ایران پر کیا گزرے گی؟

تنگنائے ہرمز میں کشیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ امریکہ اور ایران ایک بار پھر سینگ اڑائے نظر آتے ہیں۔ اس تنازعے میں ایران اور امریکہ کی کیا صورت حال ہو گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کچھ چیدہ چیدہ نکات سامنے نظر آتے ہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے دنیا کی سیاست کا جو نقشہ نظر آتا ہے وہ بظاہر بنیادی انسانی جبلت ہی پہ قائم ہے۔ وسائل کی تلاش۔ اب یہ وسائل اکیسویں صدی میں کیا شکل اختیار کر گئے ہیں وہ بھی سامنے کی بات ہے۔

تیل کے ذخائر سے مالا مال مشرق وسطی اور ایران دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ ایران میں دنیا کا تقریباً تین حصے تیل موجود ہے اور تیل کی پیداوار میں یہ چوتھے نمبر پہ ہے۔

عرب اسرائیل تنازعے میں نہر سوئز کی بندش کے بعد ، مشرق وسطی کے معاملات تو ایسے سدھار لیے گئے کہ آج وہاں سے ایک پتا بھی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا لیکن ایران ویسا کا ویسا منہ زور ہے جیسا کہ ہمیشہ سے تھا۔

اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ایران جب منہ زور ہوا تو اس وقت امریکہ روس کی طرف متوجہ تھا۔ یہ عین وہ زمانہ تھا جب ایران کے اسلامی انقلاب ہی کی طرز پہ پاکستان میں بھی فوجی اسلامی انقلاب لایا گیا اور پھر افغانستان کو میدان جنگ بنا کے روس کے ٹکڑے کئے گئے۔

اس جنگ سے فراغت بھی نہ ہوئی تھی کہ القاعدہ کا غلغلہ اٹھ کھڑا ہوا اور یوں افغانستان میں اٹھارہ سال طویل ایک جنگ لڑی گئی۔ اس دوران مصر، لیبیا، عراق، شام، یمن ، سب جگہوں کا امن بھی ٹھکانے لگایا گیا۔ قطر اور سعودیہ عرب کے درمیان مچیٹا ہوا۔ ایران اسی طرح ’مرگ بر امریکہ‘ کا نعرہ لگاتا اور خلیج فارس کے داخلی راستے پہ دندناتا رہا۔

امریکہ کے ایران پر عراق کی طرح براہ راست حملہ نہ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ ایران کا جغرافیہ بھی ہے۔

ایران کے نقشے پہ نظر ڈالیں تو بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ تین اطراف سے یہ ملک پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور چوتھی طرف خلیج فارس ہے۔ خلیج فارس میں ایک چھ میل چوڑا قدرتی موڑ، تنگنائے ہرمز کے نام سے موجود ہے۔ یہ موڑ اس قدر تنگ ہے کہ آنے والے ٹینکرز کے لیے دو میل راستہ رکھا گیا اور اسی قدر راستہ جانے والے ٹینکرز کے لیے ہے جبکہ درمیان میں ایک دو میل چوڑی پٹی فاصلے کے لیے چھوڑی گئی ہے۔

دنیا میں خام تیل کی ترسیل کے لیے یہ ایک اہم ترین مقام ہے ۔ جسے بند کر دیئے جانے سے دنیا یقیناً زیر و زبر ہو سکتی ہے۔

ایران گو کوئی بہت بڑی بحری طاقت نہیں اور نہ ہی بندر عباس کے سوا اس کے پاس کوئی بڑی بندر گاہ ہی ہے لیکن تنگنائے ہرمز ایک ایسا مقام ہے جس پہ اس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔

اگر ہم ایران کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ہمیں اس عظیم الشان تاریخ اور ثقافت کے مالک ملک پہ بیرونی طاقتوں کے غلبے شاذ ہی نظر آئیں گے۔

اس کی وجہ اس کے چاروں طرف پھیلے پہاڑ اور ان کے درمیان میں واقع دو صحرا، دشت لوط اور دشت کویر ہیں۔

ان پہاڑوں کو عبور کر کے ایران میں داخل ہونا خاصا مشکل کام ہے۔ اسی طرح ان پہاڑوں سے پار جا کے دوسرے ملکوں کو فتح کرنا بھی اسی قدر مشکل کام ہے۔ ایران اور عراق نے آٹھ سال کی ایک طویل جنگ میں یہ سبق ہی حاصل کیا تھا۔

ایران قدرتی گیس کی دولت سے بھی مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک امیر ملک نہیں۔ ملک کا موجودہ سیاسی نظام اور خارجہ پالیسی بھی کافی حد تک اس غربت کے ذمہ دار ہیں لیکن ایران کا اپنا جغرافیہ بھی اس غربت کا ذمہ دار ہے۔ ایران کی زیادہ تر آبادی پہاڑوں میں رہتی ہے جہاں صنعتیں وغیرہ لگانا خاصا مشکل ہے۔

ایران کی خارجہ پالیسی کسی بھی انقلابی نظریاتی ملک کی طرح اسے تنہائی کی طرف دھکیل چکی ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے پابندیاں لگنے کے بعد ایران خاصی مالی مشکلات کا شکار ہے ۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اور تنگنائے ہرمز، اس کے تیل سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ، مغرب اور شمال میں عراق اور افغانستان میں موجودگی کی صورت میں براہ راست، اور مشرق میں پاکستان کی صورت میں بالواسطہ ایران پہ حملہ کر سکتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے ( یا نہ کرنے ) کے بعد اب امریکہ ایک نئی جنگ چھیڑ سکتا ہے جو کہ ایرانی انقلاب کے پچھلے چالیس سالوں میں شاید ممکن نہ تھا۔

عراق اور افغانستان کے راستے تو یہ ایک بے حد مشکل اور لاحاصل جنگ ہو گی لیکن اگر پاکستان ایک بار پھر امریکہ کی دفاع اور جنگ کی پہلی صف بن جاتا ہے تو امریکہ آبنائے ہرمز ہتھیانے میں کامیاب بھی ہو سکتا ہے ۔ جس کے بعد تیل کی ترسیل میں کسی بھی رکاوٹ کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل سکتا ہے ۔( روس کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے )

لیکن کیا پاکستان ایک بار پھر خطے میں بد امنی پھیلانے کے لیے امریکہ کا ساتھ دے گا یا نہیں؟ اور کیا تنگنائے ہرمز کے متبادل تیل کی پائپ لائنیں اتنی فعال ہیں کہ یہاں جنگ چھیڑی جا سکے ؟

ایران، تنگنائے ہرمز کے بغیر پوپلے منہ کا شیر ہو کر رہ جائے گا ۔ مگر فی الحال وہ شیر ہے اور اس شیر کے منہ میں ہاتھ کون ڈالے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے