ناکس کہ علم میں ہے کہ معاصر دنیا میں تحقیق کا جو ذوق مغربی خواص وعوام میں پایا جاتا ہے وہ کسی دوسرے خطے یا قوم میں نہیں (یہ الگ بات ہے کہ تحقیق کے زریں اصول خود مذہب اسلام میں موجود ہیں، بلکہ اس کی نیو اور اساس ہی اسلام کی دین ہے، لیکن افسوس کہ آج اس کا فقدان ہمارے یہاں بکثرت پایا جاتا ہے ) یہی تحقیقی ذوق تو ہے کہ اس خطے میں بالخصوص مسلسل اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے باوجود بکثرت لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے چلے جارہے ہیں، اسلاموفوبیا جس کو مخالفین نے اسلام سے دور کرنے کے لۓ بطور آلہ استعمال کیا آج اسی کے وجہ سے ایک طبقہ جو کسی درجہ حق کا متلاشی ہے اور مزاج میں جستجو وتحقیق رکھتا ہے اسلام کا براہ راست مطالعہ کر رہا ہے، اور اس کے نتیجہ میں اس سے متاثر بھی ہو رہا ہے، بہرحال ان کے عمومی مزاج میں تحقیق کا عنصر غالب ہے، اسی بنیاد پر اس حلقے میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لہذا بغیر کسی پختہ ثبوت ہمارا اس پر سوالیہ نشان لگانا مناسب معلوم نہیں ہوتا، ہاں تحقیق ضرور کی جانی چاہیئے ۔!

7۔ ہمارے عمومی مزاج میں تحقیق کا فقدان ہے، بغیر کسی مستحکم بنیاد کے تشکیک یہ ایک خاص ٹرینڈ چلا ہے، کم از کم وہ نوجوان فضلاء جو خود بھی عصری درسگاہوں سے کسی درجہ کسب فیض کر چکے ہیں ان کو یہ طرز نہیں اختیار کرنا چاہئیے ، اگر کچھ چیزیں ہیں بھی تب بھی علی وجہ البصیرت اس کا مثبت پیراۓ میں رد ہونا چاہیئے نہ کہ قبل از تحقیق عوامی فورم پر آکر اس طرح کی گفتگو کی جائے، کیا اس کورس/ڈائلاگ کے مشمولات کو دیکھا گیا ہے۔؟

ان کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔؟ اگر ہاں تو اس کو بھی پیش کیا جانا چاہیئے تاکہ جانا جا سکے کہ کہاں کیا خرابی متوقع ہے، رہی بات پلورلزم کی، تو آج کونسی عصری درسگاہ ایسی ہے جہاں اس کی دعوت نہ دی جاتی ہو، بلکہ ریلیجس ہارمنی (بین المذاہب ہم آہنگی) میں اس کو اہم محرک کے طور پر پیش بھی کیا جارہا ہے، اس سے بلکل اختلاف ہے اور ہونا بھی چاہیئے کہ یہ ہمارے نظریات سے بالکلیہ متصادم ہے، لیکن پھر کوئی خاص ڈائلاگ ہی کیوں، بلکہ وہ تمام حلقے جہاں اس قسم کی گفتگو ہو یا وہاں پڑھانے والوں کے نظریات سے ہم متفق نہ ہوں تو اس کے متعلق یہی رد عمل ہونا چاہیئے ، اور اس کا بالکلیہ بائکاٹ ہونا چاہیئے اس میں کسی کورس، جامعہ یا ادارہ کی کوئی تخصیص نہ ہونی چاہیئے ، چاہے وہ آکسفورڈ ہو، کیمبرج ہو یا جامعہ ازہر ہی کیوں نہ ہو بلکہ ہندوستانی جامعات ہی کیوں نہ ہوں، ایسے میں اس پہلو پر بھی غور کرنی کی شدید ضرورت ہے۔

یہ چند باتیں قابل غور ہیں، اس تحریر کا مقصد کسی کی تائید یا مخالفت نہیں، البتہ اس طرز عمل کی تردید ضرور ہے جو ہمارے یہاں پنپ رہا ہے۔ میں خود چاہونگا کہ اس کا تحقیقی دراسہ ہونا چاہیۓ، اس کے مشمولات پر گہری نظر ہو، منہج تدریس پر ناقدانہ گفتگو ہو، تب جاکر کوئی چیز نکھر کر سامنے آسکتی ہے، کیونکہ تحقیق نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان دلائل کی روشنی میں نتائج تک پہنچے، اور اگر ذہن میں نتیجہ پہلے سے متعین ہو اور پھر اس کے لئے دلائل فراہم کۓ جائیں تو وہ تحقیق کے نام پر تحریف ہے، یہ اس وقت کے فضلاء کی ذمہ داری ہے، کہ صرف بہاؤ کے ساتھ بہہ کر چند شخصیات کے نظریات کی بنیاد پر کوئی راۓ قائم نہ کی جاۓ بلکہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ علمی محاسبہ کریں اور اگر واقعی کچھ چیزیں قابل گرفت ہیں تو اس کا علمی بنیادوں پر تعاقب کریں، اور یہی طریقہ کار علماء کو عوام سے جدا کرتا ہے۔

جب کبھی بھی علمی موضوعات پربات ہوگی اس میں بہت سے نازک مسائل آئینگے، اس کے لئے ہمارے مدارس میں اپنے فضلاء کی ایسی تدریب کا نظم اور اہتمام ہونا چاہیۓ کہ وہ اپنے موقف کو مستحکم ومدلل انداز سے پیش کر سکیں جس سے کہ باطل افکار ونظریات کا تعاقب ہو سکے۔

شکیب الحسن فاروقی حضرت قاسم نانوتوی کے پڑپوتے اور مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف کے بیٹے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے