کہیں یہ کراچی “کارما” تو نہیں؟؟؟

‎مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی موجودہ سیاست اور دبنگ تقریریں گو کہ جمہوریت پسندوں کہ لیے مایوسی میں اُمید کی کِرن ہے البتہ آج دفتر میں دل کا حال و خدشات اپنے باس سے کہہ آیا ہوں جو کہ تھوڑا سوچنے کہ بعد کہنے لگے کہ “رائٹ.. مایوسی کہ چانس بھی نظر آتے ہیں، مگر اچھے کی اُمید رکھو۔۔۔”۔

‎میں اور باس حقیقت میں دفتر کا کام کَکھ نہیں کرتے ، دفتری کام گھر پہ نپٹانے ہیں اور دفتر میں تو بس وہ بینسن جلاتے ہیں، ادھر میں ہمارے ملازم مقبول بھائی کو دو کپ چائے کی آواز لگادیتا ہوں۔۔ سیاسی طور پر ہم دونوں ہی کچھ جذباتی اور اُصولی ہیں اور تھوڑی بہت نظریاتی مشترکات بھی پائی جاتی ہیں۔ جن میں پہلی تو یہ کہ ہمیں موجودہ حکومت سے کچھ چِڑ سی ہے.. فلحال ہم دونوں ہی بلاول اور مریم پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور موضوعِ گفتگو بھی ان کی سیاسی سرگرمیاں ہی رہتی ہیں۔

‎ہاں! پڑھنے والے یہ بجا سوچ سکتے ہیں کہ کراچی کہ بھئّیے کیوں ان دونوں سے آس امید باندھ بیٹھے تو اسکی وجہ کراچی میں سیاس” ہیللو” ہائے پر پابندی ہے اور یہاں کی موجودہ سیاست “جیسا ہے، جہاں ہے” کی بنیاد پر چل رہی ہے۔
‎خیر اس سے پہلے ہم دونوں مریم اور بلاول کی تقریروں پر گفتگو کرتے اور انکی جد و جہد پر دھمال ڈالتے میں نے یکدم کہہ دیا ک دونوں مایوس کرینگے۔۔ میں نے فلمی انداز کا پاز دیا جیسے سٹار پلس کہ ڈراموں میں بڑی بہو تُلسی دودھ اُبلنے پر دیتی تھی پر باس میری اوور ایکٹنگ کے درمیان میں دیوار بن گئے۔۔

وضاحت ڈھونڈتی نظروں سے جیسے ہی مجھے گھُورا تو میں بول پڑا کہ یار یہ لڑائی۔۔ شور۔۔ ہنگامہ۔۔تو بس اس بات کی ہے کہ ابو! آپ نے میری سائڈ کیوں نہیں لی۔۔ اور جب ابو سائیڈ لیلینگے تو یہ جمہوری و انسانی۔ حقوق کہ لیے آواز اُٹھانا بند کردینگے اور ہم لعنت بھیج کر کچھ دن دفترپر دیہان دینگے اور پھر چند دن بعد ہم اگر عمران خان کہ ساتھ اگلی حکومت نے ناروا سلوک رکھا تو بادل ناخواستہ اُن میں اپنا “چِی گووّیرا” تلاش کرینگے۔ اس دوران مقبول چائے لے آیا اور دل ہی دل میں ہمیں “فارغ” بول کہ آگے بڑھ گیا۔

‎باس کہنے لگے یہ تو ایک طرح کا مکافات عمل ہے جس کو انگریزی میں ‘کارما’ کہا جاتا ہے۔۔ اوریہ اس ملک میں “آن ریپیٹ” لگا ہوا ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ بلکل اور یہ انکے ساتھ حقیقت میں “کراچی کارما” ہو رہا ہے۔۔ یہ بولتے ہی یادداشت کراچی میں گزشتہ کچھ سالوں میں ہونے والے سیاسی واقعات کی طرف چلی گئی جب ایم کیو ایم اور شہر کی دیگر سیاسی جماعتوں کہ مطالبے پر کراچی میں جرائم پیشہ افراد و دہشت گردی کہ خلاف آپریشن کا آغاز ہوا اور آہستہ آہستہ ایم کیو ایم خود اسکی لپیٹ میں آگئی۔۔ اس جماعت کہ ہیڈ کوارٹر پر ریڈ ماری گئی۔۔ بانی ایم کو ایم کی تقریریں نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی اس کہ پسِ پردہ کچھ وجوہات اسلام آباد میں ہونے والا تحریک انصاف کا دھرنا اور چئیرمین سینیٹ کا الیکشن بھی سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر ایم کیو ایم کی اپنی غلطیاں البتہ یہ معاملات چلتے رہے اور کراچی کہ سیاسی حالات بگڑتے چلے گئے۔۔ ایم کیو ایم کہ احتجاج پر مریم اور بلاول کہ چاہنے والے کہتے تھے کہ “کچھ تو کیا ہے جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔۔

اگر بیگناہ ہیں تو عدالت سے چھُوٹ جائینگے” کئی سیاسی لیڈر گرفتار ہوئے اور کارکن لاپتہ رہے، حتہ کہ ایک “اُستاد” اور سیاسی لیڈر کا قتل ہوا پر آج کا جمہوریت پسند میڈیا اس جانب سے اندھا ہو چکا تھا۔۔ جبکہ مریم بی بی کہ والد کی حکومت میں یہ کوشش بھی جاری رہی ک کچھ “لوگوں کہ بول کہ کب بلکل بھی آزاد نہ رہیں” ، متنازع سائبر کرائم بل لایا گیا۔۔ سوشل میڈیا ایکٹو سٹ اور میاں نواز شریف کی حکومت کہ ناقدین پر مزہب کارڈ لگایا گیا۔۔ اور بالآخر تمام کہ تمام نے ملک سے باہر سکونت اختیار کی۔۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار جس کی چاہتے عزت اُچھالتے پر اُنکہ ساتھ بھی پھر خُوب ہی ہوا۔۔۔

‎ ہاں کراچی کارما بھی کہ سکتے ہیں مگر “ ‎بھائی تمنیں سُنا بلاول نے کیا کہا۔۔ بھائی۔۔۔ جی باس۔۔ کیا سوچ رہا ہے ؟ میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔ بلاول کی پریس کانفرنس سُنی؟ باس کہ سوال پہ میں بولا جی۔۔ اُسکا کہنا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کی تقریروں پر پابندی نہیں لگنی چاہیے تھی۔۔ تھوڑی خاموشی کہ بعد پھر ہم دونوں نے کالم نگار و “استاد” عرفان سدیقی کی گرفتاری پر مزمت کی اور میڈیا پر بھی اس حوالے سے بھر پور گفتگو سُنی پھر آپس میں ایک دوسرے سے یہ استفسار کیا کہ یار یہ پی ٹی ایم کہ اسیر ایم این اے کب رہا ہونگے۔۔

چائے ختم ہوتے ہوتے اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ اگر بلاول اور مریم کی نیت صاف ہے تو ڈھیر دعائیں بس مایوس نہ کریں۔۔بات اختتام پر تھی اور دفتری کام انجام دے کر تنخواہ حلال کی جا رہی تھی پر زہن کراچی میں پیش آنے والی سیاسی تبدیلیوں یا زیادتیوں پر اٹکا رہا۔ مریم اُس وقت چُپ رہیں اور بلاول بھی ابو کہ ایک دوست کی قربانی دے کر اینجوائے کرتے رہے۔ فاروق ستار یہ شعر پڑھتے رہے “چراغ سب کہ بُجھینگے ہوا کسی کی نہیں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے