گزرے زمانے کی یادیں

پرانی فلموں کے گانے سننے کا ٹھرک کم عمری سے ہی تھا۔ جب پہلا ریڈیو ہاتھ آیا تو کوشش یہ ہوتی کہ ریڈیو سیلون کا صبح سات بجے والا پروگرام سُنا جائے جس کا عنوان تب بھی اور آج تک ‘پرانی فلموں کا سنگیت‘ ہے۔ شارٹ ویو پہ پروگرام آتا تھا، کبھی آواز صحیح ہوتی اور کبھی گانے مشکل سے سُنے جاتے لیکن کان لگائے بیٹھے رہتے اور گزرے زمانے کی موسیقی اور آوازیں محو ہو کے سُنتے۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ آخری گانا ہمیشہ کندن لال سہگل کا ہوتا۔ وہیں سے سہگل صاحب کی آواز سے تعارف ہوا اور گو اُس زمانے کی کئی عادات آئیں اور پھر چلی گئیں لیکن اِس ایک عادت سے زندگی بھر کا ساتھ رہا۔
پی ایم اے کاکول میں ٹریننگ کے بعد پہلی پوسٹنگ ملیر کراچی میں ہوئی۔ عمر تب بمشکل 19-20 سال تھی لیکن تب بھی مارے مارے ایمپریس مارکیٹ کے چکر لگتے اس جستجو میں کہ کہیں سے سہگل صاحب کے گانے مل جائیں۔ ایک چھوٹی سی دکان سے کچھ ریکارڈ ملے اور اُنہیں وہ جو پرانے تھالی نما ٹیپ ہوا کرتے تھے اُن پہ ریکارڈ کرایا۔ پھر زندگی کا سفر اور ٹھکانوں پہ لے گیا اور ریڈیو سیلون کے پرانے فلموں کے سنگیت والے پروگرام سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ سہگل صاحب کو تو سُنتے رہے لیکن اور ذرائع سے۔ ریڈیو سیلون کا وہ خاص پروگرام زندگی کا حصہ نہ رہا۔
لیکن کمالات دیکھیے اس حیران کن ایجاد کے جس کا نام یو ٹیوب ہے۔ یہ تو ہماری عمر والے ہی جانتے ہیں کہ موسیقی پہ ہاتھ لگانا کتنا مشکل ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو ایک ذریعہ تھا اور متمول گھرانوں میں ٹیپ ریکارڈر اور ریکارڈ پلیئر ہوا کرتے تھے۔ البتہ ہر ایک کی افورڈ سے وہ باہر تھے۔ ہم جیسوں کیلئے دستیاب ذریعہ ریڈیو کا ہی تھا۔ لیکن دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ اَب تو ہاتھ میں سمارٹ فون ہو اور انٹرنیٹ سے رابطہ ہو تو دنیا کی پوری موسیقی کا خزانہ آپ کی finger tips پہ ہوتا ہے۔ کون سی موسیقی ہے جو کہ یوٹیوب پہ موجود نہیں، عظیم سے عظیم تر سے لے کر بیہودہ سے بیہودہ تک۔ فون کی سکرین پہ اُنگلی لے جائیے اور خزانہ کھل جاتا ہے۔
یو ٹیوب کی ہی مہربانی ہے کہ اَب پتہ چلا کہ ریڈیو سیلون یا جسے اب سری لنکا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کہتے ہیں کا پرانی فلموں کا سنگیت والا پروگرام اب بھی ویسے ہی موجود ہے جیسے گزرے ہوئے زمانوں میں تھا۔ پرانے وقت یعنی پاکستان کے صبح سات بجے ہی چلتا ہے اور فوراً اپ لوڈ ہو جاتا ہے یعنی آپ جب بھی سننا چاہیں آسمانوں میں موجود ہوتا ہے۔ آپ جب چاہیں اُس خزانے میں کوئی بھی آئٹم نیچے بلا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ریڈیو کی نسبت آواز بہت بہتر ہوتی ہے اور اگر آپ کے پاس کوئی سپیکر ہو تو پھر سُننے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بیتے ہوئے دنوں میں بھی ریڈیو سیلون کے اناؤنسرز کی بہت مسحور کن آوازیں ہوتی تھیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کل کی ہر ایک اناؤنسر کی ہندی میں روانی اتنی زیادہ نہیں۔ ایک نالنی صاحبہ ہیں جن کا ہندی پہ عبور ذرا کم ہے لیکن اُس ادھوری ہندی کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ ایک سمانتھا (Samantha) ہیں جن کی ہندی پہ گرفت مکمل نہیں لیکن آواز ایسی ہے کہ میں اُسی میں کھو جاتا ہوں۔ کئی ایک بار صرف اُن کی آواز اور آدھی ہندی کی وجہ سے پروگرام سُن لیتے ہیں۔ بے حد پُر کشش کہنا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اُن کی آواز پہ کوئی لفظ جچتا ہے تو یہی ہے۔لیکن سری لنکا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے اس پروگرام کی سٹار اناؤنسر کوئی ہیں تو وہ جوتی پرمار ہیں۔ ہندی بھی مکمل جانتی ہیں اور اردو بھی۔ نہ صرف آواز دلکش ہے بلکہ ادائیگی کا انداز بھی بہت پُر اَثر ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے گانوں کا چناؤ بھی بہت خوب ہے۔ دیگر اناؤنسرز اور اِن میں فرق صاف نظر آ جاتا ہے۔ اِن کے گانوں کی سلیکشن الگ ہوتی ہے۔

ایک اور بات ہے، جوتی پرمار جب آخری گانے پہ آتی ہیں تو ہمیشہ کندن لال سہگل ‘صاحب‘ کہتی ہیں، یعنی صاحب کے بغیر نام نہیں لیتیں۔ اکثر یہ بھی کہتی ہیں کہ سہگل صاحب کی اَمر آواز میں ہم فلاں گانا آپ کو سنانے جا رہے ہیں۔ اِن ساری وجوہات کی بنا پہ اپنا تو جوتی پرمار سے تقریباً لَو افیئر (love affair) ہو چلا ہے۔ پروگرام ختم کرنے کا انداز بھی اُن کا اپنا ہے۔ ہمیشہ کہتی ہیں: آپ نے آج ہمارا پروگرام سنا ہم آپ کے شکر گزار ہیں اور کامنا کرتے ہیں کہ آج کا دن آپ سب کیلئے شُبھ ہو۔ کئی بار اختتامیہ الفاظ دوبارہ سننے کو جی چاہتا ہے۔

یہ بات مکمل طور پہ صحیح نہیں کہ موسیقی کا عمر سے کوئی خاص تعلق ہے۔ یہ ضرور ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ شوق تھوڑے سنجیدہ ہو جاتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر کان میں موسیقی کا رَس نہ ہو تو آپ بڑھاپے میں بھی قدم رکھیں‘ آپ کو ڈھنگ کی موسیقی سے کوئی خاص رغبت نہ ہو گی۔ کان اور ذہن میں وہ خاص چیز ہونی چاہیے کہ آپ اچھی موسیقی کی طرف مائل ہوں۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن سے آپ کلاسیکی موسیقی کے بارے میں پوچھیں اور اُن کو اُس کا الف ب پتہ نہ ہو گا‘ لیکن اچھی موسیقی اُنہیں سُنائیں تو وہ جھوم اُٹھیں گے۔ مغربی کلاسیکی موسیقی کے جو اوپرا (opera) ہیں اُن سے محظوظ ہونے کیلئے کوئی خاص تعلیم یا ٹریننگ کی ضرورت نہیں۔ بس کانوں میں وہ رَس ہو تو اگر اوپرا پہلی بار بھی سنیں تو آپ کو موسیقی پسند آئے گی۔ مشہور فلم ‘پریٹی وومن‘ (Pretty Woman) کا وہ منظر نہ بھولنے والا ہے جب رچرڈ گیئر (Richard Gere) جولیا رابرٹس (Julia Roberts) کو ایک اوپرا سنانے لے جاتا ہے۔ فلم میں جولیا رابرٹس ایک عام سی، میں کیا الفاظ چنوں، ثقافتی لائن کی ورکر ہیں۔ اُن کا کلاسیکی موسیقی سے کیا لینا دینا ہو سکتا تھا لیکن جب اوپرا ہاؤس کی بالکونی میں بیٹھ کر جولیا رابرٹس موسیقی اور گانا سنتی ہے تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ رچرڈ گیئر اُس کی طرف چپکے سے دیکھتا ہے یہ جاننے کیلئے کہ اُس میں کوئی موسیقی کا کیڑا ہے یا نہیں۔ اُس کے آنسو دیکھ کے وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔

حیرانی لیکن اس بات پہ ہوتی ہے کہ اِس نئے دور کے خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوتے۔ اٹلی کے لوگ بڑے میوزیکل ہیں۔ ایک تو اُن کی زبان ہی ایسی لگتی ہے جیسے موسیقی میں دُھلی ہو اور پھر وہاں پہ اوپرا کی بڑی روایت رہی ہے۔ واگنر کے اوپرا ذرا بھاری ہوتے ہیں، اٹالین اوپرا وزن میں تھوڑے نیچے۔ لیکن اٹلی میں اوپرا اور اس قسم کی موسیقی کی عوامی مقبولیت ہے۔ اسی لیے اٹالین مافیا کی فلموں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی گاڈ فادر یا ڈان نما مافیا کا سربراہ بیٹھا ہے اور مسلسل موسیقی کسی اوپرا کی لگی ہوئی ہے۔

ہمارے ہاں بھی مختلف شکلوں میں موسیقی روزمرّہ زندگی کا حصہ رہی ہے لیکن جتنا اِس روایت کو پنپنا چاہیے تھا اُس حوالے سے ہم نے کوتاہی برتی۔ ایک زمانے میں میلے ٹھیلوں میں ہیر اور مرزا صاحباں گائی جاتی تھیں۔ اب بھی ایسا ہوتا ہے لیکن مخصوص مقامات پہ۔ وہ جو روایت عام ہونی چاہیے تھی ایسے نہیں رہی۔ آج کل کی موسیقی پہ تبرّے تو نہیں کسنے چاہئیں، آخر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے، لیکن کوتاہی کا پہلو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ ریڈیو میں اب پرائیویٹ سٹیشن آ چکے ہیں لیکن ریڈیو پاکستان تو اب بھی سرکار کا ایک ادارہ ہے۔ انگریز کے زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ترویج ہوتی تھی۔ ماضی کا کون سا بڑا کلاسیکی گلوکار ہے جس نے آل انڈیا ریڈیو یا بعد میں ریڈیو پاکستان میں اپنے فن کا مظاہرہ نہ کیا ہو؟ لیکن جہاں اور چیزوں سے ہم نے لا پروائی برتی، موسیقی کے ساتھ بھی ہم نے یہی کیا۔ حالانکہ ریڈیو پاکستان ایسا زبردست ذریعہ بن سکتا تھا‘ جس سے ہماری اپنی لوک موسیقی اور کلاسیکی موسیقی کو حوصلہ ملتا۔
بہرحال اِن باتوں پہ کیا رونا۔ ہمارے ہاں موسیقی کی جو بھی حالت ہو یو ٹیوب تو ایک ایسا اُفق ہے جس میں آپ جائیں تو غرق ہو جائیں کیونکہ ایک اُفق کے بعد ایک اور نظر آتا ہے… اور اُس کے بعد کئی اور۔ زمان و مکان کی ساری بحثیں لا یعنی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے