مولانا فضل الرحمان ۔۔ موم کا مجسمہ یا لوہے کا چنا

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دیوارسے لگانے اورغیراہم تصورکرنے کے باوجودحالیہ جلسوں کے بعد مولانافضل الرحمن اور انکی پارٹی نے ایک مزاحمتی سیاسی رہنمااورمخالف دھڑے کے طو رپراپنے آپ کو متعارف کرایاہے جس کوحزب اختلاف کے رہنماﺅں سے زیادہ ان کے ورکرزنے سنجیدگی سے لیاہے ۔

جمعیت علماءسلام کے امیرمولانافضل الرحمن نے25جولائی کوپشاور اور28جولائی کوکوئٹہ میں ناموس رسالت ملین مارچ میں تاریخی جلسوں کاانعقاد کرکے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچادی ہے جس کے بعد حکومتی ترجمانوں کی جانب سے بیان کے بعدبیان داغے جارہے ہیں قومی دھارے کی دوسیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی اسوقت شدید حکومتی عتاب کی شکار ہیں . دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما یا توپابندسلاسل ہیں یاپھر عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں جس کے باعث ان کے رویوں میں مد وجذر آتا رہتا ہے . اسی وجہ سے حکومت اورپاکستان تحریک انصاف کے متعلق ان دونوں سیاسی جماعتوں کی نسبت مولانافضل الرحمن کا لہجہ انتہائی سخت ہے.

اسوقت سابق صدر زرداری اور ان کی بہن فریال تالپورجعلی بینک اکاﺅنٹس ٹرانزکشن،شہبازشریف آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم ،حمزہ شہبازصاف پانی کی فراہمی،نوازشریف اورمریم نوازپانامہ اوردیگرکئی رہنما مختلف نوعیت کے مقدمات میں یاتوجیل میں ہیں یاپھر جیلوں سے باہرپیشیوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔اہم حکومتی رہنماکے مطابق مولانافضل الرحمن کے خلاف بدعنوانی کاکوئی ایساسکینڈل نہیں جس کے باعث مولانا کوگرفتار کیاجاسکے اسکے علاوہ مولانا فضل الرحمان اپنے ورکرز کو گھروں سڑکوں پر لانے کا ہنر جانتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ مولاناصاحب ابھی تک حکومت کے "انصاف ” سے بچے ہوئے ہیں ۔

جمعیت علماءاسلام کے ایک اہم مرکزی رہنما نے بتایاکہ مولانافضل الرحمن نے 80کی دہائی میں سیاست شروع کی، اسوقت مولاناکاسامنا شاہ احمدنورانی ،مولاناعبدالستارنیازی اور قاضی حسین جیسی قدآورشخصیات سے تھا یہ تمام رہنماوقت اورحالات کے بلبلیوں میں گم ہوکرتاریخ کاحصہ بن گئے لیکن مولانافضل الرحمن نے نہ صرف اپنی سیاسی جماعت کو زندہ رکھابلکہ ایک مذہبی اور اس سے زیادہ سیاسی شخصیت کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا .

انہوں نے بتایاکہ 90کی دہائی میں مولانافضل الرحمن کا جھکاﺅبے نظیربھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب تھا، نئی صدی کے آغاز پر شدیداختلافات کے باوجود مولانافضل الرحمن پرویزمشرف کے قریبی ساتھیوں میں سمجھے جاتے تھے 2010کے بعد مولانافضل الرحمن نے مسلم لیگ کے ساتھ رابطے استوارکردئیے اور نوازشریف کے آنکھوں کاتارابن گئے مولانا سب کےلئے قابل قبول ہیں ۔

ماضی میں مولانافضل الرحمن نے ہمیشہ مصالحت کی سیاست کی ہے تاہم خیبرپختونخوامیں 2013میں بعدازاں2018ءمیں مینڈیٹ نہ ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمن کھل کر تحریک انصاف کے سامنے کھڑے ہوگئے ، انکاخیال ہے کہ خیبرپختونخوامیں انکامینڈیٹ پی ٹی آئی کے حوالے کیاگیا اوریہی بنیادی وجہ مولانا فضل الرحمن کو مزاحمت کے میدان میں لیکرآئی ۔

وفاقی کابینہ کے ایک وزیرنے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایاکہ پاکستان تحریک انصاف نے مولانافضل الرحمن کو ان کے حجم سے کم لیا . پی ٹی آئی نے تھوک کے حساب سے تمام سیاسی جماعتوں سے دشمنیاں مول لیں لیکن سب میں صرف مولانا لوہے کاچنے ثابت ہوئے . انہوں نے بتایاکہ ماضی میں دائیں بازو کی جوسیاست مذہبی جماعتیں کیاکرتی تھیں اس سے زیادہ انتہائی دائیں بازو کی سیاست پاکستان تحریک انصاف نے اختیار کی، طالبان کی حمایت کی ،اسٹبلشمنٹ کی اشیربادحاصل کی اوراقتدارکی سنگھاسن پربیٹھ گئی اوریہی بات مولانافضل الرحمن کوکھٹکتی ہے کہ جومقام ماضی میں انکاتھا وہ اب تحریک انصاف کاہے .

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی ماضی کی بدعنوانیوں کے باعث بھیگی بلیاں بنی ہوئی ہیں، مولانافضل الرحمن نے اپنے آپ کونہ صرف سیاسی رہنماکی حیثیت سے منوایا بلکہ اپنے مذہبی کارڈکوبھی زندہ رکھتے ہوئے جے یوآئی کو قومی دھارے کی جماعتوں میں شامل کیاہے۔جے یو آئی کو ماضی میں سخت گیر رویہ رکھنی والی جماعت تصور کی جاتی تھے لیکن مولانا فضل الرحمان اس سخت گیر رویے کو موڑتے ہوئے اپنے کارکنان کو قومی دھارے میں شامل کیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے